پاکستان کے ہر مرد اور عورت کی نشاۃ ثانیہ، کردار سازی پرا جیکٹ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ہے ملت کے مقدر کا ستارا
The Renaissance of ‘Individual is the actual Renaissance of society
اللہ کے حکم کے مطابق انسان سازی کا طریقہ کار
۔ ’’در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘ (سورہ احزاب۔آیت 21)
اس رول ماڈل کی نقل کر کے ہی اپنے اخلاق کو بہتر سے بہتر بنا کر دنیا کو دکھانا ہے۔ ۔اس حکم کو فرض سمجھ کر آج سے، اس لئے ، ہر گھر میں سیرت النبی ﷺ کی کتاب ہر روز پڑھی جانی چاہئے اور اس کے مطابق عادات بنانی چاہئیں تا کہ ہم بہترین انسان اور مسلمان بن جائیں۔
حسن کردار سے نور مجسم ہو جا۔ کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے
تاکہ اس دنیا کو بہترین سسٹم دے کر گڈ گورننس کر کے دنیاوی زندگی کو بھی جنت نظیر بنا دیا جائے،جیسے کہ نبی کریم ﷺ نے ریاست مدینہ بنا کر دکھا دیا تھا اور جس کی صرف مشرقی اور مغربی ترقی یافتہ ممالک میں جھلک دیکھی جا سکتی ہے

     مگر ہم ایک کنفیوز قوم  ہیں جو ۵ ۷ سال میں اسوہ حسنہ کو فرض قرار دینے سے گریزاں ہے کیونکہ ہم کردار سازی  انسان سازی کی اہمیت سے ہی واقف نہیں کہ نیشب بلڈنگ میں  بنیاد انسان سازی سے ہی شروع ہوتی ہے یہی سنت ہے
   اس دنیا میں ترقی یافتہ ملکوں کو دیکھ کر بھی ، ہم عوام،، سیاسی لیڈروں،علماء ، مشائخ میں  کسے سی  میں یہ بھی سوال پوچھنے کی سمجھ اور شوق بھی پیدا نہیں ہوا کہ  ہم  ان  جیسے باکردار، با اخلاق ، بہترین حقوق ادا کرنے والے کیوں نہیں ہیں؟  مذہبی رہنما جو اپنے کو نبی کا وارث کہلاتے ہیں وہ قرآن اور سنت  جانتے ہیں   پڑھاتے ہیں،  وعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں  اور ہمارے زوال کی وجہ قرآن و سنت پر عمل نہ کرنا ہے، تو اگلا سوال کیوں  جنم نہیں لیتا ہے کہ پھر ان جیسا کیسے بنا جائے؟
    الحمد للہ کہ  میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوئے اور میں  جواب  میںیہ سٹڈی  سب کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں تاکہ یہ ذہنی تازیانے اور ٹرگر کا کام کریں اور ذہن صدیوں کی غفلت سے بیدار ہو کر سوچنے لگیں۔کہ  ہم نے مصطفوی  کلچر اور تہذیب کیسے  بنانی ہے۔  مصطفوی  کلچر کی چند عادات  کی ابتدا کر کے  اپ لوڈ کر دی ہے۔فیڈ بیک ضرور دیں۔
    گروپ کیپٹن ( ر) امتیاز  علی۔ +92-345-5366081   ای میلch.imtiazali@gmail.com
                              راولپنڈی۔پاکستان۔ دسمبر ۲۰۲۱

                           افتتاحیہ

دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلمان ملک مغربی غلامی سے آزاد ہوئے تو مذہبی رہنماؤں کی سوچ اسلامی نظام کی طرف گئی اور ان کا خیال تھا کہ جب تک سیاسی لیڈرشپ مذہبی لیڈروں کو نہیں ملتی تو اسلامی نظام رائج نہیں کیا جا سکتا تو ہر اسلامی ملک میں یہ کوشش شروع ہوئی کہ ملک میں حکمرانی حاصل کی جائے۔ تو ساری کوشش اس کوشش کی طرف منتقل ہو گئی ۔جہاں جہاں اسلامی نظام کو مذہبی لیڈرشپ محدود لیول پر لا سکی، ان کا ماڈل چودہ سو سال پہلے کی عرب قبائلی سوشل لیول پر تھا جس کو عوام پسند نہ کر سکی اور جس سے ہر ملک میں فساد شروع ہو گیا۔ تمام دنیا بھی مذہبی حکومت سے خائف تھی تو انہوں نے بھی مخالفت شروع کر دی۔ پچاس ساٹھ سال کی خواری کے بعد سمجھ آئی کہ پولیٹیکل اسلام کی فلاسفی سے جیتنا مشکل ہے۔ ہر اسلامی ملک میں طریقہ کار کی سوچ بدل گئی
وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بھی پہلی دفعہ سب کو ایک نیشنل مقصد دیا ہے کہ ہم نے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح فلاحی مملکت بنانا ہے۔ کوئی سیریس ہوم ورک نہیں کیا گیا کہ طریقہ کار کیا ہوگا۔عوام کو اس مقصد کی سمجھ ہی نہیں جبکہ آپوزیشن پارٹیوں کے ذہنی غلاموں نے اس مقصد کو مذاق بنا دیا ہے۔ اور نہ ہی عمران خان نے تفصیل سے بتایا ہے کہ یہ کام کیسے ہو گا، کون کرے گا، اور اس کی مثال دنیا میں دیکھی جا سکتی ہے جس سے سب کو سمجھ آ جانی چاہئے۔ اور میرے خیال میں سب سے بڑی غلطی یہ کر لی ہے کہ رہنمائی کے لئے علماء اور مشائخ کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے جن کو نہ خود سمجھ ہے، نہ نیشن بلڈنگ کا شوق ہے، نہ ہی صدیوں سے کسی ایک نے بھی یہ تحقیق کرنے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ مغربی ممالک نے یہ کام کیا ہے۔نہ ہی ان سے سیکھنے کا سوچا ہے۔ْ؟
اب تک کی پیش رفت مختصرا یہ ہے کہ پہلے گورنر پنجاب نے کردار سازی کے لئے یہ سوچا کہ صوبہ پنجاب میں قرآن مجید کی ترجمے کے ساتھ پڑھنے کو پہلی جماعت سے ڈگری لیول تک لازمی قرار دیا جائے۔ اور اس قابلیت کے بغیر ڈگری نہیں دی جائے گی۔
عمراں خاں نے علماء اور مشائخ کی سفارشات پر پورے پاکستان میں پہلی جماعت سے عربی زبان کی تعلیم لازمی قرا ر دی گئی ہے۔ جمعے کی چھٹی شروع کرنے کی بھی سفارش کی جو کہ عوام نے رد کر دی کیونکہ یہ تجربہ پہلے کیا جا چکا ہے اور فیل ہو گیا تھا۔ پاکستال لیول پر یکساں نصاب تعلیم رائج کیا گیا ہے۔ سکولوں میں ظہر کی ماز با جماعت شروع کی گئی ہے۔ صبح کی اسمبلی سے پہلے درود شریف پڑھا جائے گا۔
لیکن حیرت اور دکھ کی بات ہے کہ کسی نے بھی یورپ کی تاریک دور dark ages سے نکل enlighnmentکی کوشش یعنی نشاۃ ثانیہreniassance کی سٹڈی ہے ۔ نہ ہی انیسویں صدی میں جاپان کی نشاۃ ثانیہ اور ورلڈ پاور بننے کی سٹڈی کی ہے۔ نہ ہی چین کے انقلاب کی کامیابی کی وجوہات معلوم کرنے اور اس سے سیکھنے کی کوشش کی ہے نہ ہی چین کے بعد تایئوان ، ساؤتھ کوریا، سنگاپور، ملایشیا، بلکہ اب تباہ شدہ ویت نام کی ترقی جاننے کے لئے کوئی دانشوروں کو بھیجا ہے۔ بلکہ لوکل مذہبی رہنماوں کی طرف دیکھا ہے اور ان کی ستر سال میں پاکستان کی نیشن بلڈنگ کی کوششوں کو فیل کرنے میں ان کے کردار کی سٹڈی کی ہے۔
الحمد للہ کہ میں نے گورنر پنجاب صاھب کو ان کے اقدامات کے نقائص کی نشان دہی کی اور عمراں خان صاحب کو دی گئی سفارشات میں نقائص کی اسلامی نظریاتی کونسل کی توجہ بھی دلائی کہ یہ سب اسلامی نظریات ہونے کی وجہ سے اپنانے سے زیرو مطلوبہ نتائج ملنے کے ساتھ ہی پبلک میں منفی تاثرات بھی پیدا کریں گے اور وقت اور پیسے کا زیاں بھی ہوگا اور سب سے بڑا نقصان پوری آبادی کو مذہبی لحاظ سے تقسیم کر دیا جائے
یہی سوچ کر میں نے اپنے طور پر سٹڈی کی ہے تا کہ اس کو بنیاد بنا کر نیشل لیول پر سوچ بچار شروع ہو جائے۔
اگر مرض کا صحیح پتہ چل جائے تو پھر علاج مشکل نہیں رہتا۔ اصل مسئلہ مرض کا پتہ لگانا ہوتا ۔ تو پھر کیاہمیں اصل مرض کی تشخیص کو سب سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چایئے جو ہم نہیں کر رہے یہ صرف سر سید احمد خان نے کیا تا۔
مرض کی تشخیص اور تحقیق کے لئے میں نے نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ۔ کہ اچھا سوال آدھا علم ہے۔ سوال جواب کی طرز پرسوچنے کو اپنایا
کلام پاک کی تعلیم کو ڈگری تک ضروری قرار دیا ہے کردار سازی اور اخلاق سازی کی اہمیت اور ضرورت اور کچھ کرنے کے جذبے سے سر شار ہ یہ نیشن بلڈنگ میں پہلی ضرورت ہوتی ہے جس کو ہم تہتر سال سے بھولے ہوئے تھے آپ نے نہ صرف یاد دلایا بلکہ عملی قدم بھی اٹھا لیا ہے۔
آپ کے مشن کو ضرور کامیاب ہونا چاہیے کیونکہ آپ نے بالکل صحیح نشان دہی کر کے مقصد کا تعین کر لیا ہے مگر اس کے حصول کے لئے مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ میں صرف اہم نقاط کی شکل میں آپ تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں ۔

پہلا سوال ۔ہم بچوں کو  قرآن کا ترجمہ  پڑھنے پر مجبور کرنے کے لئے  یہ شرط کیوں لگا رہے  ہیں کہ ورنہ ڈگری نہیں ملے گی  

جواب یہ ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے وہ خود بخود ہی اچھے مسلمان اور ناکردار اور با اخلاق پاکستانی بن جائیں گے۔؟
مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بہت کم تعداد اچھے مسلمان بنتے ہیں
دوسرا سوال ؛۔ کیا قانون بنا دینے سے مقصد حاصل ہو جائے گا۔؟ جب ہم نے ڈگری کو قرآن کے ترجمے کے ساتھ منسلک کر دیا ہے تو طلباء کا صرف ڈگری لینا مقصد ہوگا، تووہ صرف اسی ا رادے اور دلچسپی سے ترجمہ پڑھیں گے کہ اتنی محنت کرو جتنی ضروری ہے شارٹ کٹ ڈھونڈ لو۔ اس لیے میں سے زیادہ ترکی شخصیت پر صفر اثر ہو گا۔ مگر یقینا چند بندے ضرور ہونگے جو تبدیل ہو جائں گے۔قرآن کو مقصد زندگی بنا لیں گے۔
۱۔ علما صرف یہی کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے زوال کی وجہ قرآن اور حدیث پر عمل نہ کرنا ہے۔ ہم نے بھی ان سے کبھی نہیں پوچھا کہ پھر عمل کیسے کریں کہ کردارپیدا ہو ۔ نہ ہی وہ خود بتاتے ہیں کہ ایسے کرو۔
۲۔بدقسمی کہئے یا ان کی عدم دلچسی دیکھئے کہ ان کو خود بھی احساس بھی نہیں ہے کہ مذہبی حلقوں میں بھی کردار اور اخلاق کیوں نہیں ہے،؟
۳۔۔تو ان دو باتوں سے یہ نتیجہ نکالنا بالکل درست ہے کہ ہم سب اورہمارے ،مذہبی لیڈروں کو صدیوں سے مسلمانوں کے زوال اور کردار اور اخلاق کی پسماندگی کی نہ ہی فکر ہے اور نہ ہی صحیح تشخیص کر سکے ہیں ۔
۴۔ ۲۔قانون کے لحاظ سے بھی ایک اور سوال بھی بنتا ہے۔؟ ڈگری ایک خاص ہنر کے مضمون کی ہوتی ہے ۔ اگر وہ اس مضمون میں کوالی فائی کر لیتا ہے تو کیا یہ قانونا یا شرعا جائز بنتا ہے کہ اس پر کوئی سے بھی شرط عائد کی جائے کہ یہ کروگے تو ڈگری ملے گی ورنہ نہیں ۔ جبکہ قرآن پڑھنا ایک ذاتی اورمذہبی فرض ہے۔ کیا سٹیٹ اس میں دخل اندازی کر سکتی ہے۔ کیا یہ جبر جائز ہے ۔کیا اس جبر سے وہ مقصد حاصل ہو جاء ے گا جس کے لئے یہ شرط عائد کی گئی ہے۔
تو فورا دوسرا سوال ذہن میں آیا کیا قرآن ترجمے سے پڑھنے سے خود بخود اچھے مسلمان اور باکردار انسان پیدا ہو جاتا ہے۔ جواب نفی میں ہے۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق تو ایسا ہوتے نہیں دیکھا۔مندرجہ ذیل مثالیں اور مشاہدات تو یہی بتاتے ہیںجن سے ہمارے لئے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے کافی ہیں ۔
۱۔ ۱سکولوں میں دینیات کے مضامین میں قرآن کا ترجمہ، سیرت کی کتابیں، حدیثین ، بزرگوں کے اقوال سب طالب علم پڑھتے ہیں۔ انکے پڑھنے کے باوجود ماضی میں بھی کبھی بھی ہم جماعتوں، ہم سکولوں کالجوں میں خود بخود کردار سازی کبھی نہیں ہوئی، نہ آج کل ہو رہی ہے۔ اس لئے اب بھی ڈگری کے لئے صرف قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے کردار اور اخلاقی سازی ہونی ممکن نہیں ہو گی ،
۲۔ عربوں کی زبان عربی ہے قرآن پڑھنے کے دوران ہی جانتے ہیں کہ اللہ کیا کہہ رہا ہے مگر کیا ان کا کردار قرآن کے مطابق ہے یا ترقی یافتہ قوموں کے برابر ہے۔ جواب نہیں میں ہے۔
۳۔مدارس کے تمام سٹوڈنٹ، اساتذ علماء ، امام مسجد پیر حضرات، سجادہ نشین صاحبان، یہ سب قرآن ترجمے کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں اور عربی زبان بھی جانتے ہیں، مگر ان سب کا کردار او راخلاق انسانی حقوق اور معاملات کی پرفارمنس کبھی بھی قابل رشک اور قابل تقلید نہیں رہی بلکہ یہی اسلام کی بد نامی کا باعث ہیں۔
۴۔ یہی حال سیاست دان ، عام مسلمان، بزنس مین ، صنعت کار، سکولوں کالجوں کے استاتذہ، تعلیم یافتہ عورتوں اور مرد وں کابھی ہے
کہ قرآن ترجمے کے ساتھ بھی پڑ ھ سکتے ہیں مگر بہت کم ہیں جو عمل کرتے ہیں
سوال۔ کیا دوسری عبادات سے بھی خود بخود کردار پیدا ہو جاتا ہے؟ کیا ہم سب کا بھی مشاہدہ اور تجربہ بھی نہیں ہے کہ
علماء ہمیشہ ہمیں یہی کہتے ہیں کہ داڑھی رکھ لو، نمازیں پڑھ لو تو اچھے مسلمان بن جاؤگے ، مگر مشاہدہ یہ ہے کہ نہ ہی نمازیں پڑھنے سے اور نہ ہی ، حج عمرے کرنے سے خود بخود کردار اور اچھے اخلاق پیدا ہو جا تا ہے۔ بلکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہم پاکستانی حج عمرے کرنے میں دنیا میں نمبر ایک ہیں مگر کردار اخلاق معاملات میں سب سے پیچھے۔
سوال؛۔ کیا غیر مسلم ہماری نمازوں اور عبادت سے متاثر ہو جاتے ہیں ۔ نہیں
وہ صرف ہمارے کردار،اخلاق ، معاملات میں دیانت داری سے متاثر ہونگے۔جیسے ہم ان کی انہی وجوہات سے تعریف کرتے نہیں تھکتے ۔
مگر ہم میں پھر بھی شوق نہیں پیدا ہوتا کہ ہم ان جیسے اخلاق آداب انسانی حقوق ادا کرنے والے اور معاملات میں بہترین بن جائیں تا کہ لوگ ہماری بھی تعریف کریں،
سوال ؛ ہم میں پھر مشاہدے کے باوجو یہ شوق بھی کیوں پیدا نہیں ہو رہا۔؟ ہمارا مشاہدہ ہے کہ تقریبا سو فیصد سیاسی لیڈروں میں بھی ملک کو ترقی دینے کا بالکل شوق نہیں ہے حالانکہ یہ ترقی یافتہ ملکوں میں جاتے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں سے ملتے ہیں، اس موضوع پر بہت سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے
ہمارا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر علماء پیر اب گرمیوں میں مشرقی اورمغربی ترقی یا فتہ ملکوں میں جاتے ہیں آ کر ان کے کردار اخلاق کی تعریف بھی کرتے ہیں مگر ان میں بھی شوق پھر بھی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اور ہماری قوم بھی ایسی ہو جائے ۔ کچھ کیا جائے۔ وہ گفتار کیوں رہتے ہیں سلف کی طرح با کردار کیوں نہیں بن جاتے
شوق پیدا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؛ مذہبی رہنما ہیں جو صدیوں سے عوام کی برین واشنگ کر رہے ہیں کہ ہمیں دنیا کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ دنیا صرف کافروں کے لیے ہے ہمیں صرف آخرت کی فکر کرنی چاہیے وہ صرف ہمارے لیے ہے کافروں کے لئے نہیں ۔
علماء کا یہ نظریہ بنیادی طور ہر غلط اور قرآن کے خلاف ہے۔ ہے اس کا ثبوت یہ دو آیات ہیں ۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنہ اللہ تعالی خود کہہ رہا ہے کہ مجھ سے دنیا کا حسنہ مانگیں ۔جب آخرت کا حسنہ صرف جنت ہے تو دنیا کا حسنہ بھی اس دنیا کو جنت بنانا ہی بنتا ہے ۔
غلطی کا دوسرا ثبوت اللہ تعالی کا یہ حکم ہے کہ ہر لحاظ سے اتنا طاقتور بنو کہ دشمن کے دل میں دہشت پھیلے اور یہ طاقت معاشی طاقتور بننے اور اتحاد اور اتفاق سے جنم لے سکتی ہے۔ مگر انہوں نے اللہ کے واضح ھکم کہ تفرقہ بہ پھیلاو، فرقہ پرستی پھیلا کر نفی کر دی ہے۔

کیا دوسروں کو صرف دیکھ لینے سے کردار اور اخلاق سازی ہو سکتی ہے؟ ؛۔ نہہں
آ پ خود انگلینڈ رہے ہیں ۔میں انگلینڈ کے علاوہ اور بھی کئی مغربی ممالک میں جاتا رہتا ہوں۔ کیا ہم سب کا مشاہدہ نہیں کہ مغربی ممالک میں گئے مسلمانوں نے گوروں کے اخلاق اور کردار کو دیکھ کر بھی ان سے بھی بہت کم سیکھا ہے حالانکہ انسان بچپن سے ہی سیکھتا ہی نقل سے ہے
ہم فیشن تو فورا اپنا لیں گے مگر اچھی باتیں نہیں بلکہ گوروں کو برا ہی کہتے رہتے ہیں اور اپنے کو اچھا جو اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے ۔ مثلا گوروں کو تھینک یو سوری کہیں گے مگر آپس میں کہنے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں کے جم پل بچے، بلکہ تیسری نسل بھی اب تک گوروں کے مقابلے کے انسان نہیں بن سکے۔ وہاں کے مساجد کے امام اور خطیب بھی تبدیل نہیں ہو سکے ۔ نتیجہ؛۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ دوسروں کو اچھے کردار اور اخلاق کا مظاہرہ کرتے دیکھ کر بھی ضروری نہیں کہ یہ صفات خود بخود پیدا ہو جائیں۔ بلکہ بڑی حیران کن بات یہ بھی ہے کہ شوق بھی پیدا ہوتے نہیں دیکھا۔ ؟
ہمارا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ ہم میں علما ء پیر سجادہ نشین، سیاست دان، والدین ٹیچر پروفیسر وغیرہ سب کردار اخلاق انسان سازی کی بات ہی نہیںکر تے تو کیوں۔؟۔ کیونکہ خود مثال نہیں بن سکتے اگر بات کریں گے تو لوگ فورا ان کی ذات پر سوال کریں گے ۔۔ 1971 کی جنگ میں صبح کی نماز کے بعد فوج کی ایک یونٹ نے حملہ کرنا تھا تو امام مسجد نے شہادت کے درجات کی بات کی تو ایک شرارتی سپاہی نہ کہا مولوی صاحب تو پھر آپ بھی حملے میں شامل ہو جائیں تو وہ کہنے لگے کہ پتر ہمارا کام صرف تمہیں تیار کرنا ہے ہم نے خودجہاد نہیں کر نا۔
کیا ہم نے صدیوں سے دوسروں کو دیکھ کر کوئی ایک بھی سبق سیکھا ہے۔؟
جی نہیں ہم اندھی تقلید کے مسلک پر ہیں ۔ جس سے بصارت اور بصیرت دونوں جاتے رہتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں سے بھی کچھ سیکھتے نہیںہیں اور ہم کسی اورسے بھی سیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم اپنے کو عقل کل سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ سمجھ ہوتی تو ہم ترقی یافتہ ملکوں سے سوشل ڈویلپمنٹ میں مدد مانگتے۔
جاپان ، چین ، تائیوان ساؤتھ کوریا سنگا پور وغیرہ سب نے ترقی یافتہ قوموں سے ہی کردار سازی میں مدد لے کر ترقی کی ہے ۔ مگر ہماری نہ سیکھنے کی تازہ مثال ، ملک بھر میں انگلش میڈیم شروع کر نے کی نئی قانون سازی سے ہوئی ہے۔ جب تک بچے کے ساتھ ذہنی رابطہ ہی نہ ہو تو وہ چیزیں کیسے سیکھے گا۔
ناظرہ قرآن کا صدیوں سے رائج طریقہ کار۔ بغیر سمجھے پڑھتے رہنا۔ اس لیے زندگی میں کویی تبدیلی نہیں ٓتی
جبکہ عیسائی اردو میں بائبل پڑھتے ہیں اس لیے ہم سے وہ اخلاق میں قدرے بہتر ہوتے ہیں
ہمارے یہاں ناظرہ قرآن کے لئے صرف عربی کی لکھائی پڑھنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد قرآن مجید عربی میں پڑھنا آ جاتا ہے۔ مگر ایک بھی لفظ کی سمجھ نہیں ہوتی کہ اللہ تعالی ہم سے کیا کہ رہا ہے۔ یہی حال نماز میں ہے کہ ہم کو نہیں پتہ ہوتا کہ ہم اللہ تعالی سے کیا وعدہ کر رہے ہیں کیا مانگ رہے ہیں ۔ اسی لئے ہماری نماز برایئوں سے نہیں روکتی۔ ماتھے پر بڑا نشان ہو گا مگر جھوٹ بول رہے ہونگے۔ بزنس میں گھپلے کر رہے ہونگے
دنیاوی معاملات میں بھی کیا ناظرہ قرآن کی طرح ناظرہ انگلش میڈیم سکول کی یکسانیت سے ہمارے تعلیم کے ماہرین کی کم عقلی کا بھی ثبوت مل رہا ہے۔ تو کیا یہ ہمای دنیاوی اور مذہبی دونوں معاملات میں نا سمجھی کی علامت نہیں۔؟
ہمارے یہاں پہلی جماعت سے انگلش میڈیم شروع ہے۔ سکول میں صرف سوال جواب انگریزی میں یاد کرا دیتے ہیں جبکہ بچے کے ساتھ communication نہیں ہو رہی ہوتی اور اسے ایک بھی لفظ کے معنی نہیں آتے۔ انگریزی میں سوال کریں تو پوچھے گا کونسا سوال نمبر ہے وہ بتادیں تو فورا صحیح جواب سنا دے گا۔ جبکہ پوری دنیا مادری زبان میں تعلیم شروع کرتے ہیں ۔
ہندوستاں میں بھی انگریزوں نے پہلی چار جماعتیں مادری زبان میں تعلیم کی رکھیں تحیں ۔ پانچویں سے انگریزی بطور زبان پڑھائی جاتی تھی اور وہ بھیtranslation method سے تا کہ سمجھ کرپڑھی اور سیکھی جائے۔
کیا ہم صدیوں سے ایک اور غلط اور لا حاصل نظریے کے پیچھے نہیں پڑے ہوئے ہیں کہ جب تک ہمیں سیاسی حکومت نہیں مل جاتی اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا ۔ علما جب اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں تو سیاسی طاقت سے صرف فقہ کا نفاذ ہوتا ہے جس کو نافذ کرنے کا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں نہ کہ سیاست دانوں کا۔ یعنی اس کلیم کے پیچھے حکمرانی کی خواہش چھپی ہوئی ہوتی ہے ۔ یہ کبھی بھی کردار، اخلاق یا آداب، حقوق العباد معاملات کی بات نہیں کرتے کیونکہ اسے وہ اسلامی نظام کا حصہ نہیں سمجھتے جبکہ کویی بھی سیاسی سسٹم ہو یہ صرف صاحب کردار لوگ چلا سکتے ہیں ۔ اس کا ثبوت ہم خود ہیں کہ بے کردار سیاسی لیڈر کوئی بھی سسٹم نہیں چلنے دیتے
دنیاوی زندگی سے مشاہدات کہ صرف کتابیں پڑھ لینے سے علم یا ہنر نہیں آ جاتا۔
دنیا وی معاملات میں بھی یہی ہوتا ہے کہ صرف کتاب پڑھ لینے سے خود بخود ہی ہنر نہیں سیکھ سکتے۔اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے
ہمیں ایک دفعہ سبق پڑھ لینے سے یاد نہیں بلکہ لگاتار محنت کرنی پڑتی ہے رٹہ لگانا پڑتا ہے بار بار پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے ہنر کے لئے سیکھنے کے بعد استاد کی زیر نگرانی کام کرنا پڑتا ہے۔بچوں کو ایک دفعہ پہاڑے سکھا دیں تو یاد نہیں ہوتے
حدیث علم سیکھنے سے آتا ہے عادت ڈالنے سے ڈلتی ہے
اگر ہم صرف کتاب سے یہ پڑھ لیں کہ سائکل یا جہاز کیسے چلا تے ہیںاور خوب یاد بھی کر لیں تو اس سے نہ ہی سائکل چلا سکتے ہیں نہ ہی جہاز چلا سکتے ہیں ۔ایک فلم بھی بنی تھی جس میں جہاز بنانے کی کمپنی کا ایک انجینرکہتا ہے کہ میں جہاز ڈیزائین کر سکتا ہوں تو چلا نا کیا مشکل ہے ۔ تو اس پر پوری فلم انتہائی دلچپ ہے واپس آ کر کہتا ہے جہاز بنانے کے علم سے اڑانا نہیں آ جاتا۔ اڑانا ایک مختلف قسم کا علم ہے جوصرف پائلٹ ہی جانتا ہے ۔ یہی پلمبر الیکٹر یشن کے ساتھ ہے ۔ ہر کام میں پہلے تھیوری پڑھنی اور سیکھنی ہوتی ہے۔ پھر استاد کی زیر نگرانی پریکٹکل کر کے سیکھنے اور پریکٹس کرنے سے ہی کام سیکھناآ تا ہے صرف کتابیں پڑھ لینے سے نہیں۔
دوسری قوموں کا مشاہدہ
کیادنیا میں باکردار قومیں ہیں بھی یا نہیں ۔ یا سب ہی ہمارے جیسے ہیں۔
دنیا میں بے شمار با کردار با اخلاق معاملات میں بہترین موجود ہیں۔ یورپ امریکہ جاپان وغیرہ ترقی یافتہ قوموں کے کردار،اخلاق ، معاملات میں دیانت داری میں دنیا میں مشہور ہیں اور ہم کی تعریف کرتے رہتے ہیں ۔ مگر ہم میں پھر بھی شوق نہیں پیدا ہوتا کہ ہم ان جیسے بن جائیں تا کہ لوگ ہماری بھی تعریف کریں،۔ہم اس بات کی بھی سمجھ نہیں آرہی کہ دوسرے مسلم یاغیر مسلم ہماری نمازوں اور عبادت سے متاثر نہیں ہوں گے
کیا دنیا کی با کردار اور با اخلاق قوموں کی یہ خصوصیات مذہب پر مبنی ہیں۔َ؟ کیا دنیا کی با کردار اور با اخلاق قومیںمذہبی ہیں۔
ہمارامشاہدہ یہ بھی کہتا ہے کہ تمام ترقی یافتہ قومیں، چاہے مغربی ممالک ہوں یا مشرقی ممالک، یہ سب بہترین کردار اخلاق معاملات اور انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والے ہیں ۔ہم میں سے زیادہ تر کو یہ تجربہ ہے اور ہم سب ان کی اسی وجی سے تعریف بھی کرتے ہیں ۔، مگر ان میں سے ایک بھی مذہبی ملک نہیں ہے ۔۔ وہ سب سیکولر ہیںیعنی اپنے اپنے مذہب کی دینی تعلیم کا بالکل ذکر ہی نہیں کرتے ، ۔بلکہ یہ سب مذہب کو ذاتی سمجھتے ہیں اور ہر بات میں یہ نہیں کہتے کہ ہمارا مذہب یہ کہتا ہے ۔
تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا مذہب کا کردار سازی میں کوئی رول ہے یا ہو سکتا ہے۔؟
مغربی با کردار تہذیب یافتہ ممالک کے علاوہ، جن میں پہلے مذہب کا کچھ رول ہوا کرتا تھا، مگر اب بالکل نہیں، اب مشرقی ممالک جیسے جاپان، چین ، کوریا، تائیوان ، سنگاپور بھی نہ صرف دنیاوی ترقی بلکہ کردار، اخلاق، انسانی حقوق اور معاملات میں ان کے ہم پلہ آ گئے ہیں مگر کیوں اور کیسے؟ ۔ جبکہ ان سب ملکوں میں با کردار بنانے میں مذہب کا کوئی رول نہیں ہے جبکہ اچھے کردار اور اخلاق کے لئے ہم مذہب اہم ترین سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ مغربی اور مشرقی ملکوں میںکردار سازی میں مذہب کا بالکل کوئی رول نہیں ہوتا۔ تو کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ کردار سازی کے لئے مذہب کو بنیاد بنا ناضروری نہیں ہوتاہے ؟
نتیجہ اپنے مذہب کو بہترین سمجھنے اور اس کا علم رکھنے کے باوجود ، ہماری مذہبی سوچ اور ہماری پرفارمنس اور ان ممالک کی غیر مذہبی سوچ اور بہترین پرفارمنس میں تضاد دیکھ کر یقیناہمیں سر کھجانے کی ضرورت ہے کہ
جب مذہب کا کردار سازی میں کوئی رول نہیں تو پھر ہمارے ساتھ آخرمسئلہ کیا ہے؟
کیا ہمارے مذہب میں خامی ہے؟
یا ہماری مذہبی تعلیم اور تربیت کے نظام میں خرابی ہے؟
ہمارے مدارس بھی مسلم کردار کے مظہر کیوں نہی ہیں ؟
، کیاہماری نسل یا جینز میںکوئی بنیادی خامی ہے؟۔
تمام ترقی یافتہ مغربی اور مشرقی ملکوں میںکردار سازی میں مذہب کا بالکل کوئی رول نہیں ہوتا۔
تو کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ کردار سازی کے لئے مذہب کو بنیاد بنا ناضروری نہیں ہوتاہے ؟
اگر یہ سچ ہے تو پھر کردار، اخلاق پیدا کرنے کے لئے وہ کیا کرتے ہیں جو ہم نہیں کرتے؟
ہمارا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ صرف پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سب مسلمانوں میں کردار اخلاق آداب انسانی حقوق معاملات کی بڑی بری حالت ہے ، تو کیا یہ سوچنا نہیں چاہئے اور جواب ڈھونڈنا چاہئے کہ
تمام دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ آخر کون سا ایسا یکساں مسئلہ اور پرابلم ہے۔؟
ہم بھی مشرقی ملک ہیں مگر بہت سے مشرقی ممالک بھی مغربی ممالک کے کردار میںہم پلہ آ گئے ہیں، مگر ہم ان کے دس فیصد کے برابر بھی نہیں آ سکے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ؟
کیا ہم جیسی اور قومیں بھی اس کرہ ارض پر موجود ہیں ۔؟ جی ہاں۔ صرف ہم ہی نہیں بلکہ تمام ترقی پذیر ملکوں کی ہم جیسی ہی حالت ہے ۔ہمارے ہمسائے میں بھارت، نیپال، سری لنکا مسلمان ممالک ، بنگلا دیش افغانستان عرب ممالک،افریقہ جنوبی امریکہ وغیرہ سب میں کردار اخلاق معاملات کی بہت کمی ہے اور سب مذہبی ذہن رکھنے والے لوگ ہیں ۔ تو اس سے اگلا سوال جنم لیتا ہے
مسلمانوں کے علاوہ تمام غیر مسلم ترقی پذیر ممالک میں بھی کردار اخلاق وغیرہ کی حالت تسلی بخش نہیں تو پھر ان سب میں کیا مشترکہ خامی ہے ۔؟ کیا غربت ہے ، جہالت ہے یا کوئی اور فیکٹر ہے َ؟ اس کا جواب ہی مرض کی تشخیص میں مدد فراہم کرے گا۔
WISDOM ??????
Hadith on Habits: Best deeds are consistent, even if small
Abu Huraira reported: The Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, said, “Take up good deeds only as much as you are able, for the best deeds are those done regularly even if they are few.”Source: Sunan Ibn Ma¯jah 4240Grade: Sahih (authentic) according to Al-Albani
نتائج
۱۔ ان مختصر سوالات پر مبنی سٹڈی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں صرف مذہب کا علم یا انفارمیشن ہونے سے، یا عبادت گزار ہونے سے، یا شکل شرعی بنا لینے سے ، کبھی بھی خود بخود کردار یا اخلاق یا آداب پیدا ہوتے نہیں دیکھا ۔ اسی طرح عبادات کو کردار سازی ، اخلاق پیدا کرنے میں کوئی کردار ادا کرتے نہیں دیکھا ہوتا، صرف جان لینا اور بات ہے اور کردار پیدا کرنا اور بات ہے
۲۔ ہمیں صدیوں سے غلط فلاسفی سکھائی جا رہی ہے۔ہمیں صحیح نظریے کو ڈھونڈنا ہو گس
۳۔ ہم نے اب تک کوشش بھی نہیں کی کہ کردار اور اخلاق کیا ہوتاہے؟ ۔یہ صرف نبی کریم ﷺ کا کمال تھا۔ کہ ان کو علم بھی تھا اور اس علم کو سوشل عادت میں اپنا کر ثابت کیا کہ انسانی فطرت پر مبنی کردارpredictible ہوتا تھا۔اور یہی ہمارا مقصد بھی ہونا چاہئے کہ ہر پاکستانی کا کردارpredictible ہونا چاہئے۔اور انسانی فطرت پر مبنی ہو
۴۔ ہم میں با کردار با اخلاق بننے کا شوق بھی پیدا نہیں ہورہا ۔ میرے خیال میں کردار سازی ہمیں مذہبی عمل ہونا سکھایا جات ہے اور مذہب پر عمل کرنا یا نہ کرنا ہر ایک مرضی ہوتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کردار اور اخلاق پر ہی دنیاوی ترقی کا دارو مدار ہوتا ہے۔ اگر یہ بتایا جائے تو پھر ہی شوق پیدا ہو سکتا ہے
۵۔ دین ہو یا دنیا۔ ہمیں کسی بات کی صحیح سمجھ نہیں آ رہی۔ نہ ہی ہم ترقی یافتہ قوموں سے سیکھنے کا شوق رکھتے ہیں ، نہ ہی دنیاوی ترقی کر کے آرام اور امن سے رہنا چاہتے ہیں ۔ کیوں ؟ اس سوال کا جواب بھی ہم ڈھونڈنے میں دلچسپی نہیں رکھتے
اختتامیہ
عزت مآب جناب گورنر صاحب۔
برائے مہربانی میری ان گزارشات پر غور فرمائیں ۔جن حضرات سے آپ نے پہلے مشورہ کیا تھا، برائے مہربانی ان کو بلا کر اپنے مشن کی تکمیل کے لئے پھر سے میرے اٹھائے گئے سوالات پر بحث کریں، خود بحی سوالات کریں اور پھرکسی نتیجے پر پہنچیں۔ کہ آیا صرف انفارمیشن مل جانے سے کردار خود بخود بن جاتا ہے۔؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو ہمیں پھر اصل وجہ کا پتہ کرنا ہو گا کہ کردار کیسے بنتا ہے۔ اورہم میں با کردار با اخلاق بننے کا شوق بھی کیوں پیدا نہیں ہو رہا۔
محترم جناب گورنر صاحب۔ آپ کی تجویز پر اپنی ابتدائی سوچ پیش کر رہا ہو۔ یہ صرف نشان دہی کی ہے۔ اس سٹڈی کا دوسرا حصہ مکمل ہونے پر ارسال کرنگا۔ جو کہ میری نظر اور خیا ل میںمرض کی تشخیص کرے گا۔اور حل بھی تجویز کرے گا انشاء اللہ تعالی۔ اور آپ کی مدد سے پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ ممالک سے ہی سیکھ کر ان جیسا بننے کی صلاحیت اختیار کر لے گا۔
میرا ایمان کہ جب اللہ تعالی کسی کو بڑے کام کے لئے چنتا ہے تو اسے ہی آئیڈیا دیتا ہے شوق دیتا ہے۔آپ کو یہ شوق دینا اور اس عہدے پر تعین کرنا اس کا ثبوت ہے ۔ اللہ سبحانہ تعالی آپ کو کامیابی عطا فرمائے گا۔
میں بتدریج مختصرا یورپ کی نشاۃ ثانیہ ، جاپان کی پچاس سال میں مکمل صنعتی ملک بن جانے کی تاریخ ، سنگاپور کی ترکیب، وغیرہ دوسرے ممالک سے میں نے کیا سیکھا ہے وہ شیئر کرونگا۔ مجھے امید ہے کہ میں آپ کے مشن کی تکمیل میں حل تجویز کر کے اپنا حصہ ڈال سکونگا ،
۸۱ سال کی عمر میں ٹائپ کرنا میرے لئے بہت مشکل ہے۔ اس لیے خطوط میں تھوڑا وقفہ ہو گا اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔
سر۔ اگر ٓپ ای میل کا خط و کتابت کا ذریعہ استعمال کرنے کو پسند فرمائیں تو میرے لیے بہت آسانی فراہم کر دیں گے۔ اس لیے میں اپنا ای میل ایڈریس بھیج رہا ہوں۔
بزرگ شہری امتیاز علی
مکان نمبر۔۱۰، سٹریٹ ۳، علی ٹاون۔اڈیالہ روڈ۔ راولپنڈی نومبر ۲۰۲۰
051-5571398 email; ch.imtiazali@gmail.com ْ 0345 5366081

دوسرا خط
گروپ کیپٹن ( ر) امتیاز علی

                                  عزت  مآب  جناب چوہدری محمد  سرور صاحب
                                        گورنر   صوبہ پنجاب
      محترم گورنر  صاحب      السلام و علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ
          اس موضوع پر یہ  دوسرا خط ہے۔ پہلے خط میں ہم  دنیا کا مشاہدہ کر کے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ کردار سازی  کا دارو مدار صرف مذہب کے اصولوں پر ہی نہیں  ہوتا  اس کے بغیر  بھی ہمارے پاس کامیاب ماڈل  موجود ہیں  جیسے مشرقی ترقی یافتہ ممالک جاپان ، چین ، سنگاپور،  اورمغربی ممالک۔

تو پھر ذہن میں سوال آیا کہ پھر وہ کیا فیکٹر یا اصول ہیں جن پر ان ممالک نے اچھے کردارا ،اخلاق اور عادات کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالی کی کرم نوازی سے اس نے مجھے سمجھ عطا فرمائی کہ دنیا کی زندگی سوشل اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ مذہبی اصولوں پر۔ لا زآف نیچر میں سوشل لاز بھی شامل ہیں جو کہ انسانی کی فطرت پر مبنی ہیں ۔اس لئے سوشل اصولوں کی تعلیم بچوں کو دی جانی چاہیے۔اور ہر ایک حقوق اور فرائض کا علم ہونا چاہئے
سر ؛۔ اس لئے میں پہلے اصول بیان کونگا تا کہ ہم ان سے موازنہ کر کے کسی بھی موجودہ سوچ ، عمل، یا پریکٹس سے موازنہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کا طریقہ اختیار کرونگا
جس میں پہلا سوشل صول یہ ہے کہ
انسانوں کا ایک دوسرے سے تعلق دو طرفہ اورانسانی برابری یا مساوات پر ہوتا ہے جو کہ انسانی فطرت پر مبنی سوشل اصولوں پر ہوتا ہے۔ مثلا تجارت میں مذہب، نہیں آتا ۔ ڈاکٹر کے لیے علاج کے لیے ، مذہب بنیاد نہیں ہوتی۔ استاد اور طلبا ء میں کلچر، ملکی شہریت، مذہب غیر ضروری ہوتا ہے صرف استاد اور طالب علم کا تعلق ہونا ضروری ہے۔ ہر ایک دوسرے سے سچ بولنے کی توقع کرتا ہے۔ مساوات کا برتاو، عزت کی امید رکھتا ہے۔
دوسرا سوشل اصول ہے
کہ جہاں یک طرفہ تعلقات ہونگے وہاںایک کا استحصال ضرور ہو ا اور ظلم ہو گا۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت میں ہے کہ ا نسان دوسروں کو غلام بنانا چاہتا ہے۔ اگر ایک انسان کسی بھی لحاظ سے کمزور یا مجبور ہو تو اس کے حقوق ادا نہیں کئے جائیںگے۔ اگر رد عمل کا خطرہ ہو تو پھر ہی برابری کا سلوک کیا جاتا ہے۔
مذہب سے منسلک کرنے کے بہت بھیانک نکلے ہیں جو یہ ہیں ۔
۱۔ ہم نے کردار سازی کو مذہب سے منسلک کر کے صرف اسے ذاتی قرار دے دیا ہے۔ جس کے اچھے نتائج نہیں نکلے ۔
۲۔ جو چیز ذاتی قرار دی جائے اس میں لوگوں کی چوائس ہوتی ہے ۔ ہر ایک کی مرضی ہے کہ اچھا بنے یا نہ بنے جیسے آج کل ہو رہا ہے۔ ج
۳۔ علماء اور مشائخ نے اپنی ذمہ داری یہ سمجھ لی ہے کہ ان کا کام صرف بتا دینا ہے۔ جو کہ بالکل صحیح بات ہے۔ہر ایک کی مرضی ہے کہ مانے یا نہ مانے
۴۔ یہ ذاتی قرار دینا صرف ذاتی اعمال تک تو درست ہوتا ہے مگر یہ صرف عقائید اور عبادت سے متعلق ہو سکتا ہے کیونکہ یر انسان اللہ تعاالی کو جواب دہ ہوتا ہے ۔ عوام کو یا سٹیٹ کو نہیں۔
۵۔ جو اعمال دوسروں کے حقوق سے متعلق ہوتے ہیں اور کسی بھی طرح ان کی جان ، مال، عزت پر برا اثر ڈال سکتے ہیں ، وہ ذاتی نہیں رہتے بلکہ سٹیت کی ذمہ داری بن جاتے ہیں اور سٹیٹ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کا تعین کرے اور اس کی تعلیم اور تربیت کا بھی انتظام کرے ۔
۶۔ ہماے مذہبی رہنماؤں نے چونکہ ذاتی فرائض کو بھی مذہبی قرار دیا ہوا ہے اور ان کی نظر میں ان ذاتی فراائض کی تعلیم اور تربیت کو سٹیٹ کی ڈیوٹی بنا دیا ہے۔جیسے قرآن کی تعلیم ، نماز کا سکولوں دفتروں میں لازم قرار دینا۔ جبکہ یہ والدین اور سوسائٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مساجد میں تعلیم دلائیں۔ چونکہ ہر ملک میں بہت سے مذاہب ہوتے ہیں اور ہر مذہب میں بہت سے مسالک بھی ہوتے ہیں جیسے اسلام ،عیسایت، ہندو مذاہب میں ہیں تو سٹیٹ ان سب کے لئے ذمہ دار نہیں ہو سکتی اس لئے ہی یہ ہر مسلک ، فرقے کی سوشلم ذمہ داری ہی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ کو مذہب کے معاملے میں ملوث کرنا یا اس کی ذمہ داری ٹھرانا ہر لحاظ سے غلط سوچ ہے سوشل اینگل سے بھی کیونکہ سٹیٹ تمام شہریوں کے لئے ہوتی ہے۔
دوسرا سوال ذہن میں آیا کہ
اچھی ذاتی صفات اور کردار اخلاق اور عادات صرف ترقی یافتہ ملکوں میں ہی کیوں نظر ٓا تی ہے؟
کیا یہ مادی ترقی کا نتیجہ ہیں یا کہ مادی ترقی ان صفات کا نتیجہ ہیں۔
سچ یہ ہے کہ وہ ترقی یافتہ ہی ذاتی اچھی صفات ،کردار اور اخلاقاور عادات ہی کی وجہ سے ہوئے ہیں ۔ نہ کہ اس کے برعکس ترقی کے بعد اچھی صفات پیدا ہوئی ہیں ۔ یہ میں بعد میں ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کے راز میں زیر بحث لاونگا
انسان سازی یعنی کردار ، اخلاق، آداب سیکھنے کے سوشل اصول کیا ہیں
تیسرا سوشل اصول یہ ہے کہ ہم عام طور پر عادات کے تحت کام کرتے ہیں۔ ہر بار سوچ کر کام نہیں کرتے
یہ اللہ تعالی کا ہی ذہن کا ڈیزائین ہے شعوری ذہن اور تحت الشعوری ذہن۔ہم جب بار بار ایک کام کرتے ہیں تو تحت الشعوری ذہن اس کو سچ جان کر ریکارڈ کر لیتا ہے اور انسان کی عادت بنا کر اسے ایک ہی حالت میں عادت کے تحت کام کرائے گا۔ اس کا دوسرا کام جسم کے مختلف سسٹم کو بھی آٹو میٹک رکھنا ہے اور اس میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا جیسے سانس لینا کھانا ہضم کرنا، زخم لگ جائے تو ٹھیک کرنا۔ وغیرہ
۔ اس لئے ہمیں زندگی کے ہر اچھے اصول کی عادت بنانی ہوگی۔ اگر سچ بولنا چاہتے ہیں تو سچ بولنے کی عادت بنانی ہوگی ہر کام وقت پر کرنا ہے تو عادت بنانی ہو گی۔ ورزش کرنی ہے تو اس کی وقت پر کرنے کی عادت ڈالنی ہو گی۔ اگر ہمم چند دن گھڑی دیکھ کر نماز کے لئے اٹھیں تو چند دنوں بعد آپ کو خود ہی جاگ آ جائے گی ۔ یہ تحت شعور جگاتا ہے۔

چوتھا اصول ؛ ہم نقل کے ذریعے سیکھتے ہیں۔ جو کہ بہتر کی نقل کرنی ہوتی ہے
پانچواں سوشل اصول اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں یا تو ترقی یافتہ ملکوں کی نقل کرنی ہو گی یا پھر اپنے کلچر کو اسلامی یا انسانی اقدار پر قائم کرنا ہو گا تو اللہ کے حکم کے مطابق ہمیں اسوہ حسنہ کے رول ماڈل کی نقل کرنی ہو گی۔
پھر طریقہ کار کیا ہو گا
ہمیں پہلے سوشل اصولوں کا تعین کرنا ہو گا کہ سٹیٹ اور افراد کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور حقوق کیا ہیں یہ کون تعین کرے گا۔
مذہبی لیڈرز اس سوشل فیلڈ کے اصولوں سے نا بلد ہیں وہ ہر چیز کو مذہبی اینگل سے دیکھتے ہیں جس سے کنفیوژن مچی ہوئی ہے۔
سفارشات
چھٹا سوشل اصول یہ ہے کہ خیالات سے ہی ایکشن جنم لیتا ہے جو عادت کی شکل اختیار کرتا ہے
خیالات سے ہی ایکشن جنم لیتا ہے۔ اس لئے گھر اور سکول میں سچ پر مبنی خیالات ہی کی تعلیم کو بنیاد بنانا ہو گا۔اور ہر کام کرنے کی وجہ اور مقصد کی تعلیم دینی ہو گی تاکہ شروع ہی سے ذہن بن جائے کہ ہمیں ہر کام سوچ کر کرنا ہے اندھی تقلید نہیں کرنی۔
سچ پر مبنی مشہور چینی مقولہ ہے کہ؛۔
اپنے خیالات پر نظر رکھیں کیونکہ خیالات سے پہلے الفاظ بنتے ہیں اپنے الفاظ پر نظر رکھیں کہ الفاظ سے ہی عمل بنتا ہے۔
اپنے اعمال پر نظر رکھیں کیونکہ اعمال سے ہی عادات بنتی ہیں اپنی عادات پر نظر رکھیں کیونکہ عادات سے ہی کریکٹر بنتا ہے
اور اپنے کریکٹر پر نظر رکھیں کیونکہ کریکٹر سے ہی قسمت بنتی ہے۔ یعنی ہم جو سوچتے ہیں وہی بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالی کے نزدیک اچھے خیالات کتنے اہم ہیں اس حدیث سے اندازہ لگا لیں کہ صرف اچھی بات یا نیک کام کے سوچنے پر ہی ایک نیکی کا ثواب مل جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت نیک سوچیں ہی رکھنی چاہئیں۔غلط سوچ آئے تو اسے جھٹک کر فورا رد کر دیں
حدیث؛۔ حضرت ابن عباس ؓ حضور اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بندے کا حساب کیسے رکھا جاتا ہے اگر بندہ نیکی کرنے کا صرف سوچتا ہے تو اس کے حساب میں ایک نیکی لکھ لی جاتی ہے۔ اگر کر لیتا ہے تو دس سے سات سو تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔اگر گناہ کا ارادہ کرتا ہے مگر نہیں کرتا تو اس کے حساب میں ایک نیکی لکھ لی جاتے ہے ۔اگر وہ گناہ کر لیتا تو تو صرف ایک برائی لکھی جاتی ہے
نتائج
بہترین اخلاق پر مبنی عادات کی اہمیت
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ۔ کہ آخرت میں اعمال گنے نہیں جائیں گے بلکہ تولے جائیںگے اور آخرت میں ترازو میں سب سے بھاری اعمال اخلاق ہو نگے
Hadith on Akhlaq: “Nothing is heavier upon the scale of the believer on the Day of Resurrection than good character. Verily, Allah hates the vulgar, obscene person.”Source: Sunan al-Tirmidhi¯ 2002Grade: Sahih (authentic) according to Al-Arna’ut
اس لئے میں اس حدیث کی روشنی میں اوپر کی ضرب المثل کے الٹ ترتیب سے لکھتا ہوں اور تب نتیجہ نکالتا ہوں
ہم میں سے ہر کوئی جنت جانا چاہتا ہے تو پھر اسے اعمال میں سب سے زیادہ ترجیح اخلاق کو دینی چاہیے۔ اگر ہم نے دنیا کو بھی جنت بنانا ہے تو بھی بہترین اخلاق کو ہی عادت میں بدل کر اس زندگی میں ترجیح اور اہمیت دینی ہو گی۔
یعنی بہترین اخلاق ہی ہماری ذاتی سوچوں اور عادت کی بنیاد ہونی چاہئے۔ اور ہمارے کلچر کی بنیاد بھی اخلاق پر ہی رکھی جانی چاہئے
کریکٹر سے قسمت بنتی ہے تو دنیا اور آخرت میں خوش قسمت وہ ہوگا اس کے نیک اعمال کا وزن بھاری ہو گا
اچھا کریکٹر بنا نا ہو تو اصول یہ ہے اپنی عادات پر نظر رکھیں کیونکہ عادات سے ہی کریکٹر بنتا ہے یعنی اچھی عادات بنانی ہونگی تب کردار اور اخلاق اچھا ہوگا۔
یعنی بچپن سے ہی بچوں کی بہترین عادات بنائی جائیں جیسے فوج میں افسروں اور جوانوں کو اتنی سخت ٹریننگ پروگرام سے گزار کر پرانی بری عادات کی جگہ ملٹری کلچر کی عادات بنائی جاتی ہیں
اگر ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو کرخوش قسمت بننا چاہتے ہیں اورآخرت میں جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں توسب سے پہلے اپنے کریکٹر کو اہمیت دینی ہوگی اور کریکٹر عادات سے بنتا ہے۔۔ اور اسی کو ہم اہم نہیں سمجھ رہے اور با کردار بننے کا شوق ہی پیدا نہیں ہو رہا
چھٹاسوشل اصول ۔ ہم مذہب سے نہیں بلکہ کلچر کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ کلچر کیا ہے؟

the ideas, customs, and social behaviour of a particular people or society.The arts and other manifestations of human intellectual achievement regarded collectively is called culture.
کلچر وہ عادات ہیں جو گھر، معاشرے خاندان ، سکول ، دفتر میں رکھتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کی عادات اور کلچر اور ہوتا ہے عوام کی عادات ہر صوبے کے کلچرکے مطابق ہوتی ہیں۔ ملٹری کلچر مختلف ہوتا ہے ۔ ہر پیشے کا کلچر مختلف ہوتا ہے ۔
چھٹا اصول ؛ دنیا میں غالب کلچر اور تہذیب صرف وہی ہوتی ہے جو اخلاقی اقدار پر مبنی ہو۔ مغربی اور مشرقی ممالک کا کلچر انسانی اقدار کے اصولوں پر مبنی ہے جو کہ اسلامی اقدار ہی کی اقدار ہیں۔ ہم آج کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب اور مغربی کلچر ہر ملک میں غالب کلچر ہو گیا ہے کیونکہ یہ کلچر دنیا بھر میں برتر کلچر ہے جو سارے ملک رضاکارانہ اپناتے ہیں۔ انگریزی زبان بھی بین الاقوامی رابطے کی زبان بن گئی ہے۔ ہم مغربی ممالک اور مشرقی ترقی یافتہ ممالک کی تعریف لوگوں کے اخلاق، کردار، آداب ، اصول پسندی، حقوق کی دائیگی، انسانی عزت اور شرف مساوات اور انصاف ، صاف لین دین اور معاملات کی کرتے ہیں ۔
کبھی اسلامی تہذیب اور کلچر بھی صدیوں تک انہی اصولوں پر دنیا کا برتر کلچر تھا اور دنیا کی سوچوں پر حاوی رہ کر رہنمائی کرتا رہا تھا۔۔‘‘

    ہمارے کلچر کے اچھے یا برے ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ کن  اصولوں پر مبنی ہے سچ کے اصول یا جھوٹ منافقت کے اصول  پر۔ 
  مگر  سارے صوبوں میںہمارا آج کا کلچر  ہندو  کلچر سے  متاثر ہے۔اسی لئے  سوشل لیول پر  اسلامی اصولمساوات کی جگہ  ہندوکلاس سسٹم پر مبنی ہے۔ چوہدری اور کمی اسی کا اثر ہے۔ انصاف  کی بجائے  اپنے  لوگوں کے جرائم کی پردہ پوشی   اور   جھوٹی گواہی سے بچانا وفاداری سمجھی جاتی ہے ۔    مذہب   میںتقلید، جہالت،غربت، مذہب اورمسلک کی بنیاد پر نا پسندیدگی، علم دشمنی، جھوٹ منافقت، عدم مساوات، کرپشن پر مبنی ہے ہمارے یہاں پہلے رشوت لینا، حرام کمانا سوشل لحاظ سے سخت نا پسندیدہ ہوا کرتا تھا، اب نہیں رہا۔ ہمیں پھر سے سچ کو کلچر کی بنیاد بنانا ہوگا۔

ہم نے ابھی تک اسلامی نظام کے لئے کوشش کی تھی جبکہ ہمارا عروج صرف اور صرف اسلامی کلچر اور تہذیب کی نشاۃ ثانیہ،revival /renaissance پر منحصر ہے جس کی ہمارے مذہبء طبقے اور عوام بات ہی نہیں کرتے
سید سرفراز احمدشاہ صاحب نے اپنی کتاب ’’فقیر رنگ‘‘ میں بالکل صحیح فرمایا ہے کہ:’’میرے خیال میں اسلام مذہب سے زیادہ کلچر ہے۔‘‘ (ص ۲۸۳)
Bryant C. Mitchell نامی ایک نو مسلم نے بھی لکھا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے اسلامی تہذیب کی بنیادان اصولوں پر رکھی تھی :’’عقل میرے دین کی اصل ہے،محبت میری بنیاد ہے،شوق میرا مرکب یا سواری ہے۔‘‘ اعتماد میرا خزانہ ہے, علم میرا ہتھیار ہے، یقین میری قوت ہے، صدق میرا حامی اور سفارشی ,طاعت میری کفایت کرنے والی ہے، وغیرہ۔ یہی اصول مغربی کلچر کے ہیںجبکہ مغربی کلچر سچ، امانت، مساوات انصاف، انسان دوستی اور ہمدردی کے اصولوں پر مبنی ہے۔ سچ بولنا مغربی کلچر کا حصہ ہے جھوٹ بولنا سخت نا پسندیدہ ہے جبکہ شراب پینا نا پسندیدہ نہیں۔
نتیجہ
تو اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ہمیں پھر سے اسلامی نظام کی دیمانڈ کی جگہ اسلامی کلچر کو رواج دینا ہو گا ۔ اسلامی تہذیب اور کلچر کی بنیاد بچپن کی گھر، مسجد،سکول کی تربیت سے ہی رکھی جا سکتی ہے جہاں ہماری عادات بنتی ہیں۔ بڑے ہو کر نہیں بن سکتیں تب تک ہمارا نیچر بن چکا ہوتا ہے اور ہم اس کے مطابق ہی رویے رکھتے ہیں ۔
ہماری زندگی مذہبی اصولوں پر نہیں بلکہ سوشل اصولوں اور عادت پر مبنی ہے ، اس کا ثبوت
سوشل اصول ہر انسان کی فطرت میں ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ ہر ملک ، کلچر میں ایک جیسے ہیں ہر انسان مساوات کا سلوک چاہتا ہے۔انصاف چاہتا ہے ۔ عزت چاہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نبوت سے پہلے بھی مذہب کے بغیر بھی صادق اور امین تھے۔ سچ ہر معاشرے کی انسانی فطرت کے عین مطابق ضرورت ہوتی ہے کہ قول اور فعل میں مطابقت ہو تا کہ کسی دوسرے پر اعتبار کیا جا سکے ۔ اس کا کسی مذہب کی ضرورت سے تعلق نہیں دنیا کے ہر معاشرے میں سچ ایک اخلاقی قدر گنی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو نبوت جیسے اہم ترین ذمہ داری کا کام سونپا گیا تھا کیونکہ وہ بہترین کردار کے مالک تھے خصوصا صادق اور امین۔ اللہ کے پیغام کی امانت انہی کو سونپی جا سکتی تھی۔ آج کے علماء مفتی حضرات پیر صاحبان اور دنیاوی بہت پڑھے لکھے اور حکومت کی بہترین ٹریننگ کے باوجود بیورو کریٹ اپنی ذمہ داری بھی صحیح طرح پوری نہیں کرتے کیونکہ نہ سچ بولتے ہیں اور نہ ہی امانت اور دیانتداری سیکھی ہے ۔
اس کے برعکس مذہبی رہنما ہمیں تعلق کی بنیاد مذہب پر مبنی بتاتے ہیں ، جو کہ میثاق مدینہ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ کثیرالمذاہب اور کثیر الکلچر ممالک میں تعلق کی بنیاد ملک کا شہری اور انسان ہونا ہوتا ہے ، مذہب نہیں ۔ جس سے ہمارے دلوں میں تمام غیر مسلموں کے لئے صرف غیر مسلم ہونے کے باوجودانسان ہونے کی بنا پر پھر بھی بہترین سلوک کا حق دار رہتا ہے۔ اس کے عقیدے کا تعلق اس کے اور اللہ کے درمیان ہوتا ہے جس کا فیصلہ اللہ تعالی کریں گے نہ کہ ہم اسی دنیا میں کریں ۔ اگر اس سے تعلق کی بنیاد مذہب پر رکھیں تو تماممذاہب کے رہنما ایک دوسرے سے نفرت سیکھاتے ہین کیونکہ ہر ایک اپنے کو صحیح اور جنتی سمجھتا ہے باقی سب کو کافر اورجہنمی

ساتواں سوشل اصول یہ ہے
انسان ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی ان کی نقل کر کے سیکھتے ہیں۔ اور نقل ہمیشہ اپنے سے بہتر کی کی جاتی ہے اگر ہم نے کسی بھی فیلڈ میں بہتر بننا ہے تو اس فیلڈ میں اپنے سے بہتر بلکہ بہترین سے سیکھیں گے کیونکہ ہر انسان دوسروں کی نقل کر کے ہی سیکھتا ہے کیونکہ اس کے سامنے رول ماڈل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے بھی یہی اصول اور طریقہ قرآن میں بھی بتا یا ہے کہ اسوہ حسنہ کی نقل کر کے بہترین انسان بنا
کلام پاک میں ہی اللہ تعالی نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی ہے اور بڑوں کی نصیحت حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ تو یہ دراصل اللہ تعالی کا حکم ہی بنتا جب وہ فرماتا ہے
لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہ اُسوَۃٌحَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرجُو اللّلہَ والیَومَ الآخِرَ وَ ذِکْرَاللّٰہ کَثِیراًo (سورہ احزاب۔آیت 21)
’’در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘ تفہیم القرآن ۔
اللہ تعالی نے صرف ایک لفظ میں رسول کریم کے کردار کو بیان کر دیا ہے جس میں سے اگر ہم صرف اسی ایک سوشل اصول کو ہی اپنا لیں تو دنیا جنت بن جائے۔ وہ کیا ہے ؟ دیکھیں پروردگا جو خود رحمان و رحیم و کریم ہے کیا کہتا ہے
وَمَآ اَرْسَلنٰکَ اِلاَّ رَحمَۃً لِلعٰلَمِینo (سورۃ انبیاء۔آیت (107 ’’ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ تفہیم ا
We sent thee not save as a mercy for the peoples.(107-21) Pikthal
آپ ﷺ کا اسوہ ہر لحاظ سے تمام عالمین کے لئے رحمت ہی رحمت ہے یعنی آپ کے رول ماڈل کی نقل کر کے ہمیں بھی آپ کا امتی ہونے کے باعث تمام انسانوں کے لئے رحمت بننا ہے اور رحمت بنناصرف انسانوں سے محبت اور کردار اور بہترین اخلاق سے ممکن ہو سکتا ہے اس لئے کہ آپ ﷺ دراصل انسانی اخلاق کی تکمیل کے لئے اس دنیا میں تشریف لائے تھے و انک لعلی خلق عظیم ) سورہ قلم ۔68-4) اور بے شک آپ بہترین اخلاق پر فائز ہیں۔ حدیث؛۔ میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں( یعنی کریکٹر کی تکمیل)۔کنز ا لعمال- حدیث؛۔ ترازو میں حسن خلق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہو گی
نتیجہ
اگر ہم صرف اسوہ حسنہ پر عمل کر کے آ پ کے ہر عمل ، ہر عادت کو اپنی عادت بنانے کو مقصد بنا لیں تو پھر بھی ہم قرآن پر ہی عمل کر رہے ہو نگے چاہے ہم ترجمہ نہ بھی پڑھ سکتے ہوں۔ اس کی وجہ دیکھیں
اسوہ حسنہ بھی سب کا سب قرآن کے سوشل اصولوں اور اس کیapplication کی مثالوں پر مبنی ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ تو قرآن کے خلاف ایک بھی بات نہیں کر سکتے تھے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی نقل کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسی لئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں ۔رسول اللہ کا خلق قرآن ہے۔ ابو داؤد۔ مسلم یعنیHe was Qurn personified ۔نبی کریم ﷺکو علم تھا کہ معاشرے سوشل اصولوں پر منظم ہوتے ہیں ۔ اس لئے پورا اسوہ حسنہ سوشل اصولوں پر مبنی ہے
اگر ہم دنیا کو بھی جنت بنانا چاہتے ہیں تو سب مسلمانوں کو بچپن سے صرف اسوہ حسنہ کی صفات پر عمل کرنے کی عادت سیکھنی ہونگی تو تبھی سب مسلمانوں کا ایک standard and oredictable behaviour pattern ملے گا اور وہ سب انسانوں سے انسان ہو نے کی بنا پر بہترین سلوک کرے گا۔( چاہے وہ کسی بھی سکول یا مدرسے میں لکھنا پڑھنے نہ گیا ہو ) جس سے ہی دنیا کے ہر ملک میں یکساں اسلامی کلچر اور تہذیب جنم لے سکے گی۔ جیسے مغربی ممالک یا مشرقی ترقی یافتہ ممالک میں ملتا ہے یا جیسے فوجیوں میں ملتا ہے۔ کیونکہ ان کی تعلیم اور تربیت اور فوجی ٹریننگ ایسے کی جاتی ہے کہ کسی ایک حالت میں سب فوجی یکساں رویے کا اظہار کریں گے۔
آٹھواںسوشل اصول یہ ہے ؛
؛۔ practice makes a man perfect
اگر ہم بہترین کردار صفات اخلاق ا ٓداب ، انسانی حقوق اور معاملات میں بہترین بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اسوہ حسنہ کی عادات اپنانے ،پریکٹس کرنے پر ر زور دینا ہو گا۔ ۔ صرف باتیں کرتے رہنے ، کتابیں پڑھنے پر زو ر دینے سے یا قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھتے رہنے سے یا سیرت کی یا حدیث کی کتابیں پڑھتے رہنے سے یا پھر ہر وقت مذہبی باتیں سننے اور کرتے رہنے سے، یا زبانی تبلیغ کرتے رہنے سے کچھ بھی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ جب تک جو سنا ،یا پڑھا ہے اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اگر ہم پڑھتے رہیں کہ کار کیسے چلانی ہے چائے کیسے بنانی ہے جب تک پریکٹیکل کر کے بار بار مشق کر کے نہیں سیکھیں گے تو کچھ نہیں حاصل ہو گا ہم جب لکھنا سیکھتے ہیں تو سب کو تجربہ ہو گا کہ کتنی پریکٹس کرنی پڑتی ہے تب کہیں دو سال میں ہینڈ رائٹنگ ٹھیک ہوتا ہے ۔ کھیلوں میں بھی ترقی لگاتار پریکٹس سے ہی آتی ہے
یہی بات عادت بنانے میں بھی صادق آتی ہے ۔ ایک عادت بنانے کے لئے بغیر ناغے کے کم سے کم چالیس دن چاہئے ہوتے ہیں اور چھ ماہ تک بھی لگ سکتا ہے۔ جب تک کہ subconscious mind پروگرام نہیں ہو جاتا۔ جیسے کہ کوئی چیز یاد کرنے میں ہمیں بار بار رٹا لگا کر ذہن کو پروگرام نہیں کر دیتے
اسی لئے علامہ اقبال کہہ گئے ہیں
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
نتیجہ
تو ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ صرف قرآن کو ترجمہ سے یا سیرت کی کتابیںپڑھ لینے سے ، ، عبادات کے باوجود، کردار ار اخلاق میں خود بخود بہتری نہیں آ جاتی۔ یہ ہر ایک کا مشاہدہ ہے۔اس کے لئے ہمیں ایک عادت کو مقصد بنا کر اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے سال بھر محنت کرنی ہو گی تب جا کر صرف ایک صفت، ایک عادت ہی کردار کا حصہ بنے گی۔ اگر یہ بھی ہماری پہچان بن جائے تو ہم قابل ستائش بن جائیں گے جیسے حاتم طائی صرف ایک صفت کی وجہ سے مشہور ہے

نواں اصول ہمیں بہترین انسان بننے کے لیے کسی سکول اور کالج یا مدرسے کا پڑھا ہوا ہونا بھی ضروی نہیں ہے ۔
صرف دل میں اچھا انسان بننے کا شوق پیدا ہونا چاہئے۔
Allah tells tpolicy decisions for people t.13-11. “Verily, Allah will not change the condition of a people as long as they do not change their state themselves
Verily! Allah will not change the good condition of a people as long as they do not change their state of goodness themselves
ا انسان کے ارادے کے بغیر انسان عمل نہیں کرتا۔
“Verily, Allah will not change the condition of a people as long as they do not change their state themselves” [al-Ra’d 13:11] Islam obliges strict discipline of good behavior and respect for other human beings. A disciplined and well-managed life has a strong effect. Islam tells us to present ourselves in a way as a great example in manners, discipline and self-respect. There are numerous ways in which a Muslim can discipline himself.
کسی بھی کام کے کرنے کے لئے سب سے پہلے دل میں شوق اورخواہش پیدا ہونی ضروری ہے جس سے ہی شعوری فیصلہ اور ارادہ جنم لیتا ہے۔ جس سے ہی عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ اصول اللہ تعالی نے قرآن میں بیان فرما دیا ہے۔۔ شوق کے بعد ہی اللہ تعالی اس کی مدد کرتا ہے اگرکوئی بھی اچھا انسان بننے کی خواہش اور شوق پیدا کرلے اور پھر ارادہ ا کر کے اس پر لگا تار کوشش کر کے عادت بنا لیتا ہے تو وہ بہترین انسان بن جائے گا۔
.آج بھی کسی بچے ، یا دیہاتی کو آپ بہترین انسانی کردار کی چند صفات جیسے سچ، امانت، مساوات، انصاف، وعدہ نبھانا ۔ انسانی عزت، ہمدردی ، صفائی، اور ملک کے قوانین پر عمل کرنے کی سمجھ سکھا دیں اور وہ اس ہر عمل کرتے ان کی عات بنا لے ، وہ بہترین انسان گنا جائے گا۔ اسے کوئی بھی ذمہ داری دیں یا کام سونپیں گے، تو وہ بہترین طریقے سے کرے گا۔ اس کی ہر جگہ عزت ہو گی ۔ میری اس بات کی سچائی کہ جو چند صفات میں نے بیان کی ہیں ان کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ انسانی فطرت اور انسانی سوشل اقدار سے تعلق ہے جو کہ دنیا کے ہر ملک، مذہب میں ایک ہی جیسی اقدار گنی جاتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ نبوت سے پہلے بھی ان کی شخصیت سچ اور دیانت داری، حکمت عقل مندی، مساوات انصاف کا نمونہ تھی۔ کسی سکول کالج میں نہیں پڑھے تھے۔ یہی ماڈل ہم نے پھر سے اپنانا ہے اسی کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے ۔ کہ اسوہ حسنہ کے رول ماڈل کی نقل کر کے بہترین کردار کے مالک بنو۔
نتیجہ
ہم پاکستانیوں کا یہ مسئلہ ہے کہ ہم میں بہترین انسان بننے کا اور ملک کو ریاست مدینہ یایورپ جاپان کی طرح کا ملک بنانے کا شوق ہیں نہیں
اگرہم نے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی طرح جنت بنا نا ہے ، ریاست مدینہ بنا نا ہے تو پہلے بڑوں میں شوق پیدا کرنا ہو گا۔ اور اگلی نسل پر سب سے زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ اس کی تفصیل میں بعد میں دونگا
دسواںسوشل اصول ۔ قوم افراد سے مل کر بنتی ہے اورقوم کا سٹینڈر ڈ وہی ہو گا جو ہر ایک فرد کا ہو گا
افراد کے ہاتھوں میں ہے قوموں کی تقدیر۔ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔
یعنی اگر ہم نے ملکی لیول پر ترقی کرنی ہے اور نشاۃ ثانیہ کرنی ہے تو پھر پوری قوم کے پر عورت مرد بچے بوڑھے کی انسان سازی سے شروع ہوتی ہے جو کہ کردار ،اخلاق، وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے
ہر فرد ہے ملت کی قسمت کا ستارہ ۔ تو ہر فرد کو بہترین انسان بنانے میں بہت محنت کرنی ہو گی ۔انسان تیار کرتے کتنی محنت اور دیر لگتی ہے اس کا اندازہ لگا لیں کہ مکی دور میں تیرہ سال میں صرف دو سو مسلمان مرد بنے۔ غزوہ بدر میں صرف ۳۱۳ مرد جنگ کے لئے بن سکے تھے ۔ مگر ہر لحاظ سے بہترین بن چکے تھے۔ ملٹری اکیڈمی میں دو سال لگتے ہیں
۱ اگر ہم نے پاکستانی قوم کی کردار اور اخلاق سازی کرنی ، بہترینmanners والا بنانا ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق خوشی خوشی ادا کرنے اور ایک دوسرے سے معاملات میں سچ اور دیانت داری والا بنانا ہے
حل کیا ہو گا
اب ہمارے پاس دو چوئس ہیں۔ ایک خود کوئی سسٹم بنا کر آزمائیں یا مغربی آزمودہ سسٹم اپنا لیں
مغربی سسٹم کیا ہے۔ یہ صرف حکومت ہی کر سکتی ہے
مغربی ملکوں اور مشرقی ترقی یافتہ ملکوں کے سکول بچپن میں پہلے صرف سوشل اصولوں پر مبنی کردار اخلاق، حقوق کی تربیت کرتے ہیں، دوسرے مضمون اور ان کی کتابیں بعد میں پڑھاتے ہیں ، یہ د راصل پیشے کی تیاری کے لئے ہوتے ہیں۔مگر پیشے کی تعلیم سے پہلے بہتری انسان بناننا ضروری ہوتا ہے تا کہ سب کاpredictable behaviour ہو تبھی یہ ہر سسٹم کو بہترین چلا سکتے ہیں۔ نئے سسٹم سچ کی بنیاد پر ایجاد کریں گے۔ اس کے برعکس ہم پیشے کی ٹریننگ دیتے ہیں کردار سازی کو اہمیت نہیں دیتے تو جھوٹ بد دیانت کسی سسٹم کو چلنے بھی نہیں دیتے۔ اس کا یہ ثبوت ہے کہ برٹش بہترین چلتے سسٹم ہمارے حوالے کر کے گئے ہیں اور ہم نے ان میں ترقی کیا کرنی تھی، ان کو اپنی روایتی فطرت کی بد دیانتی سے برباد کر دیا ہے۔
سر ۔ آپ کو باہر کے ملکوں کا تجربہ ہے اور مجھے بھی۔ مغربی ممالک میں بچوں کو سکول میں پہلے بنیادی اصول اور آداب سکھائے جاتے ہیں ۔ جن میں سچ بولنا، امانت، مساوات اور انصاف اہم ہیں
برٹش بچوں میں تربیت کے ذریعے ملکی قوانین پر عمل، حب الوطنی اور معاشرتی روئے دو تین سال سے ہی سکھانے شروع کر دینے چاہئیے۔ جاپان کی ترقی کے راز میں بھی پہلے نمبر پر ان کے سکول سسٹم ہیں ۔ میں ان دونوں ملکوں کیrenaissance اور ترقی کی تفصیلی اپنی کتاب اسوہ حسنہ میں دے چکا ہوں ۔یہ کتاب تحفے کے طور پر پھرر بھیج رہا ہوں ۔ میں نے یہ کتاب سوچل اینگل اور تعلیمی اینگل سے لکھی ہے ۔اسی کو ٹیکسٹ بک بنوا دیں تو اسوہ حسنہ کی تعلیم اور تربیت فورا شروع ہو سکتی ہے۔ ح اگر آپ اسے حکومتی افسروں کی کو محکمے کے سٹاف ٹریننگ کے لئیل ٹریننگ مینیو دے سکتے ہیں ۔ جب تک کہ اس کی جگہ سوشیالوجی کے پروفیسر مغربی ممالک سے ان کے ٹریننگ ٹیکسٹ بک کی مدد سے اس کو بہتر نہیں بنا لیتے۔
دوسری چوائس ؛۔اسوہ حسنہ کو کردار سازی کے لئے استعمال کیا جائے
پہلا فیصلہ۔ صرف اسوہ حسنہ ہی کو بنیاد بنایا جائے۔ کیونکہ اسوہ حسنہ کی تربیت کے لئے بچوں کو کسی کتاب کی ضروت نہیں ہو گی صرف والدین ، اساتذہ، مساجد میں امام مسجد کے پاس کتاب ہو گی
ٓٓ ۱۔آپ کی تجویز کہ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھایا جائے اور ڈگری کو اس کی اہلیت سے مشروط کر دیا جائے۔ کو منسوخ کر دیا جائے کیونکہصرف قرآن ترجمہ سے پڑھنے پر زور دینے سے ہم انسان سازی اور اخلاق سازی میں فیل ہو جائیں گے جیسے صدیوں سے ہو رہے ہیں
۲۔ سینٹ کے پاس کردار بل کہ عربی زبان کی تعلیم کو پہلی جماعت سے لازمی قرار دیا جائے، کو بھی منسوخ کر دیا جائے۔
۳۔ تو اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہر گھر میں ماں اور باپ اسلامی کلچر جس کی بنیاداسوہ حسنہ ہو، ا بچوں کی تعلیم اورتربیت اور عادات بنانے اور پکا کرنے میں ہمہ وقت محنت اور کوشش کریں۔
تو پھر کیاطریقہ کار ہو؟
۱۔اسوہ حسنہ کو عادت بنانے کے لئے استعمال کرنے کو مذہبی اور سوشل فرض قرار دیا جائے
اللہ سبحانہ تعالی کی اوپر دی ہوئی ہدایات کے مطابق کیا ہمیں اسوہ حسنہ پر عمل کرنا مسلمانوں کا قومی فرض نہیں ہونا چاہئے تھا۔؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر کیا مسلمانوں کے لئے سیرت طیبہ کا مطالعہ فرض نہیں بنتا ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے
مگر ہم نے کبھی اس کو فرض بھی قرار نہیں دیا۔ اگر اسے سوشل فرض قرار دیا ہوتا کہ کیونکہ اللہ تعالی کا حکم ہے تو پھر بھی ہم آج بہترین کردار کے لوگ ہوتے۔فرض ،سنت کی کیٹگری صرف عبادات اور فقہ کے لئے رکھی ہے ۔ سوشل زندگی کی کوئی کیٹگری نہیں مثلا علماء کے نزدیک اگر بیٹے بوڑھے والدین کے نان نفقہ ادا نہ کریں تو یہ مالی فرض نہیں۔ صرف سوشل فرض ہے جس کی کوئی سزا معاشرے میں نہیں رکھی گئی بندے کی مرضی ہے ادا کرے یا نہ کرے
۲۔ سیر ت کی کتاب، کردار سازی کے لئے بطور سوشل ٹیکسٹ بک، تعلیم کے ہر لیول تک سلیبس کا حصہ رہنا چاہئے ، اور پڑھائی جانے کے ساتھ عادت بنانے کے لئے تربیت اورپریکٹس جاری رکھنی ہو گی ، جیسے سچ بولنا مذہبی سے زیادہ سوشل ضرورت ہے۔اور سکول گھر، دفتر میں سچ پر زور دیا جائے۔ جھوٹ قا بل سزا ہو کیونکہ جھوٹ دراصل دھوکہ دینے کے برابر ہے ،حقیقت چھپانے کے لئے ہوتا ہے گواہی چھپا کر نا انصافی کرنا ہوتا ہے۔ ہم ہر وقت ، ہر جگہ اپنے مفادات یا فرضی مفادات کے لئے جھوٹ بولتے ہیں اور سسٹم برباد کرتے ہیں ، فساد پھیلاتے ہیں۔لڑائی جھگڑے کا موجب بنتے ہیں
۳۔ ٹریننگ کے لئے پہلے مرحلے میں اسوہ حسنہ کا پہلے علم ہونا چاہیے جس کے لئے سیرت النبی کی کتاب ہر گھر میں ہونی چاہئے دو تین سال سے تعلیم اور تربیت شروع ہو جانی چاہیے اور سکول میں یکساں قومی کردار، اخلاق ، آداب، بنانے کے لئے سکول میںپہلی جماعت سے ہی صرف تعلیم نہیں بلکہ ساتھ ہی تربیت دینا، یعنی عادات بنانا فرض بن جانا چاہئے اور سب سے پہلی عادت جو ہمیں اپنانی ہوگہ وہ سچ بولنا ہو گی۔کیوں؟ یہی سب سے بڑی سنت ہے اس پر عمل کریں تو ہم سچ کی تلاش کریں گے۔سچ کو جہاں سے بھی پائیں اس کو قبول کر لیں گے۔ سچ کوبرداشت بھی کریں گے کیونکہ یہ ہمارے فائدے میں ہو گا۔
۴۔اس لئے ہر گھر میں ، مسجد میں، سکول کالج یونیورسٹی میں سیرت النبی ﷺ کی کتاب سے صرف ایک عادت کو اپنانے کے لئے ہر مہینے ایک عادت کا چناؤ کیا جائے ۔، اس کے سوشل فوائد ، سوشل ضرورت پر بحث کر بچوں اور بڑوں کو قائل کیا جائے کہ اس سے دنیاوی وائد حاصل ہونگے اور دوہرا ثواب بھی کما رہیں ہونگے کیونکہ ہم اللہ تعالی کے حکم کی بھی تعمیل کر رہے ہونگے اور سنت پر بھی عمل کر رہے ہونگے
اس عادات کو اپنانے کا پکا ارادہ کرنے کی پریکٹس کرتے رہنے کی ضرورت ہو گی حتی کہ پریکٹس کرتے کرتے سیکنڈ نیچر بن جانا چاہئے ۔ مثلا اگر ہم تھینک یو شکریہ، کہنے کی عادت چنتے ہیں ۔ تو پہلے سبق میں بتائیں گے کہ یہ مغربی رسم نہیں بلکہ اللہ تعالی اور رسول کریم کا حکم ہے ۔ دنیاوی فوائد میں ہم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں گے اور کلچر اورتہذیب میں دنیا کے برابر بھی ہو جائیں گے تو ظاہر میں بھی سوشل ترقی کر رہے ہونگے ۔ اس کو ایک ماہ گھر میں یا کلاس میں، دفتر میں پریکٹس کرین۔حتی کہبالکل نیچرل ہو جائے
اگلے ماہ معاف کیجئے سور ی میری غلطی ہے کہنے کی پریکٹس کریں بالکل نیچرل ہو جائے۔ اچھائی دیکھ کر فورا تعریف کے الفا ظ نکلیں ۔وعدہ نبھانا نیچرل ہو
سوشل اصول ؛، ملک میں ہر فرد اور سٹیٹ کے حقوق اور فراٗض واضح ہو نے چاہئے۔ علماء کا سوسائٹی میں رل کیا ہونا چاہئے اس کا تعین ہونا ضروری ہے ابھی تک یہ رول کنفیوذڈ ہے۔
اور اگلی نسل کو تیار کرنے کے لئے ذ اتی اور سٹیٹ کی ذمہ دایوں کا تعین کرنا ہو گا؛۔
۱۔ ہمیں دنیاوی ترقی ور دینی ترقی کے لئے ذمہ داریوں کا تعین کرنا ہو گا کہ والدین کی ذاتی ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ اور سٹیٹ کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؛ اس میں بھی ہمیں اسلامی اصولوں اور ترقی یافتہ ملکوں کی پریکٹس میں کوئی فرق نہیںپائیں گے۔ مذہب کی تعلیم والدین، اور سوسائٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مدارس او ر مساجد کے اداروں کی مالی مدد کرتے ہیں ۔ ہر ملک میں ان کے مذہب میں والدین اور ان کے مذہبی ادارے ہی یہ فرض ادا کرتے ہیں
۲۔ سٹیٹ کی ذمہ داری میں وہ سب کام ہوتے ہیں جو کہ اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ انسان سازی اور پیشہ وارانہ تیاری کے لئے بنیادی تعلیم سٹیٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور یہی ہمیں پاکستان میں بھی کرنا چاہئے۔
۳۔ اس لئے کریکٹر بلڈنگ ، اخلاق،manners انسانی حقوق ، معاملات ، سوشل سینس پیدا کرنا، سٹیٹ کی ذمہ د ا ری ہوگی۔ ا س لئے بچپن سے ہی تعلیم اور تربیت کر کے پختہ عادات بنانی ہونگے۔ اس لئے بچوں کو تین چار سال کی عمر سے پہلے گھر میں ماں باپ اور پھر سکول میں پہلی کلاس سے ہی صرف کریکٹر بلڈنگ پر توجہ دی جائے پڑھائی شروع نہ کی جائے ۔ اس کو ہر کام کی، فعل کی، عمل کی وجہ بتائی جائے کہ یہ ہم کس مقصد کے لئے کر رہے ہیں اس کی پریکٹس کرائی جائے تو وہ تین چار سال میں بہترین انسان بننا شروع ہو جائے ۔ جس کے لئے ہمیں یورپی، جاپانی، چینی طریقہ تعلیم اہنانا ہو گا۔ ہمارا اپنا طریقہ تعلیم انتہائی ناقص ہے۔
ہم نے ہر نظریہ غلط کر دیا ہے ہم کہتے ہیں ابھی بچہ ہے بڑے ہو کر سیکھ لے گا۔ جبکہ بچے کا ذہن جو کمپیوٹر کی طرح ایک دفعہ پروگرام ہو گیا تو جب تک ارادہ کر کے پہلے پروگرام کوdelete کر کے نیا پروگرام نیں ڈالیں گے وہ ساری عمر پہلے پروگرام کے مطابق ہی عمل کرتا رہے گا ۔ہمارا تربیت دینے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، سوائے وعظ، نصیحت یا لیکچر دینے کے۔ پریکٹیکل مثال سے اور خاموش تربیت کا طریقہ ہم نے ترک کر دیا ہے۔۔ ۔ہمارے سکول صرف کتابیں پڑھاتے ہیں جو پیشہ ورانہ تعلیم کے لیے ضروری ہیں۔اخلاق کی تعلیم یا تربیت کرنی بند کر دی ہے۔۔ پانچ سال تک بچے کی شخصیت کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ جس پر پھر اس کیpersonality بنتی ہے۔ اگر بچے کی پیدائش کے بعد سے ہی ہم گھر میں سنت طریقے سے رہنے لگیں تو پھر ہی بچہ صحیح مسلمان بنے گا۔ بڑے ہو کر سیکھنا اور عادات اختیار کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اسوہ حسنہ قرآن کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اسی لئے ہمیں اسوہ حسنہ کی نقل کرنے کا حکم دیا گیاہے۔؟
آج بھی کسی بچے یا دیہاتی کو آپ بہترین انسانی کردار کی چند صفات جیسے سچ، امانت، مساوات، انصاف، وعدہ نبھانا ۔ انسانی عزت، ہمدردی ، صفائی، اور ملک کے قوانین پر عمل کرنے کی سمجھ سکھا دیں اور وہ اس ہر عمل کرتے ان کی عات بنا لے ، چاہے قرآن کا ایک لفظ نہ پڑھ سکتا ہو، تو وہ بہترین انسان گنا جائے گا۔ اسے کوئی بھی ذمہ داری دیں یا کام سونپیں گے، تو وہ بہترین طریقے سے کرے گا۔ اس کی ہر جگہ عزت ہو گی لوگ اس سے اپنے جھگڑوں کے فیصلے کروانے آئیں گے کیونکہ وہ کسی کی سائیڈ نہیں لے گا ۔ مشورہ لینے آئیں گے۔ اس کے پاس امانتیں رکھیں گے۔ یہ ثبوت ہے کہ جو چند صفات میں نے بیان کی ہیں ان کا مذہب سے نہیں بلکہ انسانی فطرت اور انسانی سوشل تعلقات سے ہے۔ اسوۃ حسنہ بھی اس کا ثبوت ہے کہ نبی کریم ﷺ کسی سکول کالج نہیں گئے تھے۔
سوشل اصول
اگر ہم صرف اسوہ حسنہ پر عمل کو مقصد بنا لیں تو قرآن پر ہی عمل کر رہے ہو نگے چاہے ترجمہ نہ بھی پڑھ سکتے ہوں۔
اسوہ حسنہ بھی سب کا سب قرآن کے سوشل اصولوں اور اس کیapplication کی مثالوں پر مبنی ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ تو قرآن کے خلاف ایک بھی بات نہیں کر سکتے تھے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی نقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں ۔رسول اللہ کا خلق قرآن ہے۔ ابو داؤد۔ مسلم یعنیHe was Qurn personified ۔نبی کریم ﷺکو علم تھا کہ معاشرے سوشل اصولوں پر منظم ہوتے ہیں
اگر ہم دنیا کو جنت بنانا چاہتے ہیں تو سب مسلمانوں کو بچپن سے صرف اسوہ حسنہ کی صفات پر عمل کرنے کی عادت سیکھنی ہونگی تو تبھی سب مسلمانوں کا ایک standard and oredictable behaviour pattern ملے گا جس سے ہی دنیا کے ہر ملک میں یکساں اسلامی کلچر اور تہذیب جنم لے سکے گی۔ جیسے مغربی ممالک یا مشرقی ترقی یافتہ ممالک میں ملتا ہے یا جیسے فوجیوں میں ملتا ہے۔ کیونکہ ان کی تعلیم اور تربیت اور فوجی ٹریننگ ایسے کی جاتی ہے کہ کسی ایک حالت میں سب فوجی یکساں رویے کا اظہار کریں گے۔
اگر بہترین کردار صفات اخلاق ا ٓداب ، انسانی حقوق اور معملات میں بہترین بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اسوہ حسنہ پر عمل پر زور دینا ہو گا ۔ نہ کہ قراان ترجمے کے ساتھ یا سیرت کی یا حدیث کی کتابیں پڑھنے پر زرور دینا ہو گا
سیرت النبی ﷺ کی کتاب کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟
مجھے یقین ہے کہ آج کل تعلیم عام ہونے سے تمام مسلمان ، قرآن کو ترجمے ساتھ بھی پڑھتے ہیں اور سیرت النبی ﷺ کی کم از کم ایک کتاب کا تو ضرور مطالعہ کرتے ہیں ۔ سکولوں اورمدارس میں صرف اسلامیات کے مضمون میں سیرت بھی پڑھتے ہیں مگر امتحان پاس کرنے کے لئے اور بعد میں بھول جاتے ہیں۔، مساجد میں اور عید میلاد النبی میںوعظ وخطاب و بیان کے لئے سیرت کے مختلف پہلو سامنے لائے جاتے ہیں ۔ مگر مسلمانوں کی زندگیوں میں حضور اکرم ﷺ کے اخلاق کا اثر پھر بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ اور ہر جگہ ہم اپنی مرضی کے مطابق زندگیاں گزارتے ہیں۔ اگر کچھ حصہ نظر آتا ہے تو وہ ان سنتوں میں نظر آتا ہے جو کہ عبادات کے ساتھ کسی طرح منسلک ہیں یا ظاہر میں نظر آتی ہیں یا آسکتی ہیں ۔
حضور ﷺ کی سیرت کے وہ پہلو جو نان مسلم حضرات کو متاثر کر سکیںوہ کہیں بھی نظر نہیں آتے مگر پھربھی غیر مسلم کلام پاک اور سیرت رسول ﷺ کو پڑھ کر تو مسلمان ہو جاتے ہیں مگر بعد میں مایوس ہوتے ہیںیعنی ہم اب اسلام کے پھیلانے میں بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ورنہ دنیا کی زیادہ آبادی مسلمان ہو چکی ہوتی ۔
اس پر میں نے سوالات کے ذریعے غور و فکر کیا تو پتہ چلا کہ ہم سیرت کو اپنی زندگیوں میں اپنانے کیلئے تو پڑھنے کا مقصد بناتے ہی ہی نہیں ہم انفارمیشن کیلئے پڑھتے ہیں۔ یہی حال قرآن کا ہے ،جب پڑھتے وقت عمل کرنے کا مقصد ہی نہیں بنایا ہوتاکہ میں نے حضور اکرم ﷺ کی سیرت کی نقل کرنی ہے۔ اور اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا ہے تو پھر وہ ہماری عادات کیسے بن سکتی ہیں۔ اس لئے میں یہ تجویز کر رہا ہوں کہ:۔
۱۔ مقصد عادات بنانا ہونا چاہئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جس کے لئے کوشش کرتا ہے آپ کا فرمان ہے کہ انما العمال بالنیات۔خلوص دل سے نیت کریں کہ اللہ کے حکم کے تحت آپ سیرت کی یہ کتاب اسوۃ حسنہ کو اپنانے۔اپنی عادات کو اس کے مطابق تبدیل کرنے اور اپنی زندگی کاحصہ بنانے کی نیت کر کے ہی پڑھ رہے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ کا سارا علم اور زندگی بارے نتائجdeductions ہمیشہ سوچ بچار غورو فکر،پر مبنی ہوتے تھا۔اس لئے ہمیں بھی ہر روز سوچ بچار کے لئے وقت نکالنا چاہئے خصوصا رات سونے سے پہلے جب ہر طرف خاموشی ہوتی ہے۔سکون ہوتا ہے۔ایسے وقت ہی اللہ کی طرف سے رہنمائی آتیے۔
اور یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کام ایک دن کا نہیں ہے بلکہ یہ زندگی بھر کا جاری کام ہے کیوںکہ آپ نے ہی فرمایا ہے کہ جس کے دو دن ایک جیسے گزریں وہ خسارے میں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر روز پہلے سے دنیاو ی زندگی کے ہر پہلو بشمول روزگار اور profession میں بھی بہتر سے بہترین کی طرف سفر جاری رکھنا چاہئے۔اور حضور اکرم ﷺ کی دعا؛”۔ میرے رب۔سب سے اچھے اخلاق کی طرف میری رہنمائی فرما، تیرے سوا اچھے اخلاق کی راہ کوئی نہیں دکھاسکتا۔ برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دے اور انہیں تیرے سوا کوئی دور نہیں کر سکتا۔” کر کے اللہ کی مدد مانگیں کیونکہ وہ خودکہتا ہے۔ لا حول ولا قوہ الا باللہ۔ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔
سر۔ میں اپنی کتاب ، اسوہ حسنہ، تحفے کے طور قبول فرمائیں۔ اس کے علاوہ باقی اسوہ حسنہ کی تین کتابیں میری ویب سائٹwww.askallah.com.pk سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں ۔
i۔ پہلی بار آپ صرف اس کتاب اسوہ حسنہ کو الف سے ی تک پڑھ جائیں ۔ تا کہ اس کے مندرجات کا علم ہو جائے
ii۔ پھر اس کتاب کو ایک ایک پیرا کر کے پڑھیں۔ اور اس پر غور و فکر کریں۔ خود تکلیف اٹھا کر جو علم حاصل کیا جائے وہی اصل علم بنتا ہے۔ اس پر ذہن میں آئے تمام سوالات کا جواب ڈھونڈیں ۔۔ اور پھر اس علم کے حصول کے بعد خود فیصلہ نہ کیاجائے کہ کیا کیا نتائج اخذ ہو سکتے ہیں اور ان کو عادت بنانے کے لئے کیا کرنا ہے، آگے مت جائیں ۔
iii۔ پھر حضور اکرم ﷺ کی ایک عادت ، سنت، عمل کو اپنی عادت بنانے کیلئے چن لیں۔ اور اس پر غور و فکر کریں کہ اس کے دنیاوی فوائد کیا ہیں۔ نہ کرنے سے ذاتی نقصانات کیاکیا ہیں۔ اجتماعی نقصانات کتنے زیادہ ہیں۔ معاشرتی زندگی میںکیا تکالیف جنم لے سکتی ہیں۔ خیالات کو دوسرے دوستوں سے شیئر کریں۔ ڈسکس کریں۔ اور پھر اپنانے کا پروگرام بنائیں۔
iv۔ ایک عادت بدلنے کیلئے کم از کم چالیس دن کا وقفہ چاہیئے۔ اس سے زیادہ بھی لگ سکتا ہے اس کو پریکٹس کرتے رہیں جب تک کہ آپ کی فطرت نہ بن جائے۔ کبھی عادت ٹوٹ بھی جائے تو اس کو نوٹ کریں اس پر افسوس کریںیا اپنے لئے کوئی ہلکی پھلکی سزا خود تجویز کر لیں کیونکہ سز سے ہی انسان ٹھیک رہتا ہے۔جیسے ایک انگریز نے لیٹ آنے پر اپنے آپ کو دھوپ میں آدھ گھنٹہ کھڑے رہنے کی سزا دی تھی۔یا اتنے پیسے اللہ کی راہ میں دوں گا۔ یا گھنٹہ کھڑا رہونگا۔
v۔ جب تک عادت پختہ نہ ہو جائے تو اس سیرت کو ہر روز رات کو اونچی آواز میں پڑھیں۔ دہرائیں اور اپنے آپ کو بار
بار کہیں اور یاد دلائیںکہ میں اب یہ عادت اختیار کر رہا ہوں۔ یا فلاں بری عادت کو چھوڑ رہا ہوںاس حدیث کے مطابق کہ بلغوا عنی ولو آیہ؛ دوسروں تک میری بات پہنچا دو چاہے وہ چھوٹی بات ہی ہو۔اپنے قریبی اقارب ،دوستوں ، ماتحتوں کے ساتھ یہ کریکٹر بلڈنگ پرگرام شیئر کریں تا کہ وہ بھی آپ کے عادت بدلنے کے پروگرام میں مدد کر سکیں اور خود بھی شامل ہو جائیں۔
اپلائیڈ اسلام
میں اس اپروچ کو ماڈرن زبان میںapplied islam کہتا ہوں۔بد قسمتی سے ہماری ساری کوششیںتھیوریٹیکل اسلام میں تحقیق پر ہیں۔ یاعبادات پر۔ مگر مسلمانوں کو اللہ تعالی کے احکام اور سیرت کو دنیاوی سسٹم اور عادات کو کیسے اعمال کی شکل دینی ہے اس پرکبھی کسی نے ریسرچ نہیں کی۔جبکہ حضور اکرم ﷺنئے سے نئے آئیڈیاز کے ساتھ تعلیم اور تربیت دیتے تھے۔
اسی بات کو ذہن میں رکھ کر میں نے سیرت کی کتاب، اسوہ حسنہ کو سوشل اینگل سے لکھا ہے۔
امام مالک ؒ کا قول ہے کہ آئیندہ جب بھی امت کی اصلاح کا کام شروع کرنا ہو تو مکی دور سے ہی شروع کرنا ہوگا یعنی پہلے انسان سازی پر محنت کرنی ہو گی اور احکامات پر زور نہیں دیا جائے گا ۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما ء جب وہ خود ذہنی، علمی، فکری، کریکٹر کے لحاظ سے بانجھ ہیں تو وہ اس قابل ہی نہیں رہے کہ ہماری رہنمائی کر سکیں۔ان کو یہ بھی خیال نہیں ہے کہ؛۔
۔ اسی لئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم میری طرف ایک قدم تو لو میں دس قدم آؤں گا۔ہم وہ قدم لینے کی کوشش ہی نہیں کر رہے۔ جو بھی اللہ کی طرف نیک نیتی اور صدق دل سے پہلا قدم لینا سیکھ لیں تو آپ ولی اللہ بن سکتے ہیں۔
سفارشات
کردار، اخلاقیات اور آداب، معاملات ، انسانی حقوق، دراصل معاشرتی علوم یا سوشل سائنسز کا مضمون ہے۔ مغرب میں یہ ایسا ہی ہے۔ وہ اسے مذہب سے منسلک نہیں کرتے ۔ جبکہ مسلمانوں نے اسے غلطی سے صرف مذہب کا مسئلہ بنا دیا ہے اور اسے دنیاوی فلاح کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ جبکہ ہمیں دنیا کا حسنہ بنانے کی بھی واضح ہدایات ہیں۔ ربنا آ تنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ۔ دنیا کو جنت بنانے سے ہی آخرت کی جنت ملنا آسان بنے گا۔اس لئے میری گزارش ہے کہ
۱۔ آپ اپنے مشن کی کامیابی کے لئے ڈگری تک قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کی بجائے اسوہ حسنہ پر مبنی اسلامی کلچر اور تہذیب کی ترویج کو پاکستانی قوم کا مقصد بنائیں
۲۔ اور پہلی جماعت سے کر یکٹر بلڈنگ کے لئے۔ کردار سازی اور اخلاق سازی آداب ، کی ٹریننگ شروع کریں جو بتدریج
حقوقالعباد اور معاملات کی تعلیم اور تربیت کریں ۔
۳۔ اسوہ حسنہ غیر مسلم سٹوڈنٹس کے لئے بھی applicable ہوگا کیونکہ یہ سب ان کے مذہب کے بھی اصول ہونگے۔
۴۔ حقوق اللہ اور عبادات، قرآن کی تعلیم کو حکومت کی نہیں بلکہ صرف والدین کی ذمہ داری رہنے دینا چاہیے۔جو گھر اور مسجد کے ذریعے ہو۔ اس سے ایک اور اہم اصول سامنے آتا کہ مسجد کے امام کی بھی باقاعدہ سوشیالوجی کی تعلیم ہو تا کہ وہ معاشرے کی سوشل لائین پر تربیت کر سکے ۔
۵۔میں نے اسوہ حسنہ کو سوشل شکل دینے کا آئیڈیا شروع کیا ہے میری پہلی کتاب، اسوہ حسنہ، آئیے ان سنتوں پر عمل کریں جن کو ہم سنت ہی نہیں مانتے۔ اسوہ حسنہ کو سوشل اینگل سے سمجھنے اور سمجھانے کی سخت ضرورت ہے۔
۶۔میں نے قرآن مجید کو بھی سوشل اینگل سے سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ابتدائی کام کر کے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے ۔ اس کام پر
مسلم سوشیالوجی کے پروفیسروں کو مزید کام کی ضرورت ہے تا کہ نبی کریم ﷺ کی طرح ہم قرآن کو سوشل اصولوں اور عادات اور رسومات میں کیسے تبدیل کر سکتے ہیں اس سنت پر عمل کو ہمAplied Quran and Applied sunnah. uswa Hasana کا نام دے سکتے ہیں۔ مثلا نبی کریم ﷺ نے قبروں،؎ کو خوبصورت بنانے کا حکم دیا ہے۔ گورے اس پر عمل کرتے ہیں مگر ہم نہیں کرتے کیونکہ ہم یہ حدیث سوشل اصول اور کلچر کی بنیاد نہیں بناتے۔ عوام کو کیسے اس کی تعلیم دی جائے کہ ہر گاوں میں لوگ اس پر عمل کریں اس کے لئے سوشیالوجسٹ ہی S.O.P بنا سکتیہیں ۔ علماء کرام ، مفتی اور امام حضرات کو جب سوشیالوجی کا پتہ ہی نہیں تو اس کوS.O.P میں کیسے بدل سکتے ہیں ۔
۷۔ ہمارے معاشرے کی تنظیم نو کے لئے ہمیں مذہبی رہنماوں کی جگہ مسلم سوشیالوجسٹ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
۸۔ چونکہ کسی بھی مسلم ملک میں اسلامی کلچر اور تہذیب اپنی اصلی صورت میں پریکٹس نہیں ہوتا جس کی ہم مثالیں دے کر بچوں کو دکھا سکیں تو یہ کام مغربی کلچر کی مثال سے، ان کے طریقہ تعلیم سے اپنایا جا سکتا ہے کہ کیسے پہلی جماعت سے مساوات ، آداب کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہر گھر ، دفتر، سکول فیکٹری ، ریل ہوائی جہاز ایئر پورٹ پر ایک جیسی عادات، سلوک، رویے نظر آئیں گے۔
اختتامیہ
عزت مآب گورنر صاحب۔ میری ان گزارشات پر غور فرمائیں ۔ سوشل سپیشلسٹ ، پروفیسرز کو بلا کر اپنے مشن کی تکمیل کے لئے اس پر بحث کریں اور کسی نتیجے پر پہنچیں۔ علماء کرام کو سوشل سینس بالکل نہیں وہ قوم کی تشکیل نو کرنے کے اہل نہیں رہے۔ سوشل سائینٹسٹ کی سفارشات پر ہی پھر تعلیم پلان کرنی ہو گی۔

                                                                        امتیاز علی         
       مکان نمبر۔۱۰،  سٹریٹ  ۳،  علی ٹاون۔اڈیالہ روڈ۔ راولپنڈی   جنوری  ۲۰۲۱     

051-5571398 email; ch.imtiazali@gmail.com ْ 0345 5366081

What is the best definition of culture?
Culture is the characteristics and knowledge of a particular group of people, encompassing language, religion, cuisine, social habits, music and arts. … Thus, it can be seen as the growth of a group identity fostered by social patterns unique to the group.Jul 13, 2017

What Is Culture? Definition, Meaning and Examples | Live Sciencewww.livescience.com › 21478-what-is-culture-definition-…
Search for: What is the best definition of culture?
What is culture in a simple definition?
Culture is a word for the ‘way of life’ of groups of people, meaning the way they do things. … Excellence of taste in the fine arts and humanities, also known as high culture. An integrated pattern of human knowledge, belief, and behavior. The outlook, attitudes, values, morals, goals, and customs shared by a society.
Culture
From Simple English Wikipedia, the free encyclopedia
Jump to navigationJump to search

Thai folkdancer
Culture is a word for the ‘way of life’ of groups of people, meaning the way they do things. Different groups may have different cultures. A culture is passed on to the next generation by learning, whereas genetics are passed on by heredity. Culture is seen in people’s writing, religion, music, clothes, cooking and in what they do.

The concept of culture is very complicated, and the word has many meanings.[1] The word ‘culture’ is most commonly used in three ways.

Excellence of taste in the fine arts and humanities, also known as high culture.
An integrated pattern of human knowledge, belief, and behavior.The outlook, attitudes, values, morals, goals, and customs shared by a society.
Most broadly, ‘culture’ includes all human phenomena which are not purely results of human genetics. The discipline which investigates cultures is called anthropology, though many other disciplines play a part.

مشاہدات اور سوالات
انسان کسی بھی ملک میں ہوں ان کی فطرت ایک ہی رہتی ہے
سوشیالوجی کے علم کے مطابق انسانی معاشرے کے یہ ادارے بنیادی ہیں ۔ فیملی، معاشی ادارے، مذہب ، تعلیم، حکومت
میرا مشاہدہ ،تجربہ ، سوچ اور نتیجہ
انسانی فطرت کیوں ایک جیسی ہے اور ہر مذہب اور کلچر میں اخلاقی اصول کیوں ایک جیسے ہیں
انسانی فطرت ایک ہی جیسی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ ہے اور ہدایت اور رہنمائی بھی اللہ کی طرف سے ایک ہی ہے جس کی بنیاد یہ آیت ہے۔PICKTHALLAnd verily We have raised in every nation a messenger, (proclaiming): Serve Allah and shun false god . And We never punish until We have sent a Messenger (to give warning)((17-15 اس لئے تمام دنیا میں سوشل اصول ایک ہی جیسے ہیں چاہے مذہب ،کلچر کوئی بھی۔
سر ؛ میں نے ان سوالوں پر بہت سوچا ہے کیونکہ میں نوجوانی میں ہی ایئر فورس جوائن کرنے کے بعد1962میں پائلٹ ٹریننگ کے لئے دو سال کے لئے امریکہ رہا ہوں تو میرا مغربی کلچر سے تب سےexposure ہو ا تھا۔ تب پتہ چلا کہ ، کردار، اخلاق، انسانی عزت اور انسانی ہمدردی کیا ہوتی ہے ۔ملک، قوم ، ایک دوسرے سے محبت کس چیز کا نام ہے۔ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اس معاشرے میں رہ کر اور ایک ایک چیز تجربہ کر چکا ہوں ۔ سچ کیا ہوتا ہے اپنی غلطی فورا مان کر سوری کہنا کتنا قدرتی عمل ہے ۔ معمولی سے مہربانی پر شکریہ ادا کرنا کتنا نیچرل ہوتا ہے وعدہ کیسے نبھاتے ہیں تکبر کیوں نظرنہیں آتا ۔ مساوات ہر جگہ کیسے پریکٹس کرتے ہین ۔
مگر امریکہ میں ہی اچھے کردارکے ساتھ ہی منفی تجربات سے بھی شناسائی ہوئی ۔ کالے انسانوں سے نفرت کیا شکل اختیار کرتی ہے ان کو جانوروں سے بھی بد تر کیسے سلوک کیا جاتا ہے ، انسانیت کی تزلیل دیکھی۔۔ ایک طرف گوروں کا بہترین کلچر، تہذیب اورmanners آداب اور دوسری طرف اور اس کے برعکس اپنے سیاہ فام ہم مذہب ، ہم وطنوں سے برا سلوک۔ کیوں ۔؟
میرے خیال میںوجہ صرف سوشل کلچر کا فرق تھا۔ معاشرہ جب انسانی مساوات پر مبنی نہ ہو تو یہی ہوتا ہے
اب وہی مغربی معاشرہ انسانی مساوات پر منظم ہوا ہے۔ گھر اور سکول سے ہی انسانی مساوات اور انسانی شرف اور عزت سکھاتا ہے ۔ مگر مسلمانوں کے ساتھ اب بھی مذہب درمیاں میں لے آتے ہیں ۔تو مسلمان ممالک کے ساتھ کلچر مختلف ہے نفرت یا ناپسندیدگی پر مبنی ہے
زندگی کا مغربی دوغلا رخ میں نے اپنے یہاں بھی ، آزادی سے، پہلے ہر گاؤں میں مسلمان کمیوں کے ساتھ دیکھا تھا جیسے گورے کالوں کے ساتھ کرتے ہم یہ سچ بالکل بھول گئے ہیں کہ ہم زندگی لوکل کلچر کے مطابق گزارتے ہیں نہ کہ مذہب کے مطابق۔دوسرا سچ یہ بھول گئے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی سوشل اصولوں پر چلتی ہے ۔جو کہ انسانی فطرت پر مبنی ہے اور ہر ملک اور جگہ میں انسانی فطرت ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ اس بھول کی وجہ سے مسلمانوں کو یا سیاسی مخلوق بنا دیا گیا ہے یا مذہبی مخلوق بنا دیا گیا ہے ۔ گئے ہیں ۔اسی لئے ہم سوشیالوجی کا مضمون ہی بھول چکے ہیں۔ اس کی تعریف دیکھیں
sociologythe study of the development, structure, and functioning of human society.Sociology is a systematic approach to thinking about, studying, and understanding society, human social behavior, and social groups
Sociology is the study of human behavior. Sociology refers to social behavior, society, patterns of social relationships, social interaction, and culture that surrounds everyday life.[1][2][3] It is a social science that uses various methods of empirical investigation and critical analysis[4]:3–5 to develop a body of knowledge about social order and social change.[4]:32–40 Sociology can also be defined as the general science of society.the study of social problem
ہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ مذہب بھی سوشیالوجی کا ہی ایک حصہ ہوتا ہے اور اس کا ایک ادارہ۔ جو کہ انسان کو ان سوالوں کے جواب مہیا کرتا ہے۔ کہ میں کون ہوں کہاں سے ٓایا ہو مرنے کے بعد کہاں جاتا ہوں ، اس کائنات کا ملک کون ہے میرا اس سے کیا تعلق رشتہ ہے۔ وغیرہ۔ مذہب کا تعلق صرف اور صرف اللہ کے ساتھ تعلق، مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین کہ وہاں اسے انصاف مل سکے گا ان باتوں پر عقائید اور عبا دات کا تعلق مذہب سے ہے ۔۔ جبکہ دنیا میں انسان کا تعلق انسانوں اور باقی مخلوقات سے کیا ہو گا یہ سب سوشل اصولوں پر مبنی ہوتا ہے ۔ اسی لئے انسان کو اس کائنات میں ہر چیز کو سمجھنے کے لئے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ان کے پیچھے کیا اصول ہیں ان کا پتہ لگانا ہوتا ہے جیسے فزیکل لاز، بایو لاجیکل، کیمیکل، میڈیکل وغیرہ
اس بات کی سچائی کہ ہم زندگی سوشل اصولوںؒ کلچر کے مطابق گزارتے ہیں نہ کہ مذہب کے مطابق ، اور کلچر زمین ، موسم ، ماحول کے مطابق آسانی کے اصول پر بنایا جاتا ہے۔ ۔بہترین مثال یہ ہے کہ پٹھانوں پنجابیوں ، سندھیوں بلوچیوں ، عربوں ، ملایشیا، انڈونیشیا کا کلچر بالکل مختلف ہے اگر چہ مذہبا یہ سب مسلمان ہیں ۔
ان تجربات سے گزرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ دنیا کی زندگی صرف سوشل زندگی ہو سکتی ہے کیونکہ یہاں ایک انسان کے دوسرے انسانوں سے تعلق کی بنیا د صرف انسان ہو نا ہو سکتی ہے۔ اگر مذہب، نسل، زبان ، کلچر وغیرہ کسی اور فیکٹر پر ہو تو ہمیشہ ہر ایک اپنے کو برتر اور دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے جس سے صرف نفرت پھیلتی ہے
قرآن میں بھی تعلیم کے صرف دو ہی حصے ہیں ایک مذہب یعنی انسان اور اللہ کا تعلق اور زندگی بعد الموت بارے ، اور باقی سب اس دنیا میں سوشل اصول ہیں ۔
اسلام تو دراصل کلچر اور تہذیب ہے
یہیں سے سوشیالوجی کی سٹڈی میری دلچسپی کا موضوع بن گیا۔ اور جب میں نے ۶۵ سال کی عمر کے بعد پہلی دفعہ قرآن کی critical study شروع کی تو اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے کما ل مہربانی سے مجھے پہلی بار سمجھ عطا فرمائی کہ قرآن تو مذہبی تعلیم کے ساتھ ہی باقی سارا سوشلاصولوں کی کتاب ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی نے دنیا میں اپنے خلیفہ، اپنے نمبر ٹو کے لئے سوشل اور ایڈ منسٹریشن کی ہدایات کی کتاب بھی بھیجی ہے۔ جب ا س کے ساتھ ہی اسوہ حسنہ کی گہری سوچ سے سٹڈی کی تو پتہ چلا کہ اسوہ حسنہ مذہبی نہیں بلکہ سوشل اصولوں پر مبنی اصولوں کا خزانہ معلوم ہوتاہے۔ ہونا بھی چاہئے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے دنیا کے ہر عمل کو عام انسان کی طرح رہ کر دکھا دیا کہ اگر میں ک سکتا ہوں تو تم بھی کر سکتے ہو،۔ یہیں سے مجھ سمجھ آ گئی کہ اسلام تو دراصل کلچر اور تہذیب ہے اور ہونا چاہیے۔ ۔ جیسے کہ مغرب میں سب مغربی کلچر اور تہذیب ہے جو کردار اور اخلاق کی برتری کی وجہ سے ساری دنیا پر حاوی ہے۔
یہ بات صرف گوروں کو سمجھ آ سکتی تھی ۔اسی لئے نبی کریم بارے وہ لکھتا ہے اس سوچ کے صحیح ہونے کی تصدیق مجھے ایک کتاب حضرت بلال کی آٹو بایو گرافی کے ترجمہ سے مل گئی اس کے مصنف مسٹر کریگ نے ہر باب سے پہلے اپنی رائے دی ہے۔ ہجرت کے بعد کی نبوی زندگی پر اسی بات کو مسٹر کریگ نے یوں بیان کیا ہے
ہیں۔His (Prophet Muhammad PBUH) translation of much of the spiritual messege of the Koran into social reality showed Mohammad’s genius as a law giver. He expressed human sympathies that in their time, the seventh century, were astonishing. Many of his social ideas were not realized institutionally in western civilization until the 19th and 20th centuries. Mohammad’s greatest fear, which he included in his fear of God was doing injustice to man, women or creature”.H.A.L CRAIG BOOK ‘BILAL’ Quartet Books London Page 121 . 1997
’’ حضرت محمدﷺ نے قرآن کے روحانی پیغام کو معاشرتی قانون، رسوم اور عادت اور حقیقت میں تبدیل کر کے اپنے آپ کو بڑا قانون بنانے اور دینے والا ثابت کر دیا۔ انہوں نے انسانی احساسات، ہمدردیوں، رحم و کرم کے وہ آئیڈیا دئیے جو کہ مغربی تہذیب میں انیسویں اور بیسویں صدی تک معلوم یا محسوس نہ کئے گئے اور نہ ہی بطور ادارہ اپنائے گئے۔ حالانکہ وہ ساتویں صدی عیسوی میں گزر ے ہیں۔ محمدﷺ کا سب سے بڑا ڈر۔ جو کہ اللہ کے ڈر میں شامل تھا۔ یہ تھا کہ لوگ کہیںدوسرے لوگوں،خواتین اور مخلوقات سے ناانصافی نہ کریںـ‘‘
اسی سوشل اصول کو مولانا عبید اللہ سندھی نے یوں بیان کیا ہے کہ ’’ جب کوئی تعلیم محض علم کے درجے سے نکل کرعمل کے ذریعے سوسائٹی میں بطور رسم پختہ ہو جاتی ہے تووہ مضبوط ہو جاتی ہے (یعنی جب علم سوشل رسم، عادت، پریکٹس میں بدل جائے تو وہ علم محفوظ، مستحکم اور مضبوط ہو جاتا ہے)
یہاں سے ہمیں یہ اصول پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی ہر بات کو سوشل عادات میں تبدیل کریں گے تو تبھی اس پر عمل ہو گا صرف پڑھ لینی، جان لینے یا انفارمیشن سے صرف پہلا مرحلہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ارادہ کرنے اور اس پر بار بار عمل کرنے سے ہی وہ پہلے عمل میں تبدیل ہو گا اور بار بار کرنے سے عادت میں ہو گا۔
اور یہ بھی انسانی فطرت کا اور سوشل اصول ہے کہ ہم زیادہ تر باتیں عادت کے تحت کرتے ہیں نہ کہ ہر بات ہر دفعہ سوچ کے کرتے ہیں۔ اسی لئے بچوں کو عادات سکھائی جاتی ہیں۔اور اس پر عمل کے لئے مجبور کیا جا تا ہے تب وہ اپنے کلچر کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔
ہم سے ماضی سے لے کر اب تک بہت سی علمی اور فکری، غلطیاں ہوئی ہیں جن میں سے یہ غلطی بھی شامل ہوئی ہے کہ ہم نے ہر قرآنی آیت کو صرف مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا ہے
سر ؛ جبکہ ہر اصول دراصل سوشل اصول ہوتے ہیں ۔ یعنی اسلام کے سب اخلاقی، ثقافتی، تمدنی، علمی حکومتی گڈ گورنس کے سوشل اصول ہی دنیاوی طور پر اپنانے کی بھی ضرورت تھی جو سب ملک کر اسلامی تہذیب و ثقافت اور کلچر کی تشکیل کرتے ہیں۔
اسوۃ حسنہ سب کا سب سوشل اصولوں پر مبنی عادات کا نام ہے۔
نبی کریم ﷺ دنیاوی زندگی انسانی فطرت، سوشل اصولوں ، اور عادات کے مطابق گزارتے تھے جو کہ قراان کے اصولوں پر مبنی تھے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے بھی ان کے اسوۃ حسنہ کو بہترین نمونہ قرار دے اس کی نقل کر کے وہی عادات بنانے کا حکم دیا ہے۔ میں صرف دو مثالیں دونگا کہ نبی کریم ﷺ ہر فیصلہ سوشلاصولوں کا سوچ کر کر کرتے تھے ،نہ کہ مذہبی اصولوں پر کرتے تھے۔
پہلی مثال؛۔ جب مکہ میں مسلمانوں پر مظالم بڑھ گئے تو انہیں مکہ کے اشرافیہ میں سے کسی با اثر، بہادر شخص کی protection کی ضرورت پڑی۔ تو انہوں نے دعا مانگی اور حضرت عمر مسلمان ہو گئے۔ انہوں نے یہ اس لئے کیا کہ دنیا میں یہ سوشل اصول ہے کہ اگر آپ کسی ایک با اثر شخص کے ساتھ منسلک ہیں تو کوئی اسے چھیڑے گا نہیں کیونکہ سزا وہ با اثر شخس دے گا کہ میرے آدمی کو کیوں چھیڑا۔
دوسری مثال؛۔ میثاق مدینہ سوشل کنٹریکٹ اور معاہدہ تھامگر ہم نے اسے آج تک اسے اس اینگل سے سٹڈی نہیں کیا

جب نبی کریم ﷺ نے مدینہ کو سیاسی لحاظ سے منظم کرنے اور ریاست کی بنیا رکھنے کا سوچا تو انہوں نے اس سوشل اصول کو بنیاد بنایا کہ انسان ہمیشہ کسی مشترکہ مفاد کے تحت اکٹھے ہو سکتے ہیں یا کسی مشترکہ خطرے سے نبٹنے کے اور بقاء کے لئے اکٹھے ہو سکتے ہیں چاہیے ان کا مذہب ، نسل، رنگ، زبان کوئی بھی ہو۔
میثاق مدینہ کی بنا پر نبی کریم ﷺ کی سنت پر مبنی تھی کہ کثیر المذاہب اور کثیر الکلچر معاشرے میں ایک دوسرے سے تعلق کی بنیاد صرف کامن شہریت ہونی چاہیئے اور مذہب اور کلچر ہر ایک کا ذاتی ہوتا ہے جس کو پریکٹس کرنے میں ہر ایک فری ہے اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہویا

سر ؛۔ نبی کریم زندگی کے مختلف مسائل کوہمیشہ سوشل اصولوں کی بنیاد پر حل کرتے تھے اور ہمیشہ بہترین نتائج نکلتے تھے۔ ہجرت کے بعد نبی کریم ﷺ کو ایک نیا معاشرے کو منظم کرنے کا مشکل کام در پیش تھا۔کہ کیسے کثیر المذاہب اور کثیر الکلچ اور کثیر الفادات معاشروں کو ایک کامن مفاد پر اتفاق کروا کر ایک نیا گروپ تشکیل دیا جا سکے اور وہ کام مفاد کیا ہو سکتا ہے۔
گروپ بنانے میں قدرت نے پہلا اصول homogenity یکسانیت یا ہم نوعی ہوتا ہے۔ نسل ہو، رنگ ہو زبان ہو ، مذہب یا مسلک ہو، عادات ہوں ۔ یہ محاورے بیان کرتے ہیں۔ کند جنس با ہم جنس پرواز۔birds of the same feather flock
together ۔ دوسرا اصول یہ ہے کہانسان ایک دوسرے کے ساتھ گروپ بنا کر تعاون ہمیشہ دنیاوی مفادات کے تحت کرتے ہیں۔ بہت کم لوگ اخروی مفادات کے لئے دنیاوی مفادات قربان کرتے ہیں۔ مگر کرتے وہ بھی مفادات کے تحت ہی ہیں کہ ہمیں یہاں کے نقصان کی پرواہ نہیں یہاں نقد ملنے کی بجائے بعد میں ملنے کی امید پر کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ،وقتی طور پر تمام اختلافات جیسے مذہب ، نسل، رنگ، زبان ، کلچر بھلا دئے جاتے ہیں ۔ یہ عموما تب ہوتا ہے جب کہ بقاء کو خطرہ ہو۔survial instinct کے تحت کیا جاتا ہے جو اللہ تعالی نے ہر جاندار میں رکھ دیا ہے۔
اس سچائی اور حقیقت کا ادراک نبی کریم ﷺ سے بہتر کس کو ہو سکتا تھا جو کہ جذباتی بالکل نہیں ہوتے تھے۔ پریکٹیکل رہتے تھے۔ حقیقت پسند تھے۔. اس کی وجہ یہ اصول ہے کہ .صادق اور سچ بولنے، سچ سننے، سچ برداشت کرنے، سچ کی تلاش کرنے والی شخصیت ہی حقیقت جان سکتی ہے۔ ۔ مشاہدے سے صحیح نتائج نکال سکتی ہے۔ صحیح بصارت اور بصیرت رکھتی ہے۔ سو فیصد سچ کو تسلیم کر کے فیصلے کرتے تھے۔ ( ہمارے زمانے میں صرف قائید اع کی شخصیت اس وصف سے مصتصف نظر آ تی ہے ۔ کوئی مذہبی شخصیت بھی نہیں ملتی)
تو سب سے پہلے ہم مذہب گروپ کی تشکیل کے لئے مہاجرین اور انصار میں بھائی چارہ قائم کیا گیا کیونکہ یہی گروپ اسلام کی تحریک کا محافظ تھا جو بقاء کے مشترکہ مقصد کے تحت فورا اخوت میں تبدیل ہو گئے ، اگر چہ مختلف عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے ۔ یعنی ہر ایک کلچر اور وفادری ممختلف تھی
اب باقی آبادی میں کفار بھی تھے، مشرکین بھی، اور یہود بھی اور یہ سب بھی مختلف قبائل سے بھی تھے، ان کے کلچر بھی مختلف تھے اور وفاداریاں بھی اپنے اپنے قبیلے سے تھیں۔ اب ان سب کو مسلمان گروپ کے ساتھ تعاون کرنے اور سب سے بڑا معاشرتی گروپ بنانے کے لئے ایسے مشترکہ مفادات کا تلاش کرنا اور تعین کرنا رہ گیا تھا جس پر سب متفق ہو سکتے ہوں۔ ان سب کا کسی ایک مذہب یا اسلام پر تو تعاون ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ ان سب اختلافات اور مفادات کے اختلافات کو دل سے تسلیم کر کے نبی کریم ﷺ نے ایک سا سوشل کنٹریکٹsocial contract کیا جس کو میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا۔ اس میں سب سوشل گروپوں کو ایک امت ہونے کا خطاب دیا گیا جو کہ مدینہ کی ریاست کی بنیا د بنی۔ اس میں انسان ہونے میں مساوات اصولرکھا گہا اور انصاف میں برابر ہونا بنیادی اصول تھا جس میں ایک دوسرے سے تعلق کی بنیاد مدینہ کا شہری ہونا ہوگا اور کوئی اور تعلق کی بنیاد نہیں ہو گی ۔ ہر ایک اپنا اپنا مذہب پریکٹس کرنے میں آزاد اور فری تھا۔ ہر قبیلہ اپنے کلچر کو پریکٹس کرنے میں فری تھاکے لئے مشترکہ مفادات میں اندرونی امن اور بیرونی جارحیت کے خلاف کامن دفاع ہو گا جس میں سب مل کر حصہ لیں گے۔ باقی تفصیل آپ کسی بھی کتاب میں پڑھ سکتے ہیں یا میری کتاب میثاق مدینہ ، میری ویب سائٹwww.askallah.com.pk پر پڑھ سکتے ہیں
میثاق مدینہ قیامت تک پوری دنیا میں سوشل رہنمائی کرتی رہے گی اور جس کو آج کی ترقی یافتہ دنیا نے بھی دل و جان سے قبول کر کے کامیاب اور پر ام کثیر المذہب اور کثیر الکلچر اور کثیر المفادات معاشرے ترتیب دئے ہیں اور مانا بھی ہے کہ آپ کا سوشل کنٹریکٹfirst written constitution of the world تھا۔ اور جو پولیٹیکل سائینس کالجز میں پڑھایا جاتا ہے۔
اگر ہم نے بھی پاکستان میں معاشرے کو سوشل اصولوں کے مطابق منظم کر نا چاہیں تو بچوں کو بچپن سے ہی سوشل اصول سکھائیں گے اور مذہب کا بھی ذاتی رول سکھائیں گے تو تبھی معاشرہ پر امن رہ سکتا ہے
بدقسمتی دیکھئے کہ مسلمان کسی بھی ملک میں میثاق مدینہ پر عمل کے لئے تیار نہیں۔میرے مطابق ہمارا ملک کثیر المذاہب ، کثیرالکلچر، کثیر النسل، کثیر الزبان معاشرہ صرف میثاق مدینہ پر ہی منظم کیا جا سکتا ہے ۔یہ نبی کریم ﷺ کی سنت کی پیروی بھی ہوگی جبکہ ہم اسلامی نظام کی بنیاد مذہب پر رکھی جاتی ہے جو کہ نہیں چل سکتی۔ یہ میں تذکرۃ ذکر کر دیا۔ اسی لئے میں نیاپنی کتاب ، کیا پاکستان میں اسلامی نظام لانا ممکن ہے
ہم صدیوں سے ایک غلط نظریے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ جب تک ہمیں سیاسی حکومت نہیں مل جاتی اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جا سکتا ۔ علما اسلامی جب اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں تو سیاسی طاقت سے صرف فقہ کا نفاذ ہوتا ہے جس کو نافذ کرنے کا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں نہ کہ سیاست دانوں کا۔ یعنی اس کلیم کے پیچھے حکمرانی کی خواہش چھپی ہوئی ہوتی ہے ۔ یہ کبھی بھی کردار، اخلاق یا آداب، حقوق العباد معاملات کی بات نہیں کرتے کیونکہ اسے وہ اسلامی نظام کا حصہ نہیں سمجھتے جبکہ کویہ بھی سیاسی سسٹم ہو یہ صرف صاحب کردار لوگ چلا سکتے ہیں ۔ اس کا ثبوت ہم خود ہیں کہ بے کردار سیاسی لیڈر کوئی بھی سسٹم نہین چلنے دیتے
میری بات کی سچائی کا یہ مزید ثبوت ہے کہ اگر ہم اسلامی کلچر کو زندگی کا مقصد بنا لیں اور ہر گھر میں اسوہ حسنہ کی عادت اختیار کروانی شروع کر دیں جو سچ ، انسانی مساوات اور انسانی شرو اور عزت، امانت اور انصاف چار اصولوں سے شروع ہوتے ہیں تو ہم اتنے اچھے ہو سکتے ہیں کہ حکومت کے بغیر بھی سوشل لیول پر ہم اسلامی نظام ہی کو رائج کر رہے ہونگے کیونکہ جب ہم ایک دوسرے سے انصاف کریں گے یا مسا وات کا سلوک کریں گے تو جھگڑوں کی بہت کم نوبت آئے گی جب سچ بولیں گے تو دھوکہ فریب ختم ہو جائے گا حقوق کی ادائیگی ہو گی ۔ امن قائم ہو جائے گا جو کہ ہر معاشرے کا مقصد ہوتا ہے کیونکہ امن سے ہی انفرادی اور قومی ترقی ہو سکتی ہے۔ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے جو ہم حاصل کر لیں گے۔ اگر اسلامی فقہ نافذ ہو مگر اسلامی کردار نہ ہو تو بدامنی پھیل جائے گی۔

دوسرا خط
گروپ کیپٹن ( ر) امتیاز علی

                                  عزت  مآب  جناب چوہدری محمد  سرور صاحب
                                        گورنر   صوبہ پنجاب
      محترم گورنر  صاحب      السلام و علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ
          اس موضوع پر یہ  دوسرا خط ہے۔ پہلے خط میں ہم  دنیا کا مشاہدہ کر کے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ
  ۱۔ صرف  کردار  ، اخلاق یا حقوق بارے جاننے سے خود بخود کردار پیدا نہیں ہو جاتا ، نہ ہی دوسروں کے حقوق ادا کرنے شروع ہو جاتا ہے۔  دنیا میں کوئی چیز خود بخود نہیں ہو جاتی۔ یہ غلط نظریہ ہے ۔ خدا کو  نہ ماننے والے دہریے  بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ دنیا خود بخود ہی بن گئی تھی اور خود بخود ہی چل رہی ہے اس کو کنٹرول کرنے والا نہیں ہے  جیسے  یہ بات غلط ہے مشاہدے کے خلاف ہے اسی طرح پہلا نظریہ بھی حقیقت کے خلاف ہے، یہ دنیاcause and effect کے اصول پر چل رہی ہے  اللہ تعالی نے بھی کلام پاک میں اصول واضح کر دیا ہے  کسی کو وہی ملتا ہے جس کے لیے اس نے کوشش کی ہے۔ لیس للا انسان الا ما سعی ۵۳۔۳۹"Laisa lil insana illa ma sa’a" (Quran, Chapter 53 Surah Najm verse 39:)     Translation: There is nothing for man except what he strives for.؎

This verse is the secret of the success of human kind. Without struggle and hard work no one can achieve success
۲۔ دوسرا بتیجہ یہ نکلا تھا کہ کردار سازی کا دارو مدار صرف مذہب کے اصولوں پر ہی نہیں ہوتا۔ اس کے بغیر بھی ہمارے پاس کامیاب ماڈل موجود ہیں جیسے مشرقی ترقی یافتہ ممالک جاپان ، چین ، سنگاپور، اورمغربی ممالک۔
اس لئے اس خط میں میں نے اوپر دیے ممالک میں سے مناسب سمجھا کہ میں پہلے جاپان کی مثال سے شروع کروں کیونکہ ایک تو یہ کہ وہ مشرقی ملک ہے اور اس نے مغربی ممالک ہی سے سیکھ کر تیز رفتار ترقی کی تھی اور یہی ماڈل سب اپنا رہے ہیں ۔۔ جبکہ یورپ نے تاریک دور سے نکلنے کے لئے ایک لمبی جدو جہد کے بعد ترقی شروع کی تھی۔ اور میرے نزدیک ہمیں یورپ ہی کی طرح کی لمبی کشمکش سے گزرنا ہو گا تا کہ ہم اپنی عادات اور فطرت بدل سکیں جب تک ہم اپنا نیچر نہیں بدلتے سچ کو نہیں اپناتے اوت تکبر سے جان نہیں چھڑاتے ہم کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔ چونکہ یہ بہت ہی سنجیدہ جذباتی موضوع ہے اس کو میں نے تیسرے خط کے لیے رکھا ہے چوتحے میں اسوہ حسنہ کو رول ماڈل کیسے بنانا چاہیے اس پر بحث کی ہے ۔
دوسروں سے سیکھنا ہی اللہ تعالی کا سو شل اصول ہے ۔
نقل کی حقیقتیں یا اصول

CAN PAKISTAN BE JAPAN?
Book; Pakistan society: Islam, ethnicity, and leadership
Akbar S. Ahmed;(Salahuddin)
Isbn 0195773500;first edition ; Karachi; New York; Oxford University Press, 1986,
Can Pakistan be Japan?”, the final chapter of the book, Pages 145-162 | is a valuable contribution.
Asian Affairs Volume 16, 1985 – Issue 2
Original Articles;;Can Pakistan be Japan? Social factors in economic development ; Published online: 24 Aug 2007
CAN PAKISTAN BE JAPAN?
SOCIAL FACTORS IN ECONOMIC DEVELOPMENT
AKBAR S. AHMED
Paper presented at a special seminar in Islamabad on 30 January 1984
with Dr. Mahbub ul Haq, Minister for Planning and Development, in the Chair. The discussant were H.E.S. Yanai, Ambassador of Japan, and Mr. Mushahid Hussain, Editor of The Muslim. Dr. Ahmed is Director-General of the National Centre for Rural Development, Islamabad.
Introduction
The president of Pakistan, General Zia-ul-Haq, visted Japan in July 1983 and was visibly impressed with what he saw. Before General Zia other visitors, ranging from noted world economists like Veblen and Rostow to experts from India (Madan 1983, Rustomji and Sapre 1982), America (Christopher 1983, Dore 1983, Franko 1983, Menddel 1968, Reischauer 1964 and 1977, Vogel 1979) and Singapore (Swee 1983), have been equally impressed by the Japanese model of development. And like many foreigners General Zia asked why his country, Pakistan, cannot be like Japan? The question raises important issues of a sociological nature in order to explain Japan’s economic success.
What impressed General Zia? Lessons of high productivity, high profits, discipline and loyalty in firms? Or, like any one visiting Japan from South Asia, was he struck with the series of contrasts in social and public life: the politeness, the orderliness, the cleanliness and the appearance of formality or properness in japan? It is difficult not to be moved like General Zia on a first visit to japan.
In dress, in standard of living, in their economy the Japanese are like or better than – most Europeans. Nowhere in Asia or Africa can their organization and standards be equaled. For Asians Japan’s highly developed world comes as a cultural shock; the thought that these are, after all, Asians remains in the mind. They are not masquerading as a developed nation, they are a developed nation.
Japan and Pakistan: Comparisons
The national statistic – taken almost at random – indicate the contrast between the two nations. Japan’s average annual income per capital in dollars is about 7,000, Pakistan’s 300; Japan has some 40 million motor vehicles, Pakistan not quite 1 million; Japan has a hospital bed for 92 persons, Pakistan has one for every 2000; Japan has a physician for 782 persons, Pakistan one for 3655 (Statistical Year books). The Japanese, on average, live until the age of 77, the Pakistanis to 54. Japan’s literacy rate is almost a hundred percent; Pakistan’s about twenty percent. The better figures for japan are in spite of the fact that its 120 million people live on
page 145
BOOK-REVIEWS Pakistan Society: Islam, Ethnicity and …
www.tandfonline.com
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے اسوۃ کو حسین نمونہ یا رول ماڈل قرار دیا ہے۔جس کی ہمیں نقل کرنے کا حکم دیاہے جو یہ ثبوت ہے کہ انسانوں کی یہی ڈیزائین شدہ فطرت ہے۔لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہ اُسوَۃٌحَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرجُو اللّلہَ والیَومَ الآخِرَ وَ ذِکْرَاللّٰہ کَثِیراًo (سورہ احزاب۔آیت 21)
’’در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘
اس رول ماڈل کی نقل کر کے ہی اپنے اخلاق کو بہتر سے بہتر بنا کر دنیا کو دکھانا ہے۔کہ مسلمان کا کریکٹر کیسے ہوتا ہے۔ تبھی وہ اسلام کے پیغام کی حقانیت پر یقین لائیں گے ۔اس لئے، میرے خیال میں، تلاوت قرآن مجید کی طرح، ہر گھر میں سیرت النبی ﷺ کی کتاب بھی ہر روز پڑھی جانی چاہیے اور اس کے مطابق عادات بناتے رہنا چاہئے۔
اوپر کی آیت سے ایک اصول یہ بھی نکلتا ہے کہ جو انسانی فطرت پر مبنی ہے کہ انسان ہمیشہ دوسروں کیمثال یا نقل یا سکھانے سے ہی سیکھ سکتا ہے یعنی زیادہ ترلوگ عام طور پر دوسرے کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ FOLLOWERSہوتے ہیں۔ جبکہ سوچنے اور ایجاد کرنے والے یعنی ORIGINAL THINKERSبہت کم ہوتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو دنیا کوقانون اور سسٹم SYSTEMSدیتے ہیں وہ تو بہت ہی کم ہو تے ہیں اور یہ اللہ کے منتخب انسان ہوتے ہیں۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ کودنیا کے سو بڑے آدمیوں میں سے اول نمبر دیا گیا ہے۔میں نے نقل کے چند بنیادی اصول لکھنے ضروری سمجھے ہیں۔
نقل کا پہلا اصول:، کوئی آدمی زندگی میں نقل کے اصول کو نظر انداز نہیںکر سکتا کیونکہ یہ انسانی فطرت میں ہے کہ جو دوسرے کرتے ہیں وہ ان جیسا ہی کام کرتا ہے مثلاً بچہ اپنی ماں کی نقل اتارتا ہے۔ سب سے پہلے وہ وہی کام کرتا ہے جو اس کی ماں کرتی ہے۔غریب امیر کی نقل کرتا ہے۔ ترقی پذیر ملک ترقی یافتہ مغربی ممالک کی طرف رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں۔ ‘‘
دوسرا اصول : ہمیںمختلف ‘‘ ہونے سے ڈر لگتا ہے اس لیے نقل کا مقصد یکسانیت پیدا کرنا ہوتاہے۔ یہ ڈر انسانی نسل کی بقا کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے تا کہ سب ایک ہی جیسے لگیں اور ایک ہی جیسے رہ سکیں اسی میں آسانی ہوتی ہے۔ شروع زمانے سے ہی نقل قبیلہ کی بقا، اتحاد اور پہچان کا ذریعہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ ایک خاص طرز عمل، لباس، وغیرہ پر اصرار کرتا ہے۔ اسی لیے ہم اپنی رائے اور عادات ماحول کے مطابقبدلتے رہتے ہیں۔ ہم ویسے ہی کرتے ہیں جیسے کہ دوسرے کر رہے ہوتے ہیں۔۔ ہم فیشن کے اثرات کو بخوبی جانتے ہیں۔ وہ اسی طریقے سے سوچتے ہیں جیسے دوسرے سوچتے ہیں۔‘‘
’’ اسی اصول سے قومیں، نسلی اکائیاں، فوج، مذہبی فرقے،سکول، کالج کی ٹیمیں،مختلف نسلیں، ملک، کلچر، مشترکہ پہچان کے لیے ا سٹینڈرڈ لباس، روئیے اپناتے ہیں۔ فوج اور مذہبی فرقوں کی مختلف رنگوں، ڈیزائین کی ٹوپیاں، پگڑیا ں نظر آتی ہیں۔ یہ سب دراصل پرانے طریقوں کو بچاتی بھی ہے۔ یہ قوم پرستی کا ایک جزو ہے۔‘‘
تقلید کے نقصانات :کیسے قومیں بتدریج زوال پذیر ہوتی ہیں؟ ’ زیادہ تر لوگوں کو پڑھایا نہیں جاتا بلکہ وہ ایک دوسرے سے چیزیں سیکھتے ہیں۔ اور عام طور پر یہ سارا غلط ہوتا جاتاہے کیونکہ بجائے مکمل اور صحیح طور پر سیکھنے کے وہ ایک دوسرے سے صرف چھوٹے چھوٹے حصے سیکھتے ہیں۔ مثلاً احمد نے محمود سے سیکھا۔ محمود نے اسلم سے اور اسلم نے اشرف سے اور اشرف کو پوری طرح آتا نہ تھا۔ اس طرح ایک ادھوری بات سب تک پہنچ گئی۔ اور اس طرح بعض اوقات نسلوںکی نسلیں غلط بات کو صحیح مانتی رہتی ہیں۔ اس طرح کی نقل سے کتنا نقصان ہوتا ہے اندازہ لگا لیں۔”۔ اس لیے ہمیں اپنے اسلامی اور دنیاوی نظریات کو پرکھتے رہنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی اس ادھوری بات پہنچنے سے غلط مائینڈ سیٹ میں تو مبتلا نہیں ہو گئے۔
نقل کا تیسرا اصول یہ ہے کہ اندھی تقلید ہی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے :
ہم سب جانتے ہیں کہ معاشرے باپ دادا کے رسم و رواج پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں اور یہی ا صرار ترقی میں رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ اور آج کل بھی دنیاوی اور مذہبی اندھی تقلیدترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ فطرتاً ہم اجنبی لوگوں یا نئے خیالات یا نئی عادات کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ ماضی میںمذہبی اختلاف پر زندہ جلا دیا جاتا تھا جبکہ برما اور ہندوستان میں اب اقلیتوں کے خلاف بھی یہی شروع ہوا ہے۔ ہمارے لیے بھی ترقیکے لیے زرعی سے صنعتی زندگی اپنانا مشکل بن گیا ہے کیونکہ ہمیں مغربی ورکنگ طرز زندگی اپنا ناہو گا۔ہم اسی کشمکش میں گرفتار ہیں ۔ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے ہمیں بہر صورت بہتر طریقوں کو اپنانا ہی پڑے گا۔ جن قوموں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا وہ ترقی کر گئے ہیں ۔
جہان تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
چوتھا اصول: لوگ نئی چیز کر کے خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔
’’جو بھی کوئی نئی چیز یانیا انداز شروع کرتا ہے وہ خطرہ میں ہوتا ہے۔ اس کو عام طور پر شہید بنا دیا جاتا ہے۔ لوگ جدت پسند کواس کی موت کے بعد ہی تعریف کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ مفادات خطرے میں پڑنے کے ڈر سے ہم ہر نئے آئیڈیا سے ڈر جاتے ہیں۔مذہبی اور سیاسی رہنماء، اور اشرافیہ اسی لیے مساوات، انصاف، آزادی رائے، یونیورسل تعلیم، خواتین کے اسلامی حقوق، بنیادی انسانی حقوق کی ڈیمانڈ سن کر گھبرا جاتے ہیں ۔
ماضی کے غلط خیالات کو غلط ثابت کرنے یا سچ دریافت کرنے اور بولنے والوں کا کیا حشر ہوتا ہے، تاریخ بھری پڑی ہے۔ آپ ماضی کی بات کو غلط ثابت کر دیں تو اسے بزرگوں کی بے عزتی کا ایشو بنا لیا جاتا ہے۔۔ ماضی میںسائینس دانوں کو چرچ سے جان بچانے کے لیے اپنی دریافت سے رجوع کرنا پڑتا رہا ہے۔کئی نے زہر کا پیالہ پینا قبول بھی کیا تھا۔ اس کا حل یہ ہے کہ پرانی چیز کے ساتھ تھوڑا سا نیا خیال ڈال دیا جائے تو پھر وہ قابل قبول ہو جاتا ہے۔‘‘
پانچواں اصول: نقل ہمیشہ اپنے سے بہتر فرد ،قوم، کلچر یا تہذیب کی، کی جاتی ہے۔
امیر کبھی بھی غریب کی نقل نہیں کرتا۔ یورپ میں چودھویں صدی تکیونیورسٹیوں میں مسلم سکالرز کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں کیونکہ مسلم تہذیب ہی برتر تہذیب تھی۔ آج کل ہم مغربی تہذیب کی نقل کرتے ہیں کیونکہ و ہی دنیا کی برتر تہذیب ہے۔ جاپان، کوریا، سنگاپور، چین نے مغربی تعلیم، سیاسی نظام، معاشی نظام اورکلچر اپنا کر ہی ترقی کی تھی ۔
اگر موجودہ اسلامی نظام جس کو ہم رائج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسلامی کلچر کی برتری ثابت نہیں کر سکتا تو پھر دنیا ہماری نقل کیوں کرے گی؟ کونسٹن ورجیل کی کتاب کا نام،’’ محمدﷺ، جنہیں پھر سے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘بہت مناسب ہے۔ ہمیں بھی اسوۂِ حسنہ کو دوبارہ دریافت کرنا ہوگا۔اپنے زمانے میں بھی اسوۂِ حسنہ ماڈرن خیالات پر مبنی تھا اور مجھے یقین ہے کہ ہم جب اسوہ کو سوشل نظر سے دیکھیں گے تو ہم دنیا کو آج بھی بہترین معاشرتی سسٹم دے سکتے ہیں مگر یہ کام عام مسلمان، اور سوشل سائینٹسٹ کو کرنا ہے۔ خواتین کا اس میں خصوصی رول ہے کیونکہ رسوم، کلچر، نئی نسل کی تعلیم اور تربیت اور آداب سکھانا انہی کا شعبہ ہے۔
نقل کیوں کی جاتی ہے؟
نقل دراصل آسانی اور تیز رفتارترقی کے لیے کی جاتی ہے۔ کیونکہ اپنا سسٹم ابتداء سے شروع کر کے بنانے میں بڑا وقت لگتا ہے۔ اس لیے ہم نے اگر برتر کلچر بننا ہے تو پہلے مغربی ممالک سے پورے کا پورے سسٹم سیکھ کر پندرہ بیس سال میں ان کے برابر آ جانا اشد ضروری ہو گیا ہے جیسے جاپان نے کیا تھا۔جیسے کہ چین نے روس اور،مغربی دنیا سے سیکھا، اور اب وہ نئے آئیڈیاز پیدا کرنے میں امریکہ سے بھی آگے ہیں، اورانہوں نے اوریجنل چینی طریقے نکالے ہیں ۔اس طریقے کو اختیار کئے بغیر چارہ نہیں۔
عوام آگے کی طرف دیکھتے ہیں پیچھے کی طرف نہیں۔ جبکہ ہر ملک کے مذہبی رہنماء ماضی کو لوٹنا پسند کرتے ہیں ۔سیاسی لیڈر بھی سچ مساوات انصاف پر مبنی اسلامی کلچرسے ڈرتے ہیں کیونکہ یہ مکمل فرعون بنے ہوئے ہیں تو وہ مساوات پر مبنی نظام کیوں نافذ کرنے دیں گے۔ابو جہل کو بھی یہی شکایت تھی کہ مساوات کا نام نہ لیا جائے ،نہ انصاف کی بات۔اس لیے ہمیشہ کی طرح، اسلام کی دریافت اور اس کو معاشرے میں ذاتی لیول پر پریکٹس کرنا عوام کی ذمہ داری بن گئی ہے۔اخلاق، کردار، بنیادی انسانی حقوق، معاملات وغیرہ سب ذاتی فعل ہیں۔، عوام نے ہی ان سب پر رضاکارانہ عمل کر کے ہی اسلامی تہذیب اور کلچر کو نافذ کرنا ہے، حکومتی آرڈرز کے ذریعے زبردستی نفاذ کی امید لگانا غلط سوچ ہے۔ ہم مسلمان بھول رہے ہیں کہ ہمیں اسی دنیا میں رہنا ہے اور سب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم نقل کے اصول کے مطابق زیادہ تر چیزوں میں ترقی یافتہ ملکوں کے مطابق چلیں مگر بنیادی عقائد اور اصولوں پر بھی محکم رہیں۔
تمام مغربی اور ترقی یافتہ قومیں مکی دور کی کاپی کر کے ترقی یافتہ ہوئی ہیں۔ نبی بننے سے پہلے بھی اسوۂِ حسنہ صداقت سے شروع ہوا تھا۔ یہ سنت ہے کہ لیڈرشپ کے لیے انسان سازی میں ذاتی لیول پرپہلا قدم سچ بولنا اور امانت ہے۔ اور اجتماعی لیول پر انسانی مساوات، شرفِ انسانی اور انصاف ہے۔ مدینہ میں اسلامی نظام کے نفاذ سے پہلے نشاۃ ثانیہ مکی دور سے شروع ہوتا ہے جو تیرہ سال پر محیط ایمان اور انسان سازی کا پروگرام تھا۔ اس کے بعد مدینہ میں دوسرا دور شروع ہوا تھا جس میں اسلامی نظام، کلچر اور تہذیب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
آپ ﷺ نے تیرہ سال تک مکی دور میں یہ سب باتیں ٹیچر کی طرح سکھائیں۔ عمل کروایا۔ تربیت دی۔ تب جا کرآپ کو مدینہ ہجرت کر کے وہاں حکومت بنانے کا حکم ہوا اور تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓ نے ہر فیلڈ میں بہترین کار کردگی دکھائی۔جبر سے کام نہیں لیا۔بلکہ ر حمت سے ،خیر خواہی سے، ہر کام کرنے کی وجہ سمجھا کے قائل کر کے احکامات پر عمل کروایا۔دیکھئے مسٹر کریگ نبی کریم ﷺ کی حکمت عملی کو کیسے بیان کرتا ہے
“MUHAMMAD, WORKING BY PERSUATION AND MORAL FORCE RATHER THAN BY DECREE, SET OUT TO MAKE MADINA THE PERFECT CITY, , MANMADE LAWS, THE EDIFICE OF PERFECT CITY, WERE ADMINISTERED MILDLY. THEY COVERED ALL ASPECTS OF EVERY DAY LIFE, FROM DEALINGS IN THE MARKET PLACE TO THE MANAGEMENT OF HOUSE HOLDS, AND MOHAMMAD USED THEM TO TEACH RATHER THAN TO PUNISH, TO REFORM RATHER THAN TO AVENGE.”‘BILAL’ Quartet Books London Page 121 . 1997
سبق
ہمیں اسلامی نظام کی جگہ پہلے اسلامی کلچر کو دوبارہ زندہ کرنا ہو گا جو کہ کردار، اخلاق، حقوق العباد، معاملات اور انسانی اخوت پر مبنی ہو۔ ان پر عمل سے اسلامی نظام خود ہی تشکیل پا جائے گا۔جیسے کہ ملائیشیاء میں ہو رہا ہے کہ وہاں کا زکوۃ کا نظام، حکومت پر اعتماد کی وجہ سے حکومتی سرپرستی میں ترقی کر رہا ہے اور حکومت سو فیصد فطرانہ کو جمع اورتقسیم کر رہی ہے اور بیس فیصد سے زیادہ لوگ زکوۃ بھی حکومت کو دے رہے ہیں جبکہ بے اعتمادی کی وجہ سے ہمارا زکوۃ کاسسٹم تقریباً فیل ہو چکا ہے۔
اگرچہ آج کل انٹرنیشنل اثرات سے بچنا بھی محال ہے مگر پھر بھی حل نکالا جا سکتا ہے جیسے جاپانی کرتے ہیں کہ ورکنگ کلچر مغربی ہے، مگر گھر کا کلچر جاپانی ہوتا ہے۔ ہم بھی گھر میں اسلامی کلچر پریکٹس کر سکتے ہیں۔
ہمیںاندھی تقلید کو چھوڑ کر ہر فرد، عورت ،مرد کو پنگھوڑے سے قبر تک علم حاصل کرنے والی حدیث پر عمل کرنا ہوگا۔ اور قرآن کو فرسٹ ہینڈ نالج سے سیکھ کر زندگی کے اصول دریافت کرنے ہوں گے اور ان پر ملٹری ڈسپلن کی طرح ذاتی عمل کرنا ہوگا۔اسلام دراصل ڈسپلن کی زندگی کا ہی دوسرا نام ہے۔اپنی مرضی کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ کی مرضی کے مطابق ڈسپلن والی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔
ہمیں پہلے گھر سے شروع کر کے، اپنی ذاتی اورپاکستان کے نشاۃ ثانیہ کو مقصدبنانا چاہیے اور جاپان کے1853 ؁ ء کے قومی غیرت اورنشاۃ ثانیہ کے ماڈل کی سٹڈی کر کے تیز ترقی کرنی ہوگی۔ ہم پہلے ہی چالیس پچاس سال ضائع کر چکے ہیں۔ یہ بہت اہمیت کی بات ہے کہ سیاسی، مذہبی، معاشرتی لیڈرز مشترکہ جوائنٹ سٹڈی کر کے معاشرے کی تنظیم نو کریں۔ کتابیں لکھ کر عوام کی سوچیں بدلنی ہوگی۔ ان کو اپنے حقوق کی تعلیم دینی ہو گی ساتھ ہی ملک کے ان پر کیا حقوق ہیں ان کو بتانا ہوگا۔
کثیر المذاہب اور کثیر المسالک کی موجودگی میں نبی کریم ﷺ کی سنت، یعنی میثاق مدینہ کو اس کی روح کے مطابق اپنانا ہوگا۔ جس میں ملکی شہریت کو تعلق کی بنیاد بنا نا اور مذہب، نسل، زبان اور کلچر کو ذاتی پریکٹس رکھنا ہوگا۔اور وحدت افکار پیدا کرنی ہوگی۔اور یہ میثاق مدینہ کے مطابق صرف کامن مستقبل کی حفاظت کا مقصد ہی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔
؎ ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت اقبال ؒ
٭…٭…٭

سید سرفراز احمدشاہ صاحب نے اپنی کتاب ’’فقیر رنگ‘‘ میں بالکل صحیح فرمایا ہے کہ:’’میرے خیال میں اسلام مذہب سے زیادہ کلچر ہے۔‘‘ (ص ۲۸۳)
ہم آج کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب اور مغربی کلچر ہر ملک میں غالب کلچر ہو گیا ہے۔ انگریزی زبان بھی بین الاقوامی رابطے کی زبان بن گئی ہے۔ کبھی اسلامی تہذیب اور کلچر بھی صدیوں تک دنیا کی سوچوں پر حاوی رہ کر رہنمائی کرتی رہی۔‘‘
تو اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ہمیں پھر سے اسلامی کلچر کو رواج دینا ہو گا اگر ہم نے دوسروں کو متاثر کرنا ہے۔ کلچر کیا ہے؟۔
the ideas, customs, and social behaviour of a particular people or society.The arts and other manifestations of human intellectual achievement regarded collectively is called culture.
Bryant C. Mitchellایک نو مسلم نے بھی لکھا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے اسلامی تہذیب کی بنیادان اصولوں پر رکھی تھی :’’عقل میرے دین کی اصل ہے،محبت میری بنیاد ہے،شوق میرا مرکب یا سواری ہے۔‘‘ اعتماد میرا خزانہ ہے, علم میرا ہتھیار ہے، یقین میری قوت ہے، صدق میرا حامی اور سفارشی ,طاعت میری کفایت کرنے والی ہے، وغیرہ۔ یہی اصول مغربی کلچر کے ہیںجبکہ مغربی کلچر سچ، امانت، مساوات انصاف، انسان دوستی اور ہمدردی کے اصولوں پر مبنی ہے۔ سچ بولنا مغربی کلچر کا حصہ ہے جھوٹ بولنا سخت نا پسندیدہ ہے جبکہ شراب پینا نا پسندیدہ نہیں۔ مگر ہمارا آج کا کلچر تقلید، جہالت،
جاپانی ماڈل
ملکی ترقی، طاقت کے لیے قومی غیرت کا نظریہ سمجھنے کی ضرورت ہے
جیسے ہم اپنے نبی کی صرف ظاہری نقل کرتے ہیں اور اسوۂِ حسنہ جیسے اخلاق، کردار کی مضبوطی کی فکر نہیں ۔حقوق العباد اور معاملات بہت ہی خراب ہیں۔اسی طرح ہم مغرب کی بھی صرف ظاہری باتوں کی نقل کرتے ہیں۔ ہم آج تک یہ بھی معلوم نہیں کر سکے کہ مغربی ممالک کیوں ترقی یافتہ ہیں ۔آدھا ملک کھونے کے باوجود نہ ہی ہم نے قومی عزت اور غیرت کا صحیح ادراک کیا ہے کہ کیا ہونی چاہیے او بدلے لینے یا بقیہ حصے کی حفاظت اور ترقی اور طاقتور بنانے کے لیے ہمیں کیاکرنا چاہئے۔ اور کونسی قومی عادات اپنانی چاہئیں۔ ذاتی اور قومی زندگی کن اصولوں پر مبنی ہونی چاہئے۔
یہ سمجھنے کے لیے میں جاپان کی مثال دینا چاہتا ہوں کہ اس نے دو دفعہ شکست کھانے کے باوجود، صرف قومی غیرت اور مقاصد کی یک جہتی کی وجہ سے کیسے پھر سے طاقت ور بنے ہیں ۔جب8، جولائی1853 کو، جاپان کا ملک، امریکہ کے کموڈور پیری کے صرف چار بحری جہازوں کامقابلہ نہ کر سکا اوراسے ہار مان کر امریکہ کی من مانی شرائط پر صلح کر نی پڑی اور جاپان کو امریکی تجارت کے لیے کھولنا پڑا جو امریکہ کا مقصد تھا۔ مگر اس بے عزتی سے جاپان کے باشندوں میں قومی غیرت اتنی جاگی تھی کہ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ ہم نے ان کے مقابلے کی قوم بننا ہے تو سب سے پہلے مرحلے میں انہوں نے بغاوت کر کے پرانی تمام لیڈرشپ سے جان چھڑالی اور نئے رہنما چنے۔
اس کے بعد نئے لیڈروں نے باقاعدہ سٹڈی کر کے صحیح نتیجہ نکالا کہ جاپان کینیشنل سوچ، ملکی تنظیم اور ادارے ،اس کی فکری، ملکی سیاسی، معاشی،معاشرتی،تعلیمی تنظیم، بہت پرانی اور دقیانوسی ہیں جو موجود وقت کے مطابق نہیں ہے اور یہ کہ اسے بدلے بغیر وہ کبھی بھی مغرب کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ مقابلے کے لیے ہر قسم کی سوچ، فلاسفی، سیاسی،معاشی اور فوجی طاقت اور ہتھیار ہر لحاظ سے دشمن کے برابر کے ہونے چاہئیں صرف تب جذبہ کام آ سکتا ہے۔ صرف جذبے کے زور پر جنگ نہیں جیت سکتے ۔
تیسرا نتیجہ یہ نکالا کہ ہم صرف اپنے دشمن امریکہ اور مغربی ممالک سے ہی سیکھ کر ترقی کر سکتے ہیں کیونکہ سب مشرقی ممالک یا خود بھی پسماندہ ہیں اور یا ان پرمغربی طاقتوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان سے سیکھنا ممکن نہیں ہے۔
یہ سوچ کر انہوں نے امریکہ کے علاوہ انگلینڈ، فرانس، ہالینڈ سے مدد مانگی۔ اور ہر فیلڈ میں ان ممالک کے استاد جاپان آئے اور جاپانی سٹوڈنٹ وہاں گئے اور ہر شعبے میں خصوصا صنعتی تیز رفتار ترقی کو ممکن بنا سکے۔(جیسے ہم نے بھی ایوب خان کے دس سالہ دور میں کر کے دکھا دیا تھا مگر ہم قومی مقاصد کو بھول گئے۔) اور صرف تیس سال میں مغرب کے مقابلے کی معاشی، فوجی طاقتور قوم بن گئے اور ہر فیلڈ میں برابری کرنے لگے۔ 1895میںیعنی شکست کے صرف چالیس سال بعد جاپان اتنا ترقی یافتہ اور طاقتور ہو چکا تھا کہ اس نے چین کو شکست دے کر کوریا پر قبضہ کر لیا۔اور1905کی جنوری میں روس کے بحری بیڑے کو شکست دی، جس سے تمام مغربی دنیا حیران رہ گئی کہ مشرقی ممالک میں سے صرف جاپان اب ان کے مقابلے کی پاور بن گیا ہے۔
جاپان نے دوسری بار جنگ عظیم دوم میں شکست کے بعد بھی پرانا طریقہ استعمال کیا اورپنے دشمن امریکہ کی ہی مالی مدد سے پھر اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر وہ پھر سے دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت بن گیا۔ چین بھی ہم سے دو سال بعد آزاد ہو کر دنیا کی بڑی طاقت بن گیا ہے۔ اس نے بھی جاپان کی طرح تمام پرانے ملکی سسٹم بدل دئے اور مغربی طریقے اپنا لئے۔
ہم نے بھی ایوب خان کے دور میں صرف دس سال میں بے پناہ ترقی کی تھی۔جنوبی کوریا نے ہمارے ہی دو پانچ سالہ منصوبے لے کر ترقی کی بنیاد رکھی تھی اورہم سے سیکھ کر معاشی قوت بن گیا ہے۔ مگر ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم نے مغربی ممالک کی ترقی یافتہ ہونے کی اصل وجہ معلوم نہ کر سکے۔ نہ ہی سر سید احمد خان کی مثال سے سیکھا کہ علی گڑھ کی تعلیم اور تربیت پر مبنی انسان سازی پاکستان موومنٹ کی کامیابی بنی تھی۔ نہ ہی جاپان ماڈل کو چنا بلکہ امریکی مشورے پر صرف صنعتی ترقی کی طرف توجہ دی اور انسان
سازی کی طرف توجہ نہ دی۔جو کہ عورتوں مردوں کی یونیورسل تعلیم اور کردار سازی، ذاتی لیول پرسچ اور امانت سے شروع ہوتی ہے۔ اور معاشرتی لیول پر مساوات، انصاف، اخلاق، حقوق العباد، معاملات، پیشہ ورانہ تعلیم، تربیت، معاشی ترقی، صنعت کاری،ایکسپورٹ پر مبنی آمدنی وغیرہ پر ختم ہوتی ہے۔ مذہب کو ذاتی لیول پر پریکٹس کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی سوشل تنظیم نو کی طرف توجہ نہ دی اور نہ ہی مغربی ممالک کی مدد سے فوری طور پر تمام ادارے ان کے سٹینڈرد کے بنائے۔ یو،اے، ای کے عرب ممالک نے بھی1971 میں آزاد ہونے کے بعد، ملک کو ترقی دینے کے لئے،مغربی ممالک سے ہی مدد لے کر تیس سالوں میں یورپ کے برابرترقی یافتہ بن گئے ہیں۔ مگر ہمارے سیاسی اور مذہبی لیڈرز،آج تک یورپ کے برابر آنے کا شوق بھی پیدا نہیں کر سکے۔
ترقی کے یہ سب سوشل ماڈل ہمیں نبی کریم ﷺ کے اسوۂِ حسنہ میں ملتے ہیں مگر ہم نے اس سے کچھ نہیں سیکھا۔ آپ کو پتہ تھا کہ مدینہ کی تیز رفتار تجارتی اور معاشی ترقی کے لیے امن کی ضرورت تھی، تو آپ نے ظاہری طور پر کمزوری دکھا کر بھی صلح حدیبیہ یا دس سالہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ten years no war pact کیا تھا۔ اسی سے تجارت میں رکاوٹیں دور ہو ئیں اور مدینہ کے لوگ مالی اور معاشی لحاط سیکی فتوحات کا سلسلہ بھی ترقی اور غلبے کے شوق کا ہی ثمر تھا۔
اگر آج ہم بھی، جاپان اور صلح حدیبیہ کی طرح وقتی طور پر انا کی قربانی دے کر ،طاقتور بننے کے،قومی مقاصد کو اپنا لیں، اور امن اورحقیقت پسند پالیسیاں لے کر شروع ہوئے تو ہم انشاء اللہ بیس سال بعد جا کر طاقت ور بن سکیں گے۔یہ بالکل ممکن ہے مگر اس کے لیے سیاسی، مذہبی، معاشی، علمی رہنماؤں میں مقاصد کی یک جہتی ہونا ضروری ہے۔جو بد قسمتی سے نہیں ہو رہی۔ہم ذاتی مفادات کے لیے آپس میں ہی لڑ جھگڑ رہے ہیں اور ہم بھول گئے ہیں کہ یہ ملک ہم نے کتنی مشکلوں اور قربانیوں سے بنایا ہے۔ قائید اعظم اس بارے کہہ گئے ہیں :
Making of Pakistan was a difficult task; I could not have accomplished it alone. It was Rohani Faiz of Rasulullah(Saw) that Pakistan came into being.Now it is the responsibility of every Pakistani to make it an example of khilaft e Rashida.( Ziarat 1948)
’’خیالی دنیاؤں سے نکل آئیں اور اپنے دماغ ایسے پروگراموں کے لیے وقف کر دیں جن سے زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے لوگوں کے حالات بہتر ہوں صرف اسی ہی صورت میں ہم اتنے مضبوط اور طاقتور ہو سکیں گے تا کہ ان مخالف اور ضرر رسان قوتوں کا مقابلہ کر سکیں جو ہمارے خلاف کام کر رہی ہیں۔‘‘ قائد اعظم
اس ملک کو ترقی دینا ہمارا ہی کام ہے جو ہم بھول گئے ہیں۔ یہ کتاب یاد دہانی کر رہی ہے کہ اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ ورنہ قیامت کے دن جواب دہی ہوگی۔مسلمان دہشت گرد ہیں۔ اس لیے ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ انٹرنیشنل لیول پر ہماری دو پہچانیں ہیں۔ ایک پاکستانی ہونا، دوسرے مسلمان ہونا۔ ان دونوں پہچانوں کی حفاظت ہم سب کافرض ہے۔

سبق:
ہم میں سے ہر ایک مرد اور عورت کو چاہئے، کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر، اپنے ملک سے بھی وفادار ی کا حلف اٹھائیں تا کہ ہمیں یاد رہے کہ یہی ہمارے مستقبل کا ضامن ہے۔ یہی دنیا میں ہماری پہچان ہے۔ اس کے ساتھ وفادار ی ہی سے ہم اپنے تمام ہم وطنوں سے محبت کا سلوک کرسکیں گے جس سے ہماری دنیاوی زندگی جنت بن سکتی ہے، جس کے لیے فی الدنیا حسنہ، کی دعا کرنے کی خدائی نصیحت قرآن میں پہلے سے موجود ہے۔دنیا کو جنت بنانے کی خواہش اور شوق پیدا کرنا حکم ہے۔
مدینہ منوہ میں اسوۂِ حسنہ کا زیادہ حصہ معاشرتی، معاشی، کردار سازی، امن، محبت پر مبنی ہے مگر ہم اسے صرف مذہبی لحاظ سے سٹڈی کرتے ہیں جو بالکل غلط سوچ ہے۔ مثلاً آسان حل تلاش کرنے کی معاشرتی سنت کو ہی سٹڈی کرتے تو ہم ملکی سسٹم بناتے عوام کی سہولت اور آسانی کو ترجیح دیتے توسب سے پہلے بنیادی ضروریات ،پانی، بجلی گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا جبکہ ان تینوں کی ہمارے حکمرانوں کو آج بھی فکر ہی نہیں۔اسی طرح آبادی کے بڑھنے کے ساتھ باقی سہولیات جیسے سکولوں ہسپتال کی تعداد بڑھائی جاتی۔ اسوہ حسنہ کو نئے انداز سے دنیاوی ترقی کے لیے سمجھنے کے لیے سوشل سائینٹسٹ کو آگے آنا پڑے گا اور معاشرتی زندگی کی تنظیم نو کرنی ہوگی۔جیسے میں نے ان چندسنتوں کو سامنے لاکر دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ان کوہم نے زندگی میں کیسے استعمال کرنا ہے۔یہ ہم جیسے سب عام مسلمانوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ خود بھی سٹڈی کریں اور اپنی زندگیاں بہتر بنائیں۔اور علما ء کرام کا بھی ہاتھ بٹائیں۔
جیسے ہر گھر کے فرد کے عمل سے ہی گھر کی عزت بڑھتی ہے یا گھٹتی ہے، اسی طرح ہر پاکستانی کے ہر عمل سے ہی ہماری عزت بڑھے گی یا گھٹے گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو کسی کے نام کا پتہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کی پہچان کے حوالے سے سب کو جنرلائز کر کے اچھا یا برا کہتے ہیں ۔جیسے ہم کہتے ہیں کہ گورے ایسے کرتے ہیں، جاپانی بڑے محنتی ہیں وغیرہ۔ اسی طرح باہر کے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستانی ایسے ہیں، ویسے ہیں۔
جاپان کی ترقی کے راز میں پہلے نمبر پر ان کے سکول سسٹم ہیں جو کہ اخلاقحقوق العباد، آداب کی تربیت کرتے ہیں۔ اگر چہ انگریز خود ترقی یافتہ ہیں مگر پھر بھی ایک انگریز یہ دیکھنے کے لیے کہ جاپان کی ترقی کا راز کیا ہے، جاپان گیا اور اس کی تحقیق کے مطابق جاپان کے سکول سسٹم کی دس خوبیوں ہیں جنہوں نے اسے دنیا کی دوسری قوموں سے عقل مندی، صحت مندی، خوش اخلاقی میں مختلف اور یکتا بنا دیا ہے۔ ہمیں بھی اس سٹڈی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔.

پہلی خوب: زندگی کے اصول اور آداب پہلے سکھائے جائیں۔ علم بعد میں سکھایا جائے۔Manners before knowledge.
جاپانیوں کا خیال ہے کہ سکول کے پہلے تین سال بہترین اخلاق اور آداب زندگی اور کردار سازی کے لیے ہونے چاہئیں اور طالب علم کی علم سیکھنے کی صلاحیت کا اندازہ لگانے یا سکھانا شروع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بچوں کو مساوات، دوسرے انسانوں کی عزت کرنا، اور دوسری مخلوقات جیسے جانور، پرندوں ،نباتات کے ساتھ کیسے نرمی کا سلو ک کرنا ہے سکھانے کے ساتھ ہی انہیں رحم دل، ہمدرد،بننا، انصاف کرنا، اپنے آپ پر کنٹرول کرنا، ہمت، محنت، وغیرہ سکھایا جاتا ہے۔جاپانی طالب کا چوتھی کلاس یعنی دس سال کی عمر تک کوئی باقاعدہ امتحان نہیں ہوتا۔ بلکہ ہلکے پھلکے ٹسٹ ہوتے ہیں۔
دوسری خوبی؛صفائی پسندی؛ یہ خود صفائی کرنے سے سکھایا جاتا ہے۔
یہ عادت سکھانا سکول کی تربیت کا اہم حصہ ہے۔ اس لیے سکول میں صفائی والا کوئی سٹاف نہیں رکھا جاتا بلکہ بچے ہی کلاس روم ،کیفیٹیریا، باتھ روم، سکول سب کی صفائی خود کرتے ہیں اور ان کی ٹیمیں بنا دی جاتی ہیں جو باری باری ہر جگہ صاف کرتی ہیں اور سال کے دوران، جگہوں کی باریاں بدلتی رہتی ہیں۔ اس سسٹم سے مقصد ٹیم میں کام کرنے کی عادت، ٹیم لیڈرشپ، ایک دوسرے کی مدد کرنا،اپنے وقت اور محنت سے جھاڑو دینا، پوچا مارنا، گرد جھاڑنا وغیرہ کام کرنے سے صفائی رکھنے کی عادت ڈالی جاتی ہے ،جس سے صفائی کے کام کرنے والے کی عزت کرنی آ جاتی ہے اور کوئی کام چھوٹا یا بڑا، اچھا یا برانہیں لگتا۔یعنی کام میں کلاس سسٹم نہیں آتا۔اپنے کام کی بھی عزت اودوسروں کے کام کی بھی عزت سکھائی جاتی ہے۔
اگر ہم نے بھی اس حدیث،’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘، پر عمل کی عادت ڈلوانی ہے تو سکولوں سے ہی پریکٹیکل تربت دینی ہوگی۔
تیسری خوبی۔ کھانے کے آداب سکھانے اور ٹیچر اور بچوں میں محبت عزت پیدا کرنے کے لیے اکٹھا لنچ کرنا۔
سکول میں ہر ایک کو سٹینڈرڈ لنچ ملتا ہے۔ پرائمری اور جونیئر ہائی سکول میں کھانے کا مینو سپیشلسٹ تیار کرتے ہیں اور بچے استاد کے ساتھ اکٹھے کھاتے ہیں ۔جس سے استاد اور بچوں میں اچھے اور مثبت تعلقات بنتے ہیں۔ اور استاد ان کو دوست بن کر ان سے سوشل ہو کر کھانے کے دوران زندگی گزارنے کے گر بھی سکھاتا ہے۔
چوتھی خوب شام کو بھی ہوم ورک، اضافی سٹڈی کے لیے ورکشاپ ہوتی ہے۔
آٹھ گھنٹے سکول گزارنے کے بعد اچھے جونیئر ہائی سکول میں داخلے کئے لیے شام کو پریپریٹری ورک شاپ میں جاتے ہیں جیسے ہمارے یہاں ٹیوشن ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے کوئی بھی بچہ فیل نہیں ہوتا اور کلاس دہراتا نہیں ہے۔ نہ زندگی کا سال ضائع ہوتا ہے

پانچویں خوبی: چھٹیوں میں اور ویک انڈز میں بھی یہ سلیبس کی کتابوں کے علاوہ ادب، آرٹ، پینٹنگ،شاعری، جاپانی زبان کی خوش خطی وغیرہ کی بھی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ نظمیں، پڑھتے ہیں۔ نظموں کے ذریعے گہرے جذبات، زندگی کے اسباق سکھائے جاتے ہیں اور اپنے کلچر، آرٹ، ادب کی عزت کرنا اور رسوم پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہے .
چھٹی خوبی: سکول یونیفارم سے سوشل یک جہتی سکھائی جاتی ہے

ہر ایک لڑکے کو فوجی طرز اور لڑکیوں کو ملاحوں کی طرز کی یونیفارم پہننی ہوتی ہے تاکہ سوشل برابری پیدا ہو ۔
ساتویںخوبکلاس کے ماحول کی وجہ سے حاضری نناوے فیصد ہوتی ہے۔ وقتپر آتے ہیں اور پوری توجہ سے لیکچر سنتے ہیں اور وہ پوری توجہ سے ہر بات سیکھتے ہیں۔
آٹھویں خوبی: اپنی اپنی پسند کے کالج میں داخلہ لینے کا رجحان % 76 فی صد سٹوڈنٹ بعد میں کالج میں پڑھائی جاری رکھتے ہیں۔ اپنی پسند کے کالج میں داخلے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ مقابلہ بڑا سخت ہوتا ہے اورداخلے کے امتحان سے ہی ان کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے۔. بچے اسے جہنم کا امتحان کہتے ہیں۔
نویں خوبی۔ سال موسم بہار سے شروع ہوتا ہے جبکہ مغربی ممالک میں ستمبر میں علمی سال شروع ہوتا ہے ۔سال ساڑھے تین مہینے کے تین سمسٹر میں تقسیم ہوتا ہے۔ گرمیوں میں چھ ہفتے اور سردیوں میں دو ہفتے کی چھٹیاں ہوتی ہیں
دسویں خوبی۔ کالج کے سال ہی زندگی میں بہترین سال یا چھٹیوں کے سال گنے جاتے ہیں اور انجوائے کئے جاتے ہیں
کیا ہم نے کبھی بھی دوسری ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز جاننے کی کوشش کی ہے؟
میری انفارمیشن کے مطابق، جواب نہیں میں ہے۔ ہندوستان میں ہمارے بزرگوں میں صرف سر سید احمد خاں نے ہی نے انگریزوں کی ترقی کا راز جاننے کی کوشش کی تھی جس کے لیے وہ اپنی ساری جائیداد ا بیچ کر اس پیسے سے انگلینڈ گئے تھے وہاں کے سکول سسٹم کالج یونیورسٹیوں کا سسٹم دیکھا اور بالکل صحیح تشخیص بھی کی تھی کہ پوری قوم کی اخلاقی تربیت، انسان سازی صرف سکول اور کالج کر رہے تھے، اور ساتھ ہی پروفیشنل تعلیم بھی دے رہے تھے۔اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے کہ سب ایک ہی جیسی تہذیبی سوچ رکھتے ہیں۔ اس لیے واپس آکر پھر علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی اور اس کا پرنسپل اور چند استاد بھی انگریز ہی رکھے تا کہ کالج کی تعلیم اور تربیت کا سارا کلچر انگلینڈ والا ہی ہو۔ تعمیر چندہ مانگ کر کی گئی تھی، حتی کہ طوائفوں تک سے بھیک مانگی۔ کسی نے اعتراض کیا تو کہنے لگے کہ ان کے پیسوں سے باتھ روم بنا لیں گے۔وہاں سے ہی وہ پڑھے لکھے نوجوان نکلے جنہوں نے
پاکستان بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں بھیکیڈٹ کالج بنے تو ان کے پرنسپل بھی انگریز ہی رکھے گئے تھے جنہوں نے انگلش
پبلک سکول کی طرز پر کالج بنائے تھے۔
تمام مذہبی حلقوں سے سر سید احمد خان کی سخت مخالفت کی گئی تھی۔کیونکہ مذہبی تعصب کی وجہ سے ہم انگریزوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔نہ ہی میں نے کہیں پڑھا ہے کہ مذہبی حلقوں نے کبھی کسی بھی مسلمان ملک میں یورپ کی ترقی کے راز کی سٹڈی کی ہے۔ اگر کی ہے تو پھرصحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ یہ سوشیالوجی کا مضمون ہے اور سوشیالوجی کی ہمیں تعلیم ہی نہیں دی جاتی۔ سر سید نے بھی اسے سوشل مسئلہ سمجھ کر سٹڈی کیا تھا اور صحیح تشخیص کی تھی کہ انسان سازی ہی ترقی کی بنیاد ہے۔ مگر ہم انسان سازی کو ہمیشہ مذہبی مسئلہ سمجھتے رہے ہیں، جبکہ یہ سوشل مسئلہ ہے ۔
پاکستان بننے کے بعد بھی ملک کو ترقی دینے کی پلاننگ کے لیے ہمیں انگریزوں کی مدد کی ضرورت تھی مگر ہم نے ان سے مدد لینے کی بجائے خود پہیہ ایجاد کرنے کو ترجیح دی۔ جبکہ جاپانیوں نے امریکنوں سے شکست کے بعد، انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اپنے دشمنوں سے ہی مدد کی درخواست کی تھی اور صرف تیس سال میں ترقی یافتہ بن گئے تھے۔ گلف کے عرب بدوؤں میں اتنی عقل تھی کہ ان کو ترقی صرف مغربی ممالک دے سکتے ہیں، اور آج دیکھیں کہ گلف کے تمام ممالک ہر شعبے میں ترقی یافتہ ہیں ۔یہی تایئوان، ساؤتھ کوریا، چین، سنگاپور نے کیا۔ترکی نے بھی یہی کیا ہے۔اب بھی اگر ہم تعصبات، اکڑ، تکبر، جھوٹی ان سے نجات پا لیں تو مغربی ممالک کی مدد سے ان کے تمام سسٹم ایک ہی دفعہ اپنا کردس پندہ سالوں میں یہ کام کر سکتے ہیں۔ ہمارے مذہبی تعصب کی سوچ کی ایک بہترین مثال مجھے انٹرنیت سے، نائیجیریا کے مسلمان کی رائے ملی ہے۔
WE MUSLIMS ARE NOT READY TO LEARN FROM OTHERS BECAUSE OF RELIGIOUS BIAS. AND ALSO FEEL THAT, WE HAVE ALL THE KNOWLEDGE SO WE DO NOT NEED TO LEARN FROM OTHERS
سبق
بچوں کی تربیت بہت مشکل کام ہے۔ بچے ہی دراصل ہر گھر اور ملک کی دولت ہوتے ہیں۔ اگر بچے لائق اور کامیاب نکلیں تو والدین کا بڑھاپا پر سکون گزرتا ہے۔ ایک انڈین فلم کا ڈائیلاگ ہے۔ دولت مت بناؤ بلکہ بچوں کی تعلیم اور تربیت پر دولت خرچ کرو .۔بڑے ہو کر خود کما لیں گے۔ اگر نالائق نکلا تو دولت برباد کر دے گا۔
مغربی ممالک، جاپان کے ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ سکول کو ہی نیشنل کردار کی تربیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اور مقاصد بنا کر اس کے مطابق تعلیم اور تربیت کرتے ہیں ۔جس سے پھر وہ کلچر بن جاتا ہے ۔۔ صرف نمونے کے طور پر کتاب کے آخر ی باب میں آداب پر میں نے اسلامی اکلچر اور تہذیب کی اخلاقیات سکھانے کے طریقہ کا نمونہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔سکولوں کو چاہیے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے ماڈل کاپی کر لیں۔یہ سب انسانی فطرت پر مبنی ماڈل ہیں، نہ کہ مذہب
پر۔

٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *