پاکستان کے ہر مرد اور عورت کی نشاة ثانیہ، کردار سازی پرا جیکٹ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ہے ملت کے مقدر کا ستارا
The Renaissance of ‘Individual is the actual Renaissance of society
قرآن فہمی کی فلاسفی کا آئیڈیا اور طریقہ کار۔
ہم نے صدیوں سے قرآن، کی تعلیم کو پس اپشت ڈل دیا ہے جس کی شکایت نبی کریم ﷺ کریں گے
رسول کہیں گے اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دینے کے قابل قرار دیا ہے۔سورہ فرقان ۵۲، آیت ۰۳
نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں وہ بہترین لوگ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں
آئیے ہم سب پھر سے نبی کریم ﷺ کی ہدایت پر عمل کر کے قرآن کو زندگی کتاب سمجھ کرور روزانہ پڑھیں سیکھیں اور اور اس پرعمل کریں
دنیا میں ا للہ تعالی کی حکمرانی اور غلبہ قائم کرنے کا حکم ہے جس کے اس نے دو حکم دئے ہیں
ایک یہ کہ طاقت کے تمام ذرائع حاصل کر کے اتنے طاقتور بنو کہ دشمنوں کے دل میں ڈر اور خوف پڑا رہے
9-60. And make ready against them all you can of power, including steeds of war (tanks, planes, missile, artillary) to threaten the enemy of Allah and your enemy, may not know
دوسرا یہ کہ اس دنیا کو بہترین سسٹم دے کر گڈ گورننس سے جنت نظیر بنا دو2-201. And of them there are some who say: “Our Lord! Give us in this world that whichis good and in the Hereafter that which is good, and save us from the torment of the Fire.
تعارف
۹۴۔۴۱۔ بدو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں تو کہہ دیں کہ تم مسلمان ہوئے ہو، ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔
کیونکہ ہم بھی پیدائشی مسلمان ہیں۔ بدوں کی طرح مومن بننے کا سفر شروع کرنے کی ضرورت ہے
اگر ہم نے پیدائشی مسلمان سے پکے ایمان والے بننا ہے تو ہمیں بھی مکی دور سے شروع کرنا ہوگا تا کہ پہلے ہمارا اللہ سبحانہ تعالی پر یقین دل سے اور دل میں پختہ ہو جائے۔ اس لئے میں نے پہلے آخری دو پارے سٹڈی کے لئے چنے ہیں کہ یہی سورتیں مکہ میں نازل ہوئی تھیں۔ ایمان پکا کرنے میں ہمیں دو چار سال بھی لگ جائیں تو تب بھی مضائقہ نہیں ۔ ن وقت کے ساتھ چیزیں بھولتا رہتا ہے اس لئے ہر ایک کے ایمان کی حالت بدلتی رہتی ہے۔اس میں بھی وقت کے ساتھ کمی آ جاتی ہے تو ہمیں بھی ایمان کی لگاتار تجدید کے لئے کلام پاک پڑھتے رہنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں مکی دور کی سورتوں کو لگاتار ترجمے کے ساتھ تلاوت اور غور و فکر سے ہی ایمان میں کمی کا حل مل سکتا ہے،اللہ کا پیغام سب تک پہنچانے سے پہلے اس کو خود سمجھنے کوآسان بنانے کی کوشش ہے ۔ اس لئے میں نے جو خود کوشش کی ہے وہ شیئر کر رہا ہوں۔ میرے خیال میں قرآن کی تب تک سمجھ نہیں آئے گی جب تک اسے یہ سمجھ کر نہ پڑھا جائے کہ ؛۔ اللہ خود ہم سے ہی ذاتی طور پر مخاطب ہو کر نصیحت کر رہا ہے اور جب تک اسے زندگی کی کتاب ، اور سوشیالوجی کی ٹیکسٹ بک سمجھ کر خود نوٹس بنا کر، اس سے زندگی گزارنے کے اصول نکال کر نہ سیکھیں جائیں میرے اندازے کے مطابق مغربی ممالک نے اپنی نشاة ثانیہ کی بنیاد مکمل طور پر قرآنی اصولوں اور اسوہ حسنہ کے سوشل اصولوںپر رکھی تھی۔ اس لئے وہ ممالک در اصل اپلائیڈ اسلام پر عمل کر رہے ہیں ۔ ان کےے سسٹم کو تجزیہ کر کے سٹڈی کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہم بھی ان سے سیکھ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے رسول کی بھی نصیحت ہے کہ حکمت اور عقل مندی کی باتیں مومن کا گم شدہ خزانہ ہے اسے جہاں سے بھی ملے اسے لے لینا اس کا حق ہے۔ ہمیں کوئی بھی اور کسی قسم کا تعصب کہیں سے اور کسی سے سیکھنے میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *