اصحاب الفیل

اصحاب الفیل

(سائنسی جائزہ)

گروپ کیپٹن(ر)امتیا ز علی

اوریجنل ریسرچ سنٹر
-10 علی ٹاؤن، سٹریٹ 3-اڈیالہ روڈ ۔راولپنڈی ۔پاکستان

-5نومبر 2012
-19 ذوالحج 1433؁ ہجری

وما ارسلنٰک الا رحمۃ ا للعالمین

اور ہم نے آسان کر دیا قرآن سمجھنے کو، پھر ہے کوئی سوچنے والا؟ سورۃقمر۔۵۴؛آیت،۴۱
کیا یہ قرآن میں غور نہیںکرتے یا ان کے دلوں میںقفل پڑے ہیں۔۔ سور۰ محمد؛۲۴
وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے اور جس کو دانائی ملی اس کو بڑی نعمت مل۔اور نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔ بقرہ ۲۶۹
کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوںبرابر ہو سکتے ہیں اورنصیحت تو وہی پکرتے ہیں جو عقل مند ہیں۔ زمر۔۹
ہدایت نبوی ﷺ۔حجۃ ا لوداع ” سنو: جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتا دیںجو یہاں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو۔ـــ”
پیغمبر اعظم و آخر۔ڈاکٹر نصیر احمد ناصر۔ص ۶۴۸

اللھم ارنا حقائق کل الاشیاء کما ھی
اے اللہ ہمیں تمام اشیاء کی اصلی حقیقت سے آگاہ فرما
اس حدیث پاک کا ایک ایک لفظ جواہرات سے زیادہ قیمتی ہے، خصوصا الفاظ۔ ” ہمیں”، “تمام “، اور” اصلی”، خاص توجہ کے قابل ہیں۔ رسول پاک ﷺ اشیاء کا علم خود اپنے لئے ہی نہیں بلکہ امت کے ہر فرد کے لئے چاہتے تھے۔ سبحان اللہ، کیا کرم ہے۔ تمام سے مقصود یہ ہے کہ کوئی بھی کائینات میں ایسی باقی نہ رہ جائے جس کا علم کسی مسلمان کو نہ ہو۔ اصلی سے مقصد یہ ہے کہ حقیقت معلوم ہونے میں بال برابر شبہ یا کسر نہ رہے۔ علاوہ ازیں حجور اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ؛۔

تفکر ساعہ خیرمن عبادۃ ستین سنتہ
یعنی ایک گھڑی کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
ان آیات اور احادیث کو پڑھنے کے بعد یقینا ہر وہ مسلمان جس کے دل میں اللہ تعالی اور رسول کریمﷺ کی ذرا سی بھی عزت و محبت ہے۔ شرم سے اپنا سر نیچا کر لے گا اور یہ سوال کرنے کی ہرگز جرات نہین کرے گا کہ ہماے قومی زوال اور تباہی کی کیا وجوہات ہیں۔
سلسلہ توحیدیہ۔گوجرانوالہ۔

Category:

Description

ایک پاکستانی ہوا باز کا خواب

ہماری بہن سیدہ حمیرا مودودی نے اپنے جلیل القدر والدین کی یاد میں اپنی چند یاداشتیں قلمبند کی ہیں۔ ان یادوں میں انہوں نے ایک واقعہ کا حوالہ دیا ہے ۔ جو ان دنوں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سرکاری اداروںکو دیکھ کر بہت اہم لگتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو معلوم ہے کہ اسرائیل دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے کو اپنی کھوئی ہوئی آبائی سر زمین سمجھتا ہے اور اس کی یادہانی کے لئے اس نے اپنی پارلیمنٹ کے دروازے پر اسے لکھ بھی دیا ہے۔ سیدہ لکھتی ہیں کہ 1978؁ء کے دوران میں تعطیلات کے لئے جدہ سے لاہور آئی ہوئی تھی۔
کہ ایک روز مغرب کے بعد پاکستان ائر فورس کے دو سکواڈرن لیڈر سرگودھا سے ابا جان (مولانا مودودیؒ) سے ملنے آئے۔ ان میں سے ایک صاحب جو دیکھنے میں بہت مضطرب نظر آ رہے تھے کہنے لگے کہ مولانا میں نے ایک خواب دیکھا اور جب سے دیکھا ہے میں اس قدر بے چین اور بے کل ہوں کہ نہ نیند آتی ہے نہ بھوک لگتی ہے اور نہ کوئی کام دلجمعی کے ساتھ کر سکتا ہوں۔وہ خواب یہ ہے؛۔
” کہ میں مدینے گیا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ مدینہ تو پورے کا پورا بم باری سے تباہ ہو چکا ہے۔
نہ مسجد نبوی ؐ ہے نہ گنبد خضرٰی ہے نہ کوئی گھر اور عمارت سلامت ہے اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔
جب اس مقام پر آتا ہوں جہاں روضہ مبارک ہے تو دیکھتا ہوں ،
کہ آنحضرت ﷺ کچی قبر کے باہر کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ۔
کہیں قریب سے ہی بہت سے لوگوں کی باتیں کرنے کی آواز آتی ہے۔
میں اس طرف دیکھتا ہوں تو ایک تہہ خانے میں سیڑھیاںاترتی دکھائی دیتی ہیں۔
میں فوراً نیچے تہہ خانے میں چلا جاتا ہوں ابھی آدھی سیڑھیاں ہی اترا ہوں تو دیکھتا ہوں،
کہ چھ سات یہودی صرف جانگئے پہنے بڑے بڑے چھرے ہاتھوں میں لئے،
انسانی لاشوں کے ٹکڑے کر کے ڈھیر لگا رہے ہیں،
اور دیواروں پر بھی بے شمار انسانی لاشیں لٹکی ہوئی ہیں اہل مدینہ کی۔
میں یہ منظر دیکھ کر الٹے پائوں باہر کی طرف بھاگتا ہوں اور پہنچ کر دیکھتا ہوں،
کہ؛۔ آنحضرت ﷺ التحیات پڑھ کر سلام پھیر رہے ہیں۔
سلام پھیر کر میری طرف دیکھ کر فرماتے ہیں ’’ فکر نہ کرو یہ گوشت بکے گا نہیں‘‘ ۔
اور فورا ہی میری آنکھ کھل گئی۔ میں بہت ہی بے کل ہوں اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟”
اگر چہ ابا جان خوابوں کی دنیا سے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ حقائق کی دنیا اور منطقی اصولوں کو ایمان کے تابع لا کر زندگی بسر کرنے کے داعی تھے لیکن یہ خواب سن کر حیران ہوتے جاتے تھے کہ ایسے خواب تو ولیوں کو بھی نصیب نہیں اس کلین شیو کو یہ سعادت کہاں سے ملی۔ گویا مستقبل میں ایسے نوجوان ہی ملت کی قیادت کریں گے اور یہی لوگ حرمین کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائیں گے۔ ابا جان نے ان نوجوان ہوابازوں سے کہا ’’رسول پاک ؐ کی حدیث مبارکہ جسے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے اس میں فرمایا ہے کہ ’’جب جنگوں پر جنگیں ہوں گی تو اللہ غیر عرب اقوام میں سے ایک قوم کو اٹھا کر کھڑا کرے گا وہ شہسواری میں عربوں سے بہتر اور اسلحے میں ان سے بر تر ہوں گے ان کے ذریعہ اللہ اپنے دین کی مدد کرے گا‘‘ ۔ پھر کہا کہ یہ خواب اس حدیث کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے جو حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ ’’(آخر زمانے میں) ایسے لوگ آئیں گے جو پرندوں کی طرح تیز رفتار اور درندوں کی طرح ظالم ہوں گے۔ ‘‘ یعنی آج ہمیں اس کا یہی مطلب سمجھ آتا ہے کہ جنگی جہازوں پر سوار ہو کر اپنے ملک سے اڑیں گے اور بڑی بے رحمی سے اپنے محافظوں کے بچوں اور بوڑھوں ، عورتوں اور مخلوق خدا کو تباہ و برباد کر دیں گے۔ ان کے ہاتھوں نہ جان و مال محفوظ ہوں گے نہ عزت و آبرو۔ تیسری حدیث یہ ہے کہ حضور ؐ نے ابو ذر غفاری ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا اے ابو ذر ؓ جس وقت مدینے میں اتنی بھوک ہو گی کہ تو اپنے بستر سے کھڑا ہو کر مسجد تک نہ جا سکے گا اس وقت تیرا کیا حال ہو گا۔ جب مدینے میں اتنا قتل ہو گا کہ خون چکنے پہاڑ (الحجاز الزیت) کو ڈھانپ لے گا۔ پھر ابا جان نے حدیث دجال سنا کر کہا کہ آپ کا خواب اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ آئندہ صلیب و ہلال کے معرکوں میں ائر فورس فیصلہ کن کردار ادا کرے گی اسی لئے اللہ نے یہ خواب ایک جنگی پائلٹ کو دکھایا ۔ حرمین الشریفین کی حفاظت اب آپ کی ذمہ داری ہے ایک حدیث کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے بعد انہی علاقوں سے فوج ان کی مدد کو پہنچے گی جو غیر عرب ہوں گے اور اسلحہ اور فن سپہ گری میں ان سے بہتر ہوں گے۔
یہ تعبیر سننے کے بعد جب وہ پائلٹ پر سکون ہو کر جانے لگے تو ابا جان نے بیماری اور نقاہت کے باوجود کھڑے ہو کر ان سے الوداعی مصافحہ کیا اور اصرار کر کے انہیں اپنے کمرے کے دروازے تک رخصت کرنے آئے اور کہا کہ ’’آپ نے خواب میں نبی کریم ؐ کی زیارت کی ہے اس لئے آپ بھی تکریم کے لائق ہیں۔ اب آپ اپنی بے کلی اور بے چینی جو مجھے دے کر جا رہے ہیں نہ جانے میں کب تک اس کیفیت میں مبتلا رہوں گا۔ اس روز جب ابا جان کھانے پر اندرون خانہ آئے تو ان کے چہرے پر خلاف معمول شدید اضطراب تھا۔ انہوں نے یہ خواب اور اپنے تاثرات بیان کئئے تو ہم دہشت زدہ ہو کر رہ گئے ‘‘۔
آج کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں کچھ مزید عرض کرنے اور اس تحریر میں اضافہ کی ضرورت نہیں ۔ا قبال کا ایک مصرعہ بے ساختہ یاد آتا ہے کہ:۔ میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
پاکستان کسی مقصد کے لئے وجود میں آیا تھا۔ اسے اس کے بنیادی مقصد سے بھٹکانے والے کامیاب نہیں ہوں گے اور میر عرب کو یہیں سے ٹھنڈی ہوا آئے گی۔ انشاء اللہ تعالی عبدالقادر حسن کالم : غیر سیاسی باتیں بشکریہ روزنامہ جنگ راولپنڈی
تاریخ: 2اکتوبر 2005ٗٔ؁ء 27شعبان 1426؁ھ

مسجد نبوی کی تسویرس

انتساب

پاکستان ائیر فورس کے تمام ہوابازوں کے نام جو ہمہ وقت اس
دن کی تیاری اور ٹریننگ میں مصروف ہیں اوراس وقت کے
انتظار میں ہی جب پروردگار وقت مقررہ پران خوش قسمت ہو
ابازوں کوحرمین شریفین کی حفاظت کی ذمہ داری سونپے گا۔
اور
انپے پائلٹ بیٹے سکواڈرن لیڈر(ر)عامر امتیازکے نام
جوپاکستان ائرفورس کے ہوابازوںمیں2006-1991 تک شامل رہا ہے۔

تعارف
یہ کتاب 1979میں لکھنی شروع کی تھی اور 1982میں مکمل ہوئی۔ جب میں بطور ائیر اتاشی دہلی گیاتو ہمدرد اسلامی ریسرچ انسٹیٹوٹ ،تغلق آباد، دہلی کو نظر ثانی کے لئے دی۔ انہوں نے پندرہ روز کے بعد مجھے بلایا تووہاں کی تمام فیکلٹی یا شعبے جیسے تفسیر، حدیث ، فقہ ، منطق، وغیرہ کے سرسراہان موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے مختلف سوال پوچھے ۔ آخر میں ڈائریکٹر سید آفاق علی صاحب کہنے لگے کہ آپ کی اس کتاب نے ہمیں کلام پاک میں ریسرچ کرنے کے لئے نئے طریقے اپنانے پر قائل کر لیا ہے۔ ورنہ آج تک ہم روایتی انداز سے ہی ریسرچ کر رہے تھے۔ میری اجازت سے انہوں نے کتاب کی فوٹو کاپیاں بنا کر اپنی لائبریری میں رکھ لیں۔
1986میں پاکستان واپسی کے بعد میں نے اسلام آباد میں انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ تفسیر سے رابطہ کر کے ان کو کاپی دی اور نظر ثانی کے ساتھ ساتھ اپنی رائے لکھنے کی بھی درخواست کی جو میں بطور اتھارٹی ساتھ چھاپ سکوں ۔ مگر ایک سال کی کوشش کے باوجود نہ ہی رائے ملی نہ ہی کاپی واپس مل سکی۔ اس سے آپ علمی رویوں کا موازنہ کرلیں کہ ہم لوگ علم دوست یقینانہیں بنتے۔1991میں ائیر فورس چھوڑنے کے بعد سول کمپنیوں میں کام کی مصروفیات ایسی تھیں کہ علمی کام ممکن نہ تھا۔ 2005میں سروس چھوڑ کر پھر علمی کام کی طرف توجہ دی تو کتاب پر نظر ثانی کی۔
روس کی افغانستان میں ناکامی اور کمیونزم کے سسٹم کی شکست نے انٹرنیشنل فضا بالکل ہی بدل دی ہے۔ مغرب نے اب اسلام کو تہذیبوں کے تصادم کے نام پر اپنا مد مقابل قرار دیا ہے۔ اور قدرتی طور پر تمام مسلم ممالک پر غلبہ حاصل کرنا اور اسلام کا راستہ روکنا مقصد بنا لیا ہے۔ جیسے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد کمیونزم کا راستہ روکنے کو مقصد بنایا گیا تھا۔ تب مد مقابل دو معاشی نظام تھے اب مقابلہ مذاہب میں ہے یعنی اسلام کے ماننے والوں اور باقی تمام مذاہب والوں میں بن گیا ہے ۔ اور اسی بنا پر ہی صف بندی یا Alignmentہو رہی ہے۔ جبکہ یہودیوں کی اسلام دشمنی اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بھی چل رہا ہے ۔9/11 کے خود ساختہ ڈرامے کے بعد امریکہ اور مغربی دنیا نے دنیائے اسلام پر یلغار کر دی ہے۔ اور اب نوبت اس حد تک آپہنچی ہے کہ اگست 2007؁ میں امریکی صدارتی امیدوار نے مکہ اور مدینہ پر حملہ کرنے کو جائز قرار دینے کی تجویز دی ہے ۔ اس تناظر میں 1978کا “پائلٹ کا خواب” مستقبل میں حقیقت کا روپ دھارتا نظر آتا ہے۔ اس لئے پاکستان ائیر فورس کے پائلٹوں کو حضور اکرمؐ ﷺکی احادیث کی روشنی میں پہلے دن سے ہی یہ نیت کرنی چاہیے اور اس جذبہ کے ساتھ پوری توجہ، انہماک سے ٹرینگ کرنی چاہیے کہ اگر مکہ مدینہ سے بلاوا آتا ہے تو وہ اس ٹاسک کے اہل ہوں۔ اور حضور اکرم ﷺ ؐ کو واقعی پاکستان سے ٹھنڈی ہوا آئے اور ہم سب اس بشارت پر پورا اتریں۔ آمین
ہندوؤں کے پاکستانی مسلمانوں کے بارے کیا ارادے ہیں ،ان کی جھلک میں نے چند واقعات کے ذریعے آگے دی ہے۔یہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔اور ہمیں اپنا اور اپنے بچوں کا مسقبل محفوظ کرنے کی فکر کرنی چاہئے ، جو کہ ہم نہیں کر رہے۔ بلکہ ہم پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرتے جا رہے ہیں۔ابھی بھی سنبھلنے کا وقت ہے تاکہ ہم ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر قربان کرنا سیکھ لیں۔
میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں بھی, 1991-1961 تک اور میرا بیٹا2006-1991 تک ،پی اے ایف کے پائلٹوں کا حصہ رہے ہیں، اور ہم دونوں ، ان خوش نصیب پائلٹوں کو جو اس بشارت کا حصہ بننے کے لئے چنے جائیں گے، کے لئے دعا گو ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین
ہر کام کے ہونے کا ایک وقت مقرر ہے ۔ یہ تبھی ہوتا ہے ۔ تبھی کسی کو خیال آتا ہے ۔ جب ہی کوئی اسے شروع کرتا ہے یا پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے ،جب مشیت الہٰی ہوتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہنا چاہیے یعنی اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن اور ساتھ ہی رہنمائی بھی لینا اَھْدِنَاالصِرَاطَ المُسْتَقِیْم ۔ اس رہنمائی سے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اسی سے صحیح سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اور اسی سے کام پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ جس سے دوسرے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ یہی حال اس تحقیق کا ہوا ہے.کہ 2012؁ء میں،الحمد للہ رب ا لعالمین ، اب یہ کام آ کرمکمل ہوا ہے ۔ وا ما توفیقی الا با للہ
اللہ تعالی سے التجا ہے کہ وہ میرے اس چھوٹ سے حقیر کام کو قبول فرما لے اور میری بخشش کا ذریعہ بنا دے۔آمین
گروپ کیپٹن (ر) امتیاز علی
10 علی ٹائون، سٹریٹ3 اڈیالہ روڈ۔راولپنڈی۔ جمعۃ المبارک ۔25رجب ،1428؁ھ10اگست 2007؁ء اپڈ یٹ . ۔ 25 ذوا لحج 1433؁ء ہجری 11نومبر 2012؁
0345-5366081 / 051-5571398 Email: ch.imtiazali@gmail.com

ء

ہندووؤں کے ہمارے بارے ارادے
اللہ تعالی نے ہمیں ہندوؤں سے بچا لیا تھا مگر کیا ہم بچنا نہیں چاہتے؟
1۔ میں 1982؁ء سے 1986؁ ء تک دہلی میں ائیر اتاشی متعین رہا تھا۔ وہاں کے چند تجربات نوجوان پائلٹوں کی نسل کے ساتھ شئیر کرنے ضروری ہیں تا کہ ان کو معلوم ہو کہ ائیر فورس کی ملازمت صرف حصول رزق کا ذریعہ نہیں ہے یا ایک پیشہ نہیں ہے، بلکہ ان کے کندھوں پر ہر پاکستانی مرد، عورت، بچے کی فضائی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہے۔ ہندئوؤں کے پاکستانی مسلمانوں کے بارے کیا خیالات اور ارادے ہیں، ان سے ہر پاکستانی کو عموماً اور مسلح افواج کے ہر فرد کو خصوصاً معلوم ہونا چاہیے۔ تبھی وہ جذبہ اور مقصد پر یقین حاصل ہو گا جو کہ فتح کا ضامن ہوا کرتا ہے اور تبھی غیبی امداد ملتی ہے۔
2۔ مولانا آزاد نے ایک دفعہ قائد اعظم سے کہا کہ”جناح ۔ جتنے مسلمان اپنے ساتھ لے جا رہے ہو اس سے زیادہ ہندوستان میں پیچھے چھوڑے جا رہے ہو”۔ اس پر اس مرد مومن اور اللہ کے ولی نے فورا جواب دیا ،میں سب مسلمانوں کو نہیں بچا سکتا۔ جتنوں کو بچا سکتا ہوں بچالوں گا۔
I cannot save them all. I will save as many as I can.
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہندئوں کے استحصال سے بچا لیا تھا۔ آج جو ترقی دیکھتے ہیں وہ پاکستان کی مرہون منت ہے۔ بجائے ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے اورسجدہ میں گرنے، احسان مند ہونے اور پاکستان کی مضبوطی و استحکام کے لئے کوشش کرنے کے، ہم پر ہر تکلیف یا خالی پر پاکستان کو ہی گالیاں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ میرے خیال میں ہم وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں جو کہ جسکا کھاتے ہیں اسی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے اور توبہ کر کے اصلاح کرنے کے لئے مندرجہ ذیل کہانیاں کا فی ہونی چاہیں۔
ہم آپ کو غیر ملکی تصور کرتے ہیں
میں 6جون 1982کو کراچی سے دہلی پہنچا ۔پہلے سات دن میری فیملی قطب ہوٹل میں ٹھہری کیونکہ گروپ کیپٹین الطاف خواجہ نے یہیں انتظام کیا ہوا تھا۔ رات کو ہم سیر کے لئے نکلے۔ ساتھ ہی مارکیٹ تھی۔ ہم نے پانچ آئس کریم کا آرڈر دیا تو دکان دار کاغذ پر قیمت کا حساب لگانے لگا۔ تو میں نے گفتگو کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لئے کہا کہ ہم نے تو سنا ہوا تھا کہ آپ لوگ حساب کتاب میںماہر ہوتے ہیں مگر آپ تو ایسے نہیں لگتے۔ اس پر دکاندار نے بتایا کہ وہ انڈین امیگریشن میں انسپکٹر تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دکان کھولی ہے۔ ابھی دکانداری کیعادت نہیں پڑی۔ اس طرح گفتگو چل نکلی تو وہ کہنے لگا کہ ہم ہندوستانی آپ کو غیر ملکی Foreignerتصور کرتے ہیں۔ اس پر میں نے کہا کہ یقینا ہم پاکستانی غیر ملکی ہیں اس پر اس نے اصلاح کرتے کہا کہ نہیں میرا مطلب پاکستانیوں سے نہیں نلکہ تمام ہندوستانی، پاکستانی مسلمانوں سے ہے۔ ہم تمام ہندوستانی مسلمانوں کو بھی غیر ملکی سمجھتے ہیں کیونکہ وہ غیر ملکی مذہب کو مانتے ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والوں کو ہندو مذہب یا ملکی مذہب کو ماننا ہوگا۔ تمام کرسچن اور مسلمانوں کو ان کے مذہب کے علاقوں میں جلد جانا چاہتے۔ میں نے شکایتاً کہا کہ پہلی ملاقات پر ہی وہ ایسی بے رخی اور غیر دوستانہ بات کر رہا ہے جو مناسب نہیں لگتی۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ آپ کو میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے سچ بات بتا دی ہے میں نے اسکا شکریہ ادا کیا۔

ہندؤٔؤں کے نیشنل مقاصد:
ایک پارٹی میں میں میس کٹ میں تھا تو ایک آدمی نے اپنا تعارف بطور صحافی ملک راج کے نام اور گروپ کیپٹن خواجہ صاحب کے دوست کے طور پر کرایا۔ کچھ دیر بعد کہنے لگا کہ میرا ایک مقصد زندگی ہے۔ میں نے تعریف کرتے کہا کہ بہت اچھی بات ہے کہ تمہاری زندگی کا کوئی مقصد ہے عام طور پر لوگ بغیر کسی مقصد کے زندگی گزار جاتے ہیں۔ اس پر کہنے لگا کہ آپ نے پوچھا نہیں کہ وہ مقصد کیا ہے؟ میرے پوچھنے پر کہنے لگا کہ میرا مقصد تمام مسلمانوں کو ہندو بنانا ہے۔ میں نے نے ہنس کر کہا کہ پہلے تمہارے یہاں ہندو کم ہیں کہ تمہیں اور ہندو بنانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ آپ نے میرے مقصد کا مذاق اڑا دیا ہے، میں واقعی سنجیدہ ہوں۔ اس لئے کہ ہندوستانی مسلمان پہلے ہندو ہوتے تھے ہندو ؤںسے مسلمان ہوئے ہیں ۔ اب انہیں دوبارہ ہندو بن جانا چاہیے۔ اس پر میں نے کہا کہ چلو میں تمہارے کہنے پر ہندو بن جاتا ہوں تو تم ذات پات میں مجھے کہاں فٹ کرو گے تو کہنے لگا کہ شودر سے نیچے۔ میں نے اب خفگی سے بتایا کہ کوئی پاگل ہی اونچے مقام سے نیچے مقام تک خود جانا چاہے گا۔ تمہیں پتہ ہونا چاہئے کہ چند ماہ پہلے، پورے کے پورے چندہندو گائوں مسلمان ہو گئے تھے کیونکہ وہ نیچی زات سے اوپر آنا چاہ رہے تھے۔ اس کی رپورٹ انڈیا ٹو ڈے میں آئی ہے۔ آپ کی اطلاع کے لئے بتانا ظروری ہے تا کہ بات سمجھ میں آ جائے۔
یہ کہانی کچھ یوں ہے کہ جنوبی ہندوستان میں چند گائوں کے تمام نچلی ذات کے ہندو مسلمان ہوگئے تو تمام انڈیا میں شورشرابا ،کہرام مچ گیا ۔ لوگوں نے سعودی عرب پر الزام لگا یا کہ پیسے دے کر ان کو مسلمان کیا گیا ہے۔ انڈیا ٹو ڈے میگزین کی ٹیم نے جا کر تفتیش کی۔ انٹرویو لئے، تو عورتوں کا جواب ایک ہی تھا کہ مسلمان ہونے سے ہمارا درجہ اونچا ہو گیا ہے۔ پہلے جب ہم کنوئیں سے پانی بھرنے جاتی تھیں تو ایک طرف کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا تھا، جب تک اونچی ذات کی عورتیں پانی بھر کر چلی نہ جاتیں ۔ اب مسلمان ہونے کے بعد ہم ان کے ساتھ لائین میں لگ جاتی ہیں۔ وہ اعتراض نہیں کر سکتیں کیونکہ اب ہم درجہ میں ان کے برابر ہیں، کم نہیں۔ اس کا ملک راج کے پاس جواب نہیں تھا۔
ہندو پنڈت کی پاکستان کے خلاف سازش کی پلان کا افشاء
1۔ 1985کی بات ہے ۔میں دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں ایئر اتاشی متعین تھا ۔ ہمدرد اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے ہمارے سفیر ہمایوں خان صاحب کو ایک لیکچر کے لئے مدعو کیا ۔وہ نہ جا سکے تو انہوں نے مجھے بھجوا دیا۔ لیکچر اسلام کے موضوع پر تھا۔اور کشمیر کے سابق راجہ ڈاکٹر کرن سنگھ کا تھا ۔لیکچر کے بعد انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سید اوصاف علی نے ایک بہت بوڑھے پنڈت سے ملایا اور درخواست کی کہ اپنے ساتھ پنڈت کو لیتا جائوں ۔وہ میرے گھر A11/10وسنت وہار کے بالکل پاس رہتے ہیں ۔ میرا گھر تقریباََ 45منٹ کی ڈرائیو پر تھا ۔
۔ راستے میں دس پندرہ منٹ کی گپ شپ کے بعد پنڈت صاحب کہنے لگے ۔ کہ بیٹا تم بہت سچے اور کھرے آدمی لگتے ہو ۔ ڈپلومیٹ کی طرح نہیں ۔ اس لئے میں بھی تم سے سچ بول سکتا ہوں ۔ میں نے کہا کیوں نہیں ۔ سچ ہی بولیں گے تو ایک دوسرے کو سمجھ کر ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں گے ۔ ہمسائے ہیں ۔ رہنا تو ساتھ ہی ہے۔ بولے کہ تم پاکستانی مسلمان بڑے عجیب ہو ۔ ابھی تک ہم تمہیں کنٹرول نہیں کر پا رہے ۔ بات آگے بڑھی تو کہنے لگے کہ جب ہندوستان آزاد ہو ا تھا ۔ تو صرف ایک قوم تھی جس کے دل میں اب بھی حکومت کا خناس تھا ۔ وہ مسلمان تھے ۔ اس میں سے تم نے پاکستان بنا کر اپنے آپ کو بچا لیا ۔ باقی مسلمانوںکے ساتھ ہم نے ایسی پالیسی اپنائی کہ وہ ایک نسل کے بعد مالی لحاظ سے صفر ہو گئے ہیں ۔ اب تو صرف ARTIZENیا ہاتھ سے کام کرنے والے کمی بن گئے ہیں ۔ دوسری قوم جس میں حکومت کا خناس تھا ۔ وہ سکھ تھے۔ ان کو ہم نے 1984میں ہمیشہ کے لئے زیرو کر دیا ہے ۔ ان کے صوبے کو تین میں تقسیم کر کے بالکل محدود کر دیا ہے ۔ تیسری قوم عیسائیوں کی ہے ۔ وہ حکومت نہیں کرنا چاہتے مگر اپنے آپ کو ہم سے بر تر سمجھتے ہیں ۔ اس لئے ہم نے ان کو جلانے سے شروع کیا ہے۔ (ان دنوں کسی آسٹریلوی پادری نن اور چرچ کو جلایا گیا تھا)۔ مقصد صرف ڈرانا ہے ۔ جلدی ڈر جائیں گے۔
۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے ہمارے ساتھ کیا کرنا ہے؟ تو ہنس کر کہنے لگے کہ تم پاکستانی مسلمان اکھڑ مر د کی طرح ہو ۔ جبکہ ہندو فطرتاََ عورت کی طرح ہے ۔ اگر کوئی عورت یہ چاہے کہ وہ کسی مرد سے شادی کرے تو وہ کبھی پہل نہیں کرتی ۔ ایسے حالات پیدا کرتی ہے کہ مرد کے دل میں اس کے لئے کشش پیدا ہو ۔ اور مرد ہی پرپوز کرے شادی کے لئے ۔ ہم نے بھی یہی کرناہے کہ تمہارے لئے ایسے حالا ت پیدا کرنے ہیں ۔ کہ تم لوگ خود ہمارے پاس آکر کہو ۔ کہ ہم سے 1947میں غلطی ہو گئی تھی ۔ ہمیں پھر سے واپس لے لیں ۔ ایک دفعہ ایسے ہوا تو ہم تمہیں عورت ہی کی طرح ہمیشہ کے لئے غلام بنا لیں گے۔
۔ میں نے کہا کہ اکھڑ مر د کا بھی آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ شادی کے بعد بھی حاوی ہو جاتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ جورو کا غلام بن جائے ۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ عورت ہم پر حاوی ہوتی ہے یا ہم عورت کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر ہلکے پھلکے موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی ۔ میں نے گھر آنے کی دعوت بھی دی۔ مگر میرا خیال ہے کہ حکومت سے اجازت نہ ملنے کی وجہسے وہ کترا گئے۔
۔ ہمارے موجودہ حالا ت کو جب میں دیکھتا ہوں تو پنڈت صاحب کی باتوں کی سچائی کی جھلک نظر آتی ہے۔ ہماری پبلک انڈیا کی دیوانی ہے ۔ ان کے کلچر کو اپنا نے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگاتے ۔ اب زبان میں بھی ان کے الفاظ فوراََ اپنا لیتے ہیں ۔ ان کے اداکا ر یا ایکٹرسیں آ جائیں تو پاگل ہو جاتے ہیں۔اس کے باوجود ہندو ہمارے کسی آدمی کو بے عزت کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میرے خیال میں یہ ان کا احسان ہے کہ ہمیں یا د دلاتے رہتے ہیں کہ وہ ہمیں دل سے اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
8۔ امریکہ اور ہندو نے کافی عرصہ سے (1984سے)ہم پر مالی و معاشی کنٹرول کے لئے دریائو ں کا پانی بند کرنا بندکر دیا ہے ۔ بجلی پیدا کرنے کے تمام مواقع ہمارے اپنے لوگوں کو خرید کر بند کروا دئیے ہیں ۔ تا کہ بجلی نہ ہونے سے انڈسٹری مقابلہ کرنے کی حالت میں نہ رہے۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے مہنگائی بڑھے گی تو ہماری چیزیں مہنگی ہونے سے برآمد نہیں ہو سکیں گی۔ غرضیکہ اس چکر میں ہم خود ہی اپنے آپ کو تباہ کریں گے ۔ انہیں حملہ کرنیکی ضرورت نہیں رہے گی ۔ کھانے پینے کی اشیاء تک ہم ان سے منگوا رہے ہیں ۔ میرے اندازے کے مطابق سب سے بڑا ٹارگٹ پاکستان کی آرمڈ فورسز ہیں۔اکانومی تباہ ہوئی تو ہم روس کی طرح بیٹھ سکتے ہیں۔فوج کو بھی قائم رکھنا مشکل ہوگا۔جو ہماری اور نیوکلر پروگرام کی حفاظت کی آخری امید ہے۔ہمارے قوم کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بات کو سمجھیں اور اپنی اصلاح کریں۔معاش اورمال کی حفاظت اور صحیح ستعمال سیکھیں۔اسی پر زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔چاہے ایک آدمی ہو یا قوم۔money makes the mare go.
9۔ پنڈت نے سچ کہا تھا ۔ ہندوستان ایسی پالیسی پر گامزن ہے ۔ ہم ہی نہ سمجھیں تو ان کا کیا قصور ۔ دشمن تو دشمن ہوتا ہے ۔ مگر ہم خود اپنے ہی دشمن ہو گئے ہیں ۔ شاید اللہ نے ہمارے اعمال کی وجہ سے ہماری مت مار دی ہے ۔ دعاکا وقت آ گیا ہے۔
راوا لپنڈی
26 اپریل 2010 امتیاز علی
پاکستان ، ہندوستان کو چوہدری کیوں نہیں مانتا؟
جون 1982میں میں بطور ائر ا تاشی انڈیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل گوری شنکر ڈی جی ایم آئے تھے۔ ہم دونوں کے تعلقات بے حد خوشگوار تھے ایک روز جاپانی اتاشی کے گھر پارٹی میں کھانا لیتے وقت کہنے لگے کہ وہ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے میں Two Seaterصوفے پرجا کے بیٹھوں۔ کھانے کے دوران میں نے پوچھا کہ وہ کیا بات کرنا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے سوال کیا۔ کہ ـ “آپ لوگ امریکہ کو چوہدری مانتے ہو۔ چین کو مانتے ہو۔ ہم بھی بڑا ملک ہیں ہمیں چوہدری کیوں نہیں مانتے”؟
میں نے پوچھا کہ آپ چوہدری کی Defination بتائیں تو پھر جواب دوں گا۔ تا کہ مجھے پتہ چلے کہ آپ کے ذہن میں چوہدری کا کیا تصور ہے؟ جو یہ کہے کہ مجھے چوہدری مانووہ تو بدمعاش ہوتا ہے”اس پر کہنے لگے کہ تم خود ہی بتائو کہ تم کس کو چوہدری کہتے ہو؟اور تم نے یہ لفظ بدمعاش جو استعمال کیا ہے غلط کیا ہے؟
میں نے ان کو کہا کہ فلموں میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک غنڈہ بدمعاش جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ وہ زبردستی چوہدری بننے کیلئے لوگوں کو مارتا پیٹتا ہے ۔ ڈراتا دھمکاتا ہے۔ لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ عزت نہیں کرتے۔ علیحدگی میں اسے غنڈہ بدمعاش کا نام دیتے ہیں۔ آپ جو ہمیں زبردستی چوہدری منوانا چاہتے ہیں تو یہ صریح بدمعاشی ہی ہوگی۔ چودھراہٹ نہیں۔ اس پر شنکر صاحب کہنے لگے۔ کہ بدمعاش کا لفظ بڑا سخت ہے۔ ہم اسے “دادا گیر”کہتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ پھر آپ دادا گیر بننا چاہ رہے ہیں۔ اس پر پھر انہوں نے کہا کہ تم فوری اس بات کا جواب دو کہ چوہدری کون ہوتا ہے۔
میں نے بتایا کہ چوہدری دراصل بڑے پن کا نام ہے۔ چھوٹے پن یا زبردستی کا نہیں۔ امریکہ ، چین ، یورپ تو علمی، صنعتی ، مالی لحاظ سے ہر طرح دوسروں کو دینے کی حالت میں ہیں۔ دیتے بھی ہیں اسی طرح ایک پروفیسر، عالم وغیرہ بھی اپنے فیلڈ میں چوہدری ہوتے ہیں لوگ انہیں بڑا مان کر ان سے علم حاصل کرتے ہیں۔ ان کی عزت کرتے ہیں وہ خود لوگوں کو مجبور نہیں کرتے کہ ہم علم والے ہیں ہمیں چوہدری مانو۔ تو پھر آپ بتائیں کہ ہندوستان ہمیں کیا دے سکتا ہے۔ وہ تو خود کشکول لیکر پھر رہا ہے۔ مالی امداد اور ٹیکنالوجی دوسروں سے مانگ رہا ہے ۔ علم کیلئے دوسروں کے پاس جا رہا ہے۔ تو پھر ہم اس Sourceکے پاس خود ہی کیوں نہ جائیں اور انہی سے حاصل کریں گوری شنکر کہنے لگے۔ کہ ہم آپ کو علم، ٹیکنالوجی دے سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو میں نے کہا کہ آپ کے پاس نہ زندگی کی فلاسفی ہے ۔ ٹیکنالوجی 1950کے عشرے کی ہے وغیرہ وغیرہ۔
غرضیکہ یہ گفتگو اس شکوہ پر ختم ہوئی۔ کہ ہر بار جب وہ مجھ سے دل کی بات کرتے ہین تو میں ان کی بے عزتی کر دیتا ہوں۔ میں نے بتایا کہ سچ کو بے عزتی سمجھتے ہیں تو میں پھر بھی بولوں گا اس لئے کہ سچ کی بنیاد پر ہی ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ورنہ نہیں۔
ان سب باتوں کے باوجود جنرل شنکر اور میرے تعلقات ان کی پوسٹنگ تک خوشگوار رہے کیونکہ وہ پاکستانی میوزک اور ڈراموں کے دلدادہ تھے اور یہ دونوں چیزیں ان کو صرف مجھ سے ملتی رہتی تھیں دوسر ے آفیسر ز کو ان کو شوق نہ تھا۔ ویڈیو اور آڈیو کیسٹ تو میں ہر دفعہ پاکستان سے لے جا کر ان کو تحفہ دیتا تھا ۔
تجزیہ: میرا اندازہ یہ ہے کہ ہندوستان نے 1947سے ہی چوہدری بننے اور منوانے کا ارادہ کیا ہوا تھا۔ اس کا اظہار 1982سے شروع ہوا۔ میرے علاوہ دوسرے ممالک کے اتاشیوں سے بھی یہی سوال کیا جاتا کہ رقبہ اور آبادی کی بنا پر اسے بڑا کیوں نہیں مانا جاتا۔ آج 24سال بعد جبکہ انڈیا ہمارے لئے ہر مشکل میں مشکل کشا بن رہا ہے۔ تو مجھے اندازہ ہو اکہ اب وہ زبردستی کے ساتھ ساتھ ہر چیز دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے تاکہ ہم بخوشی اس کے آگے ہاتھ پھیلائیںاور دل سے چوہدری مان لیں جبکہ ان 24سالوں میں بتدریج ہم نے اپنی صورت بگاڑلی ہے اور منگتے بن گئے ہیں اور بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ہماری قومی لیول پر بد کرداری کی وجہ سے ہواہے۔ اپنے دشمن ہم خود بن گئے ہیں۔ عزت ،غیرت بے غیرتی کا احساس تک ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی تمام انرجی ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر اپنوں پر چوہدری ہونے کا رعب ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے خود بطور قوم دنیا میں چوہدری بننے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ انما الاعمال با لنیات : تمام اعمال نیت پر مبنی ہیں۔
میرا خیال ہے کہ عوام اور صاحبان اقتدار یعنی ہم سب کو نیت کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ برکت خودبخود آجائے گی۔ ہم تما ہم لوگ ہوس زر اور ہوس جاہ، ہوس باہ میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔ اس سے 16کروڑ عوام کو نکلنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ کرے کہ ہم انڈیا کو چوہدری ماننے سے بچ جائیں۔ ہندو بنیا بہت ہی گھٹیا لیول کا چوہدری ہے۔ مسلمانوں کو صدیوں کا تجربہ ہے۔ یہ صرف اور صرف Exploiterہے بڑائی نام کی چیز اس کے ضمیرمیںنہیں۔ ہم سے تو اسکو دینی ، سیاسی ، ریاستی، تاریخی ، مالی ہر لحاظ سے دشمنی ہے جسکا وہ برملا ہر موقع پر اظہار کرتا رہتا ہے ہم نہ سمجھیں تو ہماری ہی غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین۔

امتیاز علی
ماڈرن طیراً ابابیل
ائر فورس آج کل وہی رول ادا کرتی ہے جو کہ سورہ فیل کے پرندوں نے ادا کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کی چند تصویریں نیچے دی گئی ہیں

پیش لفظ
1979؁ء کے مارچ کی بات ہے۔ ہم چند دوست آرمی کمانڈ اینڈ سٹاف کا لج کو ئٹہ میںبیٹھے مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے ۔بات سے بات نکل رہی تھی ۔چلتے چلتے بات قرآن مجید کے کلا م اور اس کی عقلی توجیہات پر آ گئی کہ کسی بھی بات کو ماننے کے لئے آج کل کے سائنسی دور میں عقل کے مطابق پرکھا جاتا ہے۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ ہر بات واقعہ کی وجہ تسمیہ ، مقصد ، طریقہ کو معلوم کیا جائے۔ اگرچہ یہ سب کچھ عموماً عمل کرنے کی نیت سے نہیں ہوتا بلکہ پڑھا لکھا کہلوانے یا میم میخ نکالنے کے لئے ہو تا ہے تاکہ اُس بات پر عمل نہ کرنے سے ضمیر کی ملامت سے بچا جاسکے۔ بہرصورت اس تمام بحث کا نیتجہ یہ نکا لاگیا کہ عام پڑھے لکھے مسلمانوں کو قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر ضرور پڑھنی چائیے اور جن با توں کو وہ انپے جدید علوم سے ثابت کر سکیں ،اُن پرضرورلکھنا چاہئے،کیونکہ علما ء کر ام تمام دینی باتوں کو ان جدید علوم سے عدم واقفیت کی بنا پر پر انی ڈگر پر سمجھا نے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جوکہ تعلیم جدید کے پڑھے لکھے لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو تیں ۔دوسرے یہ کہ مسلمان کا یہ حق بھی ہے اور فرض بھی کہ وہ قر آن مجید کو پڑھیں۔اُس پر غور کر یں اور اُس کے معانی مطلب اورپیغام کوسمجھنے کی کوشش کریں۔
اس بحث مبامثے کے بعد یہ خیال میرے دل میںباربار انگڑ ائیا ں لیتا رہاکہ مجھے ا س کام کی ابتدا کردینی چائیے ۔مگراس خیال کے ساتھ ساتھ، کلا م پاک میں ریسرچ کرنے کی عظیم ذمہ داریوں کا احساس اِس کام کو شروع کرنے میںمانع رہا۔کہ مبادا میری تحریر سے کہیں غلط اثرات مرتب نہ ہو جائیں ۔ساتھ ہی ساتھ ڈرتھا کہ عربی زبان اوردینی علوم سے نا واقفیت کی بنا پرذاتی Interpretationہوجانے کا بھی خیال تھا۔ اِن سب ملے جُلے خیالات کے باوجود اِس کام کی ابتد ا کرنے کافیصلہ کیا اور اﷲ تعالیٰ کی ذات سے راہنمائی کی درخواست کی ۔اور اس مقصد کے لئے وہ مضمون چُنا جس میںغلطی ہونے کا کم سے کم خدشہ ہوسکتاہے۔
ریسرچ کے پروگرام کے لئے میں نے تیسویں پارے کا انتخاب کیا۔کیونکہ اِس میں چھو ٹی چھوٹی سورتیں ہیں ۔اِن سورتوں میں سے اصحاب الفیل کے بارے میں سورۃ فیل چنی کیونکہ اس واقعہ کو میں نے اپنے ذاتی علم ، اور تجربہ کی بنا ہر، جو کہ مجھے ملڑی فلا ئنگ کے پیشہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے ہے، ثابت کر نا آسان خیال کیا۔
اگر چہ اس کام کی ابتدامیں نے فوراََ ہی کر دی تھی ۔مگر سٹاف کالج کی تعلیمی مصروفیات اور بعد میں سرکاری کاموں میںمشغولیت کی وجہ ے نہ ہی میں مواد اکٹھاکرسکا اورنہ ہی وقت مِل سکا کہ پو ُری توجہ یا انہماک سے میں اِس کولکھ سکتا۔اِن مجبور یو ں کی وجہ سے اور اُن کے بادجودمیں نے اس کام کو کرنا ضروری سمجھا اور جس سٹینڈرڈ سے بھی یہ کام ختم کر سکاکیا۔ میںخود اِس کا م سے مطمئں نہیں ہو ں ۔مگر اس کوچھپوانا بہتر سمجھا تاکہ یہ سوچ اور خیال دوسروں تک پہنچ جائے ۔شاید کوئی اس ابتدائی کام کو مکمل کرنے کی ٹھا ن لے ۔اوریوں یہ Ideaپایہ تکمیل کوپہنچ کر بہت سے مسلمانوں کو اِس کوسجھنے اور اِس پر یقین لانے کا ذریعہ بن سکے ۔اور غیر مسلموں کو بھی سو چنے پر مجبو ر کردے کہ کلا م پاک میں لکھا ہوا ہر لفظ اورحر ف ایک سچائی ہے ۔اگر چہ وہ سچائی ہم اپنے علم کے محدودہو نے کی بنا پر پرکھ نہ سکتے ہوں۔
میں خود بھی اِس کام کو بدر جہ اتم مکمل کرنے کی کو شش کروں گا ۔اورساتھ ہی اُن تمام اہل علم سے جن کی نگاہ سے یہ کتاب گزرے یہ گزارش کروں گا کہ وہ مجھے اپنی قمیتی رائے سے آگاہ بھی کریں اور اس سلسلہ میں دوسرے ریفر نس (مواد)کے بارے میں بھی مطلع کریں ۔تاکہ میں جلد اِس ضروری کا م کو مکمل کر سکوں ۔ جس میں پہلے ہی کافی تا خیر ہو چکی ہے ۔
آخرمیں میں اُن تمام اصحاب سے التماس کر وں گا جو کہ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد قرآنِ مجید کے معانی میں جدید علو م کے ذریعے رلسیر چ کرنا چا ہیں کہ وہ اپنی ہر کوشش کوعلماء کرام سے استفادہ،بحث،کے بعد ہی چھا پیں تاکہ جدید علوم اور روایتی اند از دو نو ں کے ملنے سے بہترین نیتجہ نکلے ۔جوکہ اسلام کو سمجھنے اور پھیلا نے کاذر یعہ بن سکے ۔ اور نئی پودکو اسلام کی ہمیشگی سچائی سے جدید علوم سے ثابت کرکے روشناس کر سکے۔
گروپ کیپٹن امتیازعلی

افتتاحیہ
ہمیشہ سے ہی (ازل سے ہی ) یہ انسانی فطرت رہی ہے کہ وہ ہر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہے کیونکہ وہ فطرت کے ہر سر بستہ راز کو حل کرنا چاہتا ہے۔ ہر چیز کے بارے میں کیوں اور کیسے کے سوال کا جواب تلاش کرتا ہے۔ اس کوشش کے پیچھے ہمیشہ یہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے کہ جو چیز سمجھ میں آ جائے ، اس سے مانوس ہونے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اور اَن جانے ڈر اور خوف سے نجات مل جاتی ہے۔ کیونکہ جب تک کوئی چیز انسان کی سمجھ میں نہیں آتی تب تک وہ اس سے ڈرتا رہتا ہے کہ مبادا وہ کہیں اس کی ذات کو یا مفادات کو نقصان نہ پہنچا جائے۔ یہ سوچ انسان کی ذاتی حفاظت (Self Preservation)کے قانون فطرت کے عین مطابق ہے۔ جوں ہی اس شے کی حقیقت ، پس منظر ، اصول ، مقاصد وغیرہ سامنے آجاتے ہیں تو وہ اس علم کی روشنی میں اپنی ذات یا مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔ یا کم از کم ان خطرات سے آگاہی حاصل کر لیتا ہے۔ جو اس کو ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ذاتی تحفظ کی یہ انسانی فطرت اس طرح اسے اپنے ماحول میں موجود اشیاء کا علم حاصل کرنے پر مجبورکرتی رہتی ہے۔ اور اس کے سد باب کے لئے نئے سے نئے ہتھیار بنانے پر ابھارتی ہے جس کے ذریعے وہ دوسروں پر حاوی ہو سکے۔
تفتیش و تحقیق کے لئے دوسرا محرک ذاتی منافع یا فائدہ ہوتا ہے کہ انسان اس شئے سے کیسے مستفید ہو سکتا ہے تا کہ وہ دوسروں سے افضل ہو سکے۔
تیسرا جذبہ ذاتی انا کا ہوتا ہے ۔ علم میں وسعت اس کو دوسروںکی نسبت ممتاز کرتی ہے۔ اور یہی جذبہ اس کی خودی ، انا ، سماجی، معاشرتی، معاشی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اور اس طرح ذاتی تحفظ اور مفاد حاصل ہو جاتا ہے۔ دراصل یہ باقی دونوں جذبے پہلے محرک کے تحت ہی ہوتے ہیں ۔ چاہے یہ تحریک تحت الشعوری ہی کیوں نہ ہو۔
انسانی علم، وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔ اس لئے کہ پرانی نسل کے تجربات و علم کی انتہا دوسری نسل کے لئے اس کے علم کی بنیاد کا کام کرتی ہے جس میں وہ اپنے زمانے اور تجربہ کے ساتھ اضافہ کرتی ہے۔ جن مسائل کو پرانی نسلیں حل نہ کر سکی ہوں ۔ یا اس کا معلوم کردہ حل پوری تسلی و تشفی نہ کرتا ہو۔ وہ نئی نسلیں ان کا حل تلاش کر لیتی ہیں۔ یا سوال کو حل کے اور قریب لے آتی ہیں جن کو ان کے بعد آنے والے لوگ آسانی سے حل کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات نئی نسل پرانے حل کو بہتر تشریحات و توضیحات کے ساتھ سمجھنا اور ابھی آسان کر دیتی ہے۔ انسانی علم کا یہ سلسلہ یونہی جاری و ساری رہتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کا طریقہ کار بھی یہی ہے کہ ہم آج جو تحقیقی کام کر کے درپیش مسئلہ کا جو قابل قبول حل یا نتیجہ نکالتے ہیں وہ آئندہ تنقید اور ترقی کے بعد مزید بہتر بنایا جاتا ہے ۔ کئی مسائل کا حل چند نسلوں کے بعد آتا ہے جب علم کے شعبوں میں ترقی ہوتی ہے ۔ اس لئے مقصد بتدریج مکمل حل کی تلاش ۔
انسانی زندگی میں بعض ایسے واقعات ، حالات، مسائل رونما ہوتے ہیں جن کو آج تک نسلِ انسانی موجودہ علم اور تجربہ کی بنا پر تسلی بخش طریقے سے نہ سمجھ سکی ہے۔ اور نہ ہی ان کی توضیح کی گتھی سلجھا سکی ہے۔ ایسے واقعات کا صرف اتنا ہی علم ہے کہ یہ رونما ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یوں ہے کہ انسانی علم اس بات کے بارے میں اب تک اتنی ترقی نہیں کر سکا۔ اس لئے اس کی توجیہ کرنی مشکل ہوتی ہے۔ خاص طور پر اگر یہ مسئلہ روحانی یا مذہبی زندگی سے تعلق رکھتا ہو یا Occult Sciences سے ہو۔
علم انسانی کا بنیادی طریقہ تقابلی ہے یعنی Comparisonہے۔ یعنی وہ ایک معلوم علم سے یا اصول سے نا معلوم چیز کو سمجھنے کی کو شش کرتا ہے۔ اس تقابلی طریقہ کا ر سے اس کو نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ جن کی بنا پر وہ نئے اصول وضع کرتا ہے جن کو استعمال کر کے وہ نئی چیزیں دریافت کرتا ہے اور نئے اصول سیکھتا ہے ۔ بعض پرانے اصول غلط ثابت ہو جاتے ہیں ۔ اس تقابلی اصول کو استعمال کر کے آدمی یا تو پہلے کسی چیز کا مشاہدہ کر کے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا پھر ایک ممکن مفروضہ فرض کر کے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اگر کوئی واقعہ یا بات سمجھ میں نہ آ سکے مگر اس کا ممکن ہونا ثابت ہو جائے تو بھی یہ علم میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ کسی چیز کا ہونا ممکنات سے ہو ۔ تو پھر اس کا کسی روز ثبوت مل جانا مشکل نہیں رہتا ۔صرف دقت کی بات ہوتی ہے ۔ کسی چیز کا ممکن الوقوع ہونا دراصل اس واقعہ کو مان لینے کو آسان بنا دیتا ہے ۔ اور ساتھ ہی وہ تحفظ بھی فراہم کردیتا ہے جس کی اسے تلاش تھی۔ یہ تحفظ در اصل ذاتی انا کا ہوتا ہے۔ کہ وہ جس بات پر صدیوں سے یقین کرتا آیا ہے در اصل ہو سکتی ہے۔اور اس طرح اس کی عزت، انا اور یقین دوسرون کی نظر میں قابل اعتبار اور محفوظ ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ ایک بار انسان کے ذاتی اعتبار ، ایمان اور یقین کو نقصان پہنچ جائے تو وہ انسان نہ صرف اندر سے ٹوٹ جاتا ہے بلکہ سماجی لحاظ سے قدرو قیمت کھو بیٹھتا ہے۔ یہی عزت ، انا ، تکبرہی تو ہے جو ہر نئے پیغمبر کے پیغام کو رد کرنے اور نہ ماننے کا باعث بنتی رہی ہے۔ اور ہر معاشرے ، ہر ملک اور ہر دور میں ایک ہی بات سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ ہمارے باپ داد اس رسم ، عادت ، اصول کو صدیوں سے کرتے آئے ہیں ۔ ہم نئی بات کیسے مان لیں۔ نئی بات کو سچ ماننے میں اپنے صدیوں کے اعمال اور یقین کی تضحیک ہوتی ہے کہ ہم اتنے عرصہ سے غلط کام کرتے رہے ہیں یا غلط بات کو صحیح مانتے آئے ہیں۔ اپنی غلطی کو ماننا در اصل انسانی طبیعت کے لئے مشکل ترین کام ہوتا ہے۔
اس لئے اپنے کسی اصول کا ثبوت مہیا ہو جانا انسان کو خوشیوں سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ کہ وہ دنیا میں اس Embarrasmentسے بچ گیا جو کہ پیش آ سکتی تھی۔ یا اس مشکل اور دقت سے نکل آیا جو اس واقعہ یا اصول کو ثابت کرنے میں ہو سکتی تھی۔
اس کے علاوہ کسی واقعہ یا اصول کا مکمل ثبوت مل جانا یا اس کا ممکن الوقوع ثابت ہو جانا اس کی اپنی زندگی کی فلاسفی کی برتری ثابت کرنے میں ممد و معاون ہوتا ہے۔اس لئے کہ یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی ہر بات کو دوسروں سے بہترافضل اور ممتاز ثابت کرنے میں ہی اپنی برتری سمجھتا ہے۔
انسانی زندگی کے اصول اور واقعات خصوصاً معجزات عموما ً فوق العادات ہوتے ہیں۔ اور ان کا مقصد بھی لوگوں کو تقابلی علم سے یقین دلانا اور ایمان لانے پر راغب کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اگر ایک شخص اپنی روحانی طاقت، تعلق کاثبوت فراہم کر دیتا ہے تو لوگوں کے لئے اس کی کہی ہوئی باتوں پر یقین لانا بالکل آسان ہو جاتا ہے۔ جو لوگ تو ان روحانی واقعات اور معجزات یا کرامات کے عینی شاہد ہوتے ہیں وہ تو آسانی سے یقین لے آ سکتے ہیںاور لے آتے ہیں ۔ مگر ان عینی شاہدوں کی چونکہ اپنی Credibilityیا اعتبار کم ہوتا ہے ۔ اس لئے ان کے بیان کردہ واقعات پر بعد کی نسلیں یقین لانے سے گریزاں ہو جاتی ہیں۔ اور ان تاریخی واقعات پر شک و شبہ کا اظہار کرنے لگتی ہیں۔ “”)اسی لئے قرآن کے قصوں کو مکہ کے کفار پرانے زمانے کی باتیں کہتے تھے ۔”ا (وراس واقعہ کو ممکن الوقوع ہونے کے لئے ثبوت مانگتے ہیںجو کہ ان کے وقت کے علم کے مطابق بخوبی سمجھایا جا سکے۔ یا مہیا کیا جا سکے۔ یہ شک عموماً تاریخ میں موجود مبالغہ آرائی کی وجہ سے پیش آتا ہے جو کہ نسلوں کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی رہتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ انسانی فطرت میں شامل ہے کہ ہر نئی نسل اپنے ذاتی تجربات اور سوچ کی بنا پر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس لئے بھی وہ اپنے طورپر ان واقعات کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی لئے تمام علوم کی تعلیم میں پریکٹیکل یا عملی تجربات کو بہت ہی اہم مقام حاصل ہے۔ نئی نسل پرانے اصول کو صرف الفاظ سے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک بار کر کے اپنی نظروں اور اپنی سوچ اور مشاہدہ سے اس اصول کی سچائی پر یقین لاتی ہے۔ عین الیقین کے ذریعے ہی حق الیقین کرنا چاہتا ہے
روحانی واقعات ، اصولوں کو چونکہ لیباریٹری ، عملی زندگی یا کسی بھی طور سے دہرایا نہیں جاسکتا ۔ اس لئے ان کا علم صرف الفاظ کی شکل میں منتقل ہوتا ہے۔ الفاظ کے معانی Contextاستعمال وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں کیونکہ ان پر دوسرے لوگوں کی تہذیب اور سوچ کا اثر ہو جاتا ہے ۔ اس لئے عقائد یا اعمال میں تبدیلیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں ۔ْ اور سوچیں بدلنے لگتی ہیں۔ جو انسان کو اپنے نظریات ، عقائد ، مقاصد ، پر تنقید کرنے پر ابھارتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔
مغربی ممالک کی سائنسی سوچ ہمارے سوچنے کے طریقے پر اثر انداز ہورہی ہے۔ اور ہم آج اپنے مذہبی اور روحانی اصولوں اور واقعات کی سچائی کو ان سائنسی اصولوں کے ذریعے ثابت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں کیونکہ یہ ہماری نوجوان مسلمان نسل کی سوچ ہے۔ اس لئے اب وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم تمام علوم کو استعمال کر کے اپنے اصولوں کو کم از کم ممکن الوقوع ہونا ثابت کر دیں۔ اسی لئے ڈاکٹر قرضاوی۔ فقہ ا لزکوۃ کے مصنف کہتے ہیں “اگر ایک طرف شریعت اسلامی احکام کی علت بیان کرنا اور ان کی حکمتیں واضح کرنا ایک امر محمود ہے (Desireable)ہے تو دوسری طرف ہمارے اس دور جدید کے لحاظ سے یہ ایک امر لازمی ہے۔ کیونکہ آج ہر سمت سے غلط افکار وخیالات کی یلغار ہے۔ اور مشرق و مغرب سے طوفان گمراہی امڈ رہا ہے تو ہم کیسے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ ہم لوگوں کو احکام شریعت بتا دیں گے۔ اور لوگ بسرو چشم کہہ کر انہیں قبول کر لیں گے۔ ‘‘ ۔ (ص۔30قرضاوی)”
الحمد للہ کہ سائنس کی ترقی نے ہر قدم پر اسلام کے اصولوں کی سچائی کو ثابت کرنے میں مدد دی ہے۔ اور جو چیزیں ہم آج سے دو چار سو سال پہلے احاطہ سوچ میں بھی نہ لا سکتے تھے، وہ آج بڑی آسانی اور روانی سے ثابت ہو رہی ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ان جدید علوم سے واقف مسلمان قرآنِ مجید کی تفسیر کو صرف علماء کے فرض تک محدود نہ کردیں، بلکہ بڑھ کر ان علماء کا ہاتھ بٹائیں اس لئے کہ علماء کو ان جدید علوم کا علم نہیں ہے۔ اس لئے وہ اپنے روائیتی انداز سے ہی کلام پاک کی تفسیر کریں گے۔ ہمیں سب کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر پہلے عینی شاہدوں کو یقین یا ایمان لانے میں آسانی ہوتی تھی۔ تو آج اسی واقع کو ثابت کرنے یا کم ازکم ممکن الوقوع ہونا ثابت کرنے سے ویسی ہی دین کی دوسری باتوں پر ایمان لانے میںآسانی پیدا ہو گی جیسے کہ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں صحابہ کرام کو آسانی پیدا ہوتی تھی۔ اپنے اس نقطہ کو واضح کرنے کے لئے میں چند مثالیں دینا چاہتا ہوں۔
واقع معراج کو ہی لے لیجئے ۔ صحابہ کرام ؓ نے اس واقعہ کو مان لیا مگر اس واقعہ پر شک و شبہ ظاہر کرنے والے کفار موجود تھے ۔ اگر چہ واقعہ معراج کی تفصیلات اور مندرجات (Contents)اس واقعہ پر ایمان لانے کے لئے کافی ثبوت مہیا کرتے تھے لیکن اس زمانے کے موجود علم کے مطابق یہ سمجھنا ممکن نہ تھا کہ حضور اکرم ﷺ اتنے تھوڑے وقت میں یہ سب کچھ کیسے سر انجام دے سکتے ہیں ۔ اس لئے کافروں نے اس واقعہ کے صرف ایک پہلو یعنی اس واقعہ کے ہونے کی رفتار کو نا ممکن الوقوع سمجھ کر تما م واقعہ کو ہی مسترد کر دیا۔ اس کے برعکس حضور اکرم ﷺ کی سچائی ، اور واقعات کی تفصیلات کی حقیقت پر یقین کر کے صحابہ کرام ؓ نے ان کے اس بیان کردہ تجربہ کو صحیح مان لیا کہ اللہ چاہے تو اتنی رفتار سے یہ واقعہ ہونا بھی ممکن ہے۔ اور خداوند کریم کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر چہ ان کے لئے اس واقعہ کی رفتا ر کو سمجھنا یا ثابت کرنا ممکن نہ تھا۔
واقعہ معراج پر شک و شبہ کرنے والے آج بھی اس واقعہ کے ظہور کو مختلف انداز سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اور ان کے اعتراضات بھی وہی ہوںگے جو کفار کے تھے۔ یعنی واقعہ کی رفتار ، جسمانی حالت میں سفر ، سواری پر سوال ، اس زمانہ میں صرف گھوڑا ہی تیز رفتار سواری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یا پھر خیالی، پر والی پریاں یا جن، جو ہوا میں تیز رفتار ی سے پلک جھپکنے میں ایک جگہ سے دوسرے جگہ جا سکتے تھے۔ اس لئے مسلمانوں میں بھی براق کی سواری کا تصویری خاکہ ان دونوں سواریوں کے اشتراک کی شکل میں ظاہر ہوا ۔ یعنی پروں والا گھوڑا ،براق کے مترادف ٹھہرا ۔ اور براق کا یہ تصور آج بھی مسلمانوں میں رائج ملتا ہے ۔ مگرآج زمانہ میں تیز رفتار سواری کا تصور صرف جیٹ جہاز اور راکٹ کے ساتھ منسلک ہے ، نہ کہ گھوڑے کے ساتھ۔ اب انسان اپنی ہی بنائی ہوئی سواری میں تیس ہزارمیل فی گھنٹہ (50میل فی منٹ یا قریبا ً ایک میل فی سیکنڈ) کی رفتار سے چاند پر جا چکا ہے ۔ اور انسانوں کے بنائے ہوئے راکٹ اور سیٹلائٹ چاند سے بھی دور مریخ پر پہنچ چکے ہیں ۔ آج کل کے سائنسی دور میں ان عینی شواہد کے بعد واقعہ معراج پر ایمان لانا نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ اس لئے کہ ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی اب اس نتیجہ پر بآسانی پہنچ سکتا ہے کہ اگر انسان کی بنائی ہوئی چیز اس تیز رفتار سے سفر کر سکتی ہے تو اس کائنات کے خالق کے لئے حضور اکرم ﷺ کے لئے ایک تیز رفتار سواری مہیا کر دینا کیامشکل ہو گا۔ جو ان کو جسمانی حالت میں آسمانوں تک لے جا کر واپس بھی لے آئے۔ وہ سواری کیا یا کیسی تھی ، اس کا نہ ہی ہمیں معلوم ہو سکتا ہے ،نہ ہی ضروری ہے۔
رفتار کے اس تصور کے ساتھ ہی ہمارا روزانہ کا تجربہ ہے کہ پلک جھپکنے میں آواز اور تصویر یں وائرلیس اور ٹیلیویژن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہیں۔ بلکہ ان ریڈیائی لہروں کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈہے ۔ یعنی رفتار کا تصور چند میل فی گھنٹہ سے بڑھ کر 186000میل فی سیکنڈ تک پہنچ چکا ہے ۔ اور جس کا تجربہ ہم روزانہ کرتے ہیں۔
اس تجربہ کے ساتھ ہی ہمیں معلوم ہے کہ اب یہ سائنسی تصور بھی موجود ہے کہ تصاویر کی طرح کسی دن پورے انسان کو بھی اسی رفتار سے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا Transmit کیا جا سکے گا۔ یعنی ایک انسان کو کسی آلہ کے ذریعہ ریڈیائی لہروں میں (Energy)تبدیل کر کے دوسری جگہ بھیجا جا سکے گا۔ اور وہاں اسے موصول (Recieve)کر کے دوبارہ انسان میں تبدیل کیا جا سکے گا۔ یہ سائنسی تصور بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ مستقبل میں ایسا کرنا ممکن ہو سکے گا۔ صرف یہ سائنسی تخیل ہی واقعہ معراج کے ممکن الوقوع ہونے کا ثبوت مہیا کر دیتا ہے۔ اور اس واقعہ کی صداقت کو اور قوی بنا دیتا ہے ۔ اور یوں موجودہ علوم کی ترقی، زندگی کے تجربات ، سائنسی تخیلات، تحقیقات یہ سب اس زمانے میں وہ تقابلی علم مہیا کرتے ہیں جن سے مقابلہ کر کے واقعہ معراج کے ممکن الوقوع ہونے کے امکانات و ممکنات Possibilities or Probabilitiesبڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اور اس واقعہ پر ایمان لانا آسان ہو گیا ہے۔ حضور اکرم ؐ ﷺکے اس طرح کے ممکن الوقوع سفر پر ایمان در اصل ان کی تمام دوسری تعلیمات پر ایمان لانے کا سبب بن سکتا ہے جیسے کہ صحابہ کرام ؓ نے کیا تھا۔
اس سلسلے میں ایک اور مثال پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ مخلوقات کے بارے میں قرآن مجید میں ملائکہ (فرشتوں) اور جنوں کا ذکرکرتے ہیں۔ ایسی مخلوقات جو کہ ہمیں نظر نہیں آتیں مگر موجود ہیں۔ پرانے زمانے میں ان کی موجودگی کا تصور کرنا انتہا ئی مشکل تھا۔ اور آج بھی اَن پڑھ لوگوں کے لئے اتنا ہی مشکل ہے۔ ایسے لوگ آج بھی جنوں کی موجودگی کو افسانوی رنگ میں ہی پیش کرتے ہیں۔ ہاں پڑھے لکھے لوگوں کے لئے تقابلی طریقہ علم اور ظنی دلیل (Deductive Logic) سے ان کی موجودگی کا ممکن ہونا ثابت کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس لئے کہ آج کل ہر پڑھا لکھا شخص جراثیم کی موجودگی پر یقین رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ اگر چہ انسانی آنکھ جراثیم کو دیکھ نہیں سکتی مگر وہ موجود ہوتے ہیں اور انسانی آنکھ کی مدد کے آلے خوردبین (Microscope)کے ذریعے جو چھوٹی چیزوں کو ہزاروں لاکھوں گنا بڑا کر کے دکھاتی ہے اس نظر نہ آنے والی مخلوق کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اور دیکھنا ہی یقین کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس تجربہ سے یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی آنکھ کا ڈیزائین ایسا بنایا ہے کہ وہ ایک خاص جسامت یا سائز سے کم کی چیزوں کو ان کی موجودگی کے باوجود محسوس نہیں کر سکتی ۔ چاہے یہ جسامت بذات خود اتنی چھوٹی ہو یا فاصلے کی وجہ سے ہو۔ اس طرح یہ انسانی آنکھ بعض دوسری ماہیت کی چیزوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں اگر چہ وہ جسمانی حالت میں موجود ہوتی ہے اور ہم ان کی موجودگی کو محسوس کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہوا ، خوشبو وغیرہ ۔اس لئے ان مثالوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ ایسی تمام مخلوقات جو کہ انسانی آنکھ کے ڈیزائین کی حدود یا Limitکے باہر ہوتی ہیں وہ انسان کو نظر نہیں آسکتیں ۔ اس سلسلے میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ آنکھ صرف ایک فریکونسی (Frequency)کی روشنی کو دیکھ سکتی ہے ۔ حالانکہ اس کے علاوہ (Infra-red)ایکس رے ، (Ultra violet) روشنی کی لہریں موجود ہوتی ہیں۔ غرضیکہ سائنسی علوم کی روشنی میں تقابلی مطالعے کے ذریعے ہم اب یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ فرشتے اور جن کی موجودگی ممکن ہے۔ اور اس طرح ان کی مختلف بیان کر دہ صلاحیتیں مثلاً تیز رفتاری ، شکلیں بدل سکنا وغیرہ بھی ہونا ممکن ہو سکتا ہے۔
انفرا ریڈ شعائوں کو استعمال کر کے بہت سی ایجادات ہوئی ہیں جیسے انفرا ریڈ کیمرے، میزائل۔
اسی طرح اب مائیکرو چپ، جہازون کے بلیک باکس، کمپیوٹر کی ایجاد سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے کندھوں پر بیٹھے فرشتے کیسے ہمارے اعمال ریکارد کر رہے ہیں جو کہ قیامت کے دن وڈیو چلا کر اللہ تعالی اس ثبوت کے ساتھ فیصلے کرے گا اور ہم انکار نہیں کر سکیں گے۔

ہم سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسانی علم کی بنیاد اس کے حواس خمسہ پر ہے یعنی دیکھنے، سننے ، چکھنے ، سونگھنے اور چھونے یا لمس پر ہے ۔ اور ان سب کا ڈیزائین ایسا ہے کہ ہر ایک کی اپنی اپنی حدودیں ہیں جن میں یہ کام کرتے ہیں۔ ان ذرائع یعنی حواس خمسہ کی صلاحیتیں مختلف آدمیوں میں مختلف درجے کی ہوتی ہیں ۔ اور عمر کے ساتھ ساتھ بھی ان کی صلاحیتوں میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک انسان ایک لمس سے محروم ہو جائے یا کم ہو جائے تو عموماً دوسرے حواس میں زیادہ صلاحیت آ جاتی ہے، جیسے اندھے کی سننے کی قوت ، اَن پڑھوں کی قوت حافظہ ، غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمارے روحانی بزرگوں نے اپنی سوچ بچار، مراقبہ ، توجہ کو مرکوز کرنے (Concentration of Mind)کی صلاحیتوں کو ترقی دے کر اس درجہ (Level)تک پہنچا دیا تھا کہ وہ ان حواس خمسہ کے بغیر اپنے ذہنوں کو اس طرح (Tune)مرکوز کر لیتے تھے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے پیغام کو موصول (Receive) کر کے اپنا رابطہ قائم کر لیتے تھے یا اب بھی کر سکتے ہیں۔ یہ صلاحیت سائنس نے (Telepathy)کے نام سے موسوم کی ہے ۔ یعنی صرف ذہنی قوت کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ جس میں حواس خمسہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ حضرت عمرؓ کا وہ مشہور واقعہ جس میں انہوں نے مدینہ منورہ سے حضرت ساریہ ؓکوجو دوسرے ملک میں جنگ لڑ رہے تھے ۔پہاڑ کی طرف دفاع لینے کو کہا تھا ۔ اور انہوں نے سن لیا تھا۔ پہلے ناقابل یقین لگتا تھا ۔ مگر آج کل (Telepathy)کے تجربات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک آدمی زمین پر بیٹھ کر ہزاروں میل دور سطح سمندر سے نیچے آبدوز میں بیٹھے ہوئے آدمی کو (Telepathy )کے ذریعے پیغام پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح ہپناٹزم کے ذریعے دوسرے کے دماغ پر اثر انداز ہونا اور اس سے عجیب عجیب باتیں کروانا بھی روزانہ کا تجربہ ہے۔ ہپناٹزم کے عملیات کے ذریعے پیغام رسانی اور اس کے اثرات پرانے ذمانے میں بھی تجربہ میں آتے رہے ہیں مگر اس وقت یہ کرامات اور مافوق الفطرت طاقت گنی جاتی تھیں۔
مختصراً یہ کہ (Telepathy)، ہپناٹزم وغیرہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر انسان اپنے حواس اور ذہن کی صلاحیت کو اپنی کوشش سے ایک حد تک ترقی دے سکتا ہے تو یہ انسان کے خالق کے قبضہ قدرت میں ہے کہ وہ اپنے چنے ہوئے اشخاص ، رسولوں ، اور پیغمبروں کو نہ صرف طاقتورحواس خمسہ عطا فرما دے بلکہ کچھ ایسی(Senses) حسیں بھی دے جن سے وہ نہ نظر آنے والی مخلوقات کو دیکھ سکیں ، سن سکیں اور ان سے باتیں کرسکیں۔ یعنی فرشتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغامات موصول کر کے اس کے بندوں تک پہنچا دیں۔ ملائکہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ۔ فاصلے تک کی چیزوں کو اسی طرح دیکھ سکیں جیسے کیمرے کا (Tele Lense)دیکھ سکتا ہے ۔ اس طرح وہ ان آوازوں کو سن سکتے تھے جن کو عام لوگوں کے کان سننے سے معذور ہوتے تھے۔ ان حضرات کے پاس اپنے تجربات کو بیان کر دینے کے سوا اور کچھ نہ ہوتا تھا۔ وہ ان تجربات کا ادراک دوسرے لوگوں کو نہ کروا سکتے تھے ۔ کیونکہ یہ ان کی قدرت سے باہر ہوتا تھا۔ ان کے ان جیسے بیانات کی صداقت کو پرکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ان کے عوام کے پاس ہوتا تھا اور وہ تھا تقابلی مطالعہ کا ۔ چونکہ ہمرے پیارے نبی اور پیغمبر ﷺ دنیاوی معاملات میں ہمیشہ سچ بولا کرتے تھے، اس لئے ان کے پیغامات کو بھی سچ ماننے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی تھی ۔ خاص طور پر اس صور ت میں جبکہ ان پیغامات سے حضور اکرمﷺ کو اپنا ذاتی فائدہ ملحوظ نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ معاشرے کی اصلاح ہوتا تھا۔ جب کبھی ضرور ت ہوتی تھی اللہ تعالیٰ ان برگزیدہ ہستیوںسے وہ اعمال ظاہر کرا دیتا تھا جو کہ عام لوگ نہ کر سکتے تھے اور عام عادت کے خلاف ہوتے تھے۔ ان ہی کو معجزات کہتے تھے۔ معجزات دراصل اللہ تعالیٰ کی بے پناہ طاقت قدرت، صلاحیت کو ظاہر کرتے تھے جس کے ظہور سے لوگ تقابلی انداز سے یہ ماننے پر مائل ہو جاتے تھے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ اس کا حکم ماننا چاہیے جو کہ وہ برگزیدہ ہستی دے رہی ہے۔
اصحاب الفیل کا واقعہ بھی انہی خلاف عادت اعمال و واقعات میں سے ایک ہے جو حضور اکرم ﷺ کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے وقوع پذیر ہوا۔ حضور اکرمﷺ کی زندگی مبارک میں وہ لوگ موجود تھے جو یا تو اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے یا انہوں نے ان چشم دید گواہوں سے ملاقات کی تھی یا ابرہہ کی فوج کے بچے ہوئے لوگوں سے ملے تھے ۔ یہ واقعہ بذات خود اتنا مشہور ہے کہ اس کے نہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا ۔ مگر بعد کے لوگ اس واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ صاحب ایمان لوگ ہر دفعہ اس واقعہ پر ویسے ہی ایمان لاتے رہے ہیں جیسے صدیق اکبر ؓ نے واقعہ معراج کو فورا ً ہی سچ مان لیا، اس لئے کہ انہیں کہنے والے کی زبان پر کُلّی اعتماد اور بھروسہ تھا ۔ اور بعد کی نسلوں کو کلام پاک کے ہر لفظ کی سچائی پر ۔ ان لوگوں کے ساتھ ایسے لوگ بھی بہت ہوتے ہیں جو ہر بات کی عقلی توجیہ چاہتے ہیں ان لوگوں کے علاوہ غیر مسلموں کے اعتراضات کو بھی دلائل سے رد کر نا پڑتا ہے ۔ اس لئے ایسے لوگوں کی تسلی و تشفی کے لئے ان واقعات کو عقلی طور پر ثابت کرنیکی ضرورت ہمیشہ پیش آتی رہتی ہے اور یہ ضرورت حقیقی ہوتی ہے۔
اس لئے معجزات کو دنیاوی تجربات کی روشنی میں تقابلی طریقے سے سمجھانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ جو کہ علوم میں وسعت کی بنا پر بتدریج زیادہ سے زیادہ بار آور ہوتی جا رہی ہیں ۔ ان وضاحتوں سے شک و شبہ کم کرنے ، کتاب اللہ کے واقعات کی صداقت کا یقین کرانے کا مقصد حل ہوتا رہتا ہے۔ اور ایک واقعہ کا ثبوت یا ممکن الوقوع ہونے کا ثبوت دوسرے واقعات پر اعتبار کرنے کا باعث بھی بنتا رہا ہے۔ وسوسوں ، شکوک و شبہات میں کمی اور نتیجتاً یقین کی زیادتی عمل پر ابھارنے کا محرک اور ذریعہ بنتی ہے۔
اس مقصد کے تحت ہی میں نے سورۃ الفیل کو تحقیق و ریسرچ کے لئے چنا۔ سورۃ کا انتخاب کرنے کے بعد اس پر ریسرچ کرنے کے انداز اور طریقہ کے بارے میں سوچا ۔ بڑی سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے میں خود ہی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ کر ذاتی سوچ سے مطلب ڈھونڈنے کی کوشش کروں اور جب میرے اپنے خیالات قریباً ختم ہو جائیں تب کسی تفسیر کا مطالعہ کروں تا کہ شروع میں اس کو پڑھنے سے میری اپنی سوچ پر اس کا اثر نہ پڑے ۔ اس لئے میں نے ان تما م سوالوں کی فہرست بنائی جو سورۃ الفیل کا ترجمہ پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں آئے ۔ ان پر سوچ اور ان کے حل کا سوچنے کے بعد میں نے تفسیر کی طرف رجوع کیا ۔اور تفہیم القرآن کا مطالعہ کیا جو کہ میرے گھر میں موجود تھی۔اس کے بعد دوسری تفاسیر کا ۔اس سے چند اور سوال ذہن میں ابھرے جن کو بھی تحقیق کے لئے شامل کر لیا ۔ ان سوالوں کے جوابات کے طور پر تشریح لکھنی شروع کی ۔ اس لئے اس مقالہ میں ترتیب بھی قریباً وہی ہے جیسے جیسے کہ سوالات ذہن میں آئے ۔ وہ سوالات یہ تھے ۔
ا) اصحاب الفیل کون تھے؟
ب) ان کا دائو کیا تھا جو اللہ تعالیٰ نے غلط کر دیا ؟
ج) وہ کون سے پرندے تھے کہاں سے آئے تھے۔ انہوں نے پتھر کیوں اٹھائے کیسے ان کو پتہ چلا کہ پتھر کہاں گرانے ہیں؟
د) پتھر کیسے تھے۔ کتنے سائز اور وزن کے تھے۔ کس بلندی سے گرائے گئے تھے ان کے اثرات کیا تھے؟
ر) کیا پتھروں سے تما م فوج وہیں تباہ ہو گئی تھی یا بتدریج تباہ ہوئی؟
س) ـ’’بھس کھایا ہوا ‘‘ سے کیا مراد ہے اور ابرھہ کی فوج کو اس کے ساتھ کیسے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟
پہلے دو سوالوں کے جوابات آپ کو سورۃ الفیل کی تفسیر اور تاریخی پسِ منظر میں مل جائیں گے۔ جبکہ باقی سوالات کے بارے میں بحث کی گئی ہے ۔ بہت سے سوالوں کے جوابات تشنہ طلب ہیں ۔ ان کے جوابات مزید تحقیق سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض کے جوابات کا ملنا مشکل ہے۔
بہر صور ت میں نے سورۃ الفیل کی تشریح و توجیہہ کرنے میں جدید سائنسی طریقہ اور انداز اختیار کیا ہے۔ جو کہ موجود ہ نسل کے لوگوں کے طریقوں اور رویے کے عین مطابق ہے۔ جس کا مقصد مسلمانوں کو قرآن پاک سمجھنے میں تمام روایتی علوم و تفسیر کے قاعدون کے ساتھ تمام مختلف جدید علوم کو شامل کرناہے ۔ تا کہ یہ نہ صرف مسلمانوں میں ایمان کی زیادتی کا باعث بنے بلکہ غیر مسلموں کے لئے قرآن پاک میں سوچ کرنے کا ذریعہ بنے ۔شاید اس طرح وہ بھی راہ پا سکیں ۔ ان لوگوں کو قرآن پاک سمجھانے کے لئے ان کے اپنے قبول کردہ اصولوں کے استعمال ہی سے قائل کیا جا سکتا ہے۔
میں اپنی کوشش میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں یہ میں قارئین کرام پر چھوڑ تا ہوں اگر میں اس تجربہ سے دوسرے تعلیم یافتہ اصحاب کو قرآن پاک میں تحقیق کے سائنسی اور جدید طریقوں کواستعمال کرنے کا شوق اختیار کرنے پر ابھار سکا ہوں تو پھر یہ میری حقیر کوشش یقینا رائیگاں نہیں گئی۔ اگر میں جدید علوم کے ماہرین کو صرف اس سوچ پر ہی آمادہ کر سکا ہوں کہ قرآن مجید کو موجودہ علوم کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے تو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔ کیونکہ میرا یہ تجربہ ہے کہ جدید علوم کے پاکستانی ماہرین میں اب دین اسلام سے بے حد لگائو ہے ۔ اور قرآن کی ان آیات کے معانی اور تفسیر میں جن میں ان حضرات کو علم میں مہارت ہے، بہتر طور سے وضاحت کر سکتے ہیں،بہ نسبت علما ء کرام کے ۔لیکن ایسی تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ علماء کرام سے بھی بھر پور استفادہ کیا جائے تا کہ عربی زبان سے ناواقفیت ، دوسرے علوم اسلامی سے گہری واقفیت نہ ہونے سے وضاحت کرتے ہوئے کوئی فاش غلطی نہ ہو جائے ۔ بلکہ اس بحث سے یہ نقطہ نظر زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ تحقیق کے جدید طریقوں میں شخصی تحقیق کی بجائے گروپ تحقیق کا رواج ہونا چاہیے اور ضرورت بھی ہے۔ قرضاوی بھی یہی کہتے ہیں۔” ہر چند کہ زکوٰۃ جیسے اہم امور میں قطعی رائے معلوم کرنے کے لئے اجتماعی اجتہاد کی ضرورت ہے لیکن بہر حال انفرادی تحقیقات سے بھی صحیح اجتماعی اجتہاد کی راہیں منور ہوتی ہیں” ۔ یعنی علماء کرام تحقیق کرنا چاہیں تو انہیں جدید علوم کے ماہرین کو اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے ۔ اسی طرح اگر یہ ماہرین قرآن میں غور کرنا چاہیں تو علماء کرام کو اپنی تحقیق میں شامل کر نا ضروری سمجھیں۔

اصحاب ا لفیل کے تحقیقی کام کے دوران مجھے بڑی شدت سے احساس ہوا ۔ کہ صدیوں کی تقلید اور فکر و تدبر کو چھوڑ دینے کے کتنے اثرات بد ہوئے ہیں۔ اس تحقیق پر ابھارنے پر اگرچہ بنیادی کردار ڈاکٹر اسرار احمد ہی کا ہے اور انہوں نے ہمیں سٹاف کالج میں لیکچر کے دوران صحیح طور پر نصیحت کی تھی کہ ہر مسلمان کو قرآن پاک میں خود بھی غور و فکر اور تحقیق کرنی چاہیے۔ کیونکہ ایک عام آدمی اور مسلمان کا تحقیق کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی عالم کا۔ اس سے کلام پاک کو سمجھنے میں مختلف راہیں کھلیں گی۔ اور آج کل نظر بھی یہی آ رہا ہے۔شاہ ولی اللہ کی بھی یہی نصیحت تھی بلکہ انہوں نے تو مدارس میں بھی یہی طریقہ رائج کیا تھا کہ پہلے کسی کی تفسیر نہ پڑھو کیونکہ وہ پہلے پڑھ لی تو پھر آپ کا ذہن آزاد خیلی سے محرو م ہو جائے گا ۔
اس لئے ، محدود علم کے باوجو،ریسرچ کے مشکل کام میں ہاتھ ڈالنے کی ہمت مندرجہ ذیل مزید وجوہات سے بھی ہو ئی؛۔
فقۃ ا لزکوۃ کے مصنف ، ڈاکٹر یو سف قرضادی صاحب کے اس ریمارک سے” کہ ــاگر چہ اجتہا د اب اجتماعی کام بن گیا ہے پھر بھی ذاتی اجتہاد اجتماعی اجتہاد کی راہیں منور کر سکتاہے۔”
: میں نے علامہ اقبال ؒ کا ایک قصہ پڑھا، جس میں ان کے والد صاحب نے ان کو بتا یا کہ کلام پاک کی سمجھ تب آئے گی اگر اس کو اس طرح پڑھا جائے جیسے کہ پڑھنے والے کے لئے ہی ابھی ابھی یہ نازل ہو رہاہے۔ تا کہ وہ اس پر اسی جذبے سے سمجھنے کے لئے غور و فکراور عمل پر مائل ہو۔ اورعلامہ اقبال کے اس شعر نے “کہ ہر ” ہرفردہے ملت کے مقدرکا ستارہ” یعنی ہر فرد اپنی قوم کے لئے،اپنے ذاتی آیئڈیاز اور خدمات کے ذریعے قوم کے مقدر کو چار چاند لگا سکتا ہے اور اجتماعی بھلائی میں حصہ ڈال سکتا ہے۔اورہر مسلمان ملت کے لیے بڑا کام کر سکتاہے یہ صر ف خواص کا ہی کام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کب کس سے کیا کام لیتاہے یہ اسکی مشیت اور مر ضی پر منحصر ہوتاہے، کسی کا ذاتی کمال نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالی کا قانون ہے کہ” و لا یحیطون بشی من علمہ الا بما شاء۔ اور اس کے علم میں سے کوئی اس کی مرضی اور مشیت کے بغیر احاطہ نہیں کر سکتا۔” اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ آئیڈ یازدئیے ہیں۔یہ اسی کی دین اور فضل و کرم سے ممکن ہو سکاہے۔ اس لئے یہ غور و فکر ۔آئیڈ یازتمام مسلمانو ں کے ساتھ شئیرکر نا ضروری ہے۔
فرشتہ زیاض کے اس خیال سے متفق ہوں “کہ اجتہاد۔ یعنی Intellectiual Struggle ، دراصل ہر سوچ سمجھ رکھنے والے انسان کا حق بھی ہے اور فرض Dutyبھی۔ اس حق کو چھوڑ دینے سے، اعراض یا بچنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسانی فکر ،Thoughtکی ترقی کی آزادی اور اس فکر کی ترقی سے انکار کر رہا ہے۔ اور اس طرح انسانی معاشرہ کی ترقی و بڑھوتری کو عضو معطل بنا رہا ہے اور آخر میں بتدریج اس کوفالج یا Paralysisکا شکار بنا رہا ہے ۔علامہ اقبال تو اسلام میںاجتہاد کے اصو ل کو حر کت کا اصول تصور کرتے ہیں”۔
علامہ ابن قیم کے اس قول سے کہ ’’علم کی کنجی حسن سوال ہے۔ ‘‘(اور اس کا جواب ڈھونڈنا)یعنی اندھی تقلید کی بجائے سوال کے ذریعے علم و تحقیق اور غور و فکر کر کے اطمینان کر لینا چاہیے ۔ ساتھ ساتھ اہل علم و علماء سے استفادہ کرنا بھی ضروری ہے
تہذیبوںکا تصادم ایک حقیقت بن گیا ہے۔،امریکہ کی لیڈرشپ میں یہود،نصاری،ہنود ،کی گروپنگ ، مسلمانوں کے خلاف، اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مصروف عمل ہو چکی ہے۔یہ گروپ،مسلمان ممالک کو ،کسی حال میں، ترقی یافتہ اور طاقت ور بنتا نہیں دیکھ سکتا۔اس لئے اب ہم میں سے ہر ایک کو طاقتور بنانے میں حصہ لینا ہو گا۔یہ تبھی ممکن ہے ،جیسے صاحبزادہ خورشید گیلانی نے نوائے وقت میں ۲۶ مارچ ،۱۹۹۹ میںلکھا تھا؛ہلال و صلیب کا نیا معرکہ ؛۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مولوی اور مسٹر کی تمیز ختم کر کے ہر ایک کو دین کا سپاہی بن جانا چاہئے ۔کوئی تسبیح پرست ہو،کوئی خامہ بگوش ہواور کوئی بیلچہ بردار، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہر ایک کو اپنااپنا مورچہ سنبھال لے ۔اور ایک دوسرے پر تیر اندازی کا شوق دل سے نکال دے۔وفور عشق میں کوئی اپنی حد سے تجاوزنہ کرے ۔یہی گر ہے اپنی اپنی جگہ ذرہ کے آفتاب بننے کا۔ ا سلئے ہمیں بھی اسلام کی نشاۃ ثانہ کو حقیقت بنانے میں علماء کرام کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔
میں ان تمام کتابوں کے مصنفوں، پبلشرز کا بے حد مشکور ہوں جنکے ریفرنس اس کتاب میں استعمال کئے ہیں۔ اورمفتی محمد اسمعیل طورو صاحب کا شکر گزار ہوں کہ ہر موقع پر انہوں نے رہنمائی کی۔ اپنے بھائی بریگیڈیئر (ر) اصغر علی صاحب کا بھی جنہوں نے میرے مسودہ کی پروف ریڈنگ کا مشکل کام کیا اور قیمتی مشورے دئیے۔ اور اُن تمام احباب کا خصوصاً محترم دوست ونگ کمانڈر (ر) حشمت علی خواجہ صاحب اور اپنے بچوں کا جنہوں نے ہروقت میری ہمت افزائی کی۔ ا اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا نظرِکرم فرمائے اور اجر عطا فرمائے۔ آمین۔ گروپ کیپٹن(ر) امتیاز علی

سُورَۃُالفِیلِ مَکَّۃ’‘
بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِO
تو نے دیکھا کیسا کیا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ
اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فَیْ تَضْلِیْلِِ O
نہ کر دیا ان کا دائو غلط
وَّ اَرْ سَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًََا اَبَا بِیْلِO
اور بھیجے ان پر پرندے تنگ تنگ
تَرْ مِیْہِمْ بِحِجَارَۃِِ مِّنْ سِجِّیْلِِO
پھینکتے ان پر پتھریاں کھنگر کی
فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفِِ مَّاکُوْلِِO
پھر کر ڈالا ان کو جیسے بھس کھایا ہوا

ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب
تاج کمپنی لمیٹڈ ۔ کراچی
اس سورۃ کو پڑھنے کے بعد یہ سوالات ذہن میں آتے ہیں۔
ا) ہاتھی والے کون لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟
ب) ان کا دائو کیا تھا جو اللہ تعالیٰ نے غلط کر دیا؟
ج) پرندے کہاں سے آئے کیوں آئے کتنے تھے وہ کس قسم کے پرندے تھے؟
د) کتنے بڑے پتھر یا کنگر تھے ؟ کس قسم کے تھے؟ کیا وہ پرندے اٹھا سکتے تھے؟
ر) بھس کھایا ہوا سے کیا مراد ہے ؟
س) کیا یہ واقعہ ممکن الوقوع ہے؟

تفسیر سورۃ فیل
حاشیہ پر تفسیر از مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؛۔ : یمن کے ملک پر حبشی غالب رہے ۔ ایک مدت دیکھا کہ سارے عرب حج کرتے ہیں کعبہ کا ۔ چاہا کہ سب جمع ہوں ہمارے پاس ۔ کعبے کی نقل ایک کعبہ بنایا ۔ دنیا کا تکلف یہاں سے زیادہ ۔کوئی نہ آیا زیارت کو ۔ جھنجھلا کر فوج چڑھائی کعبہ شریف پر ۔ اور ساتھ لائے کتنے ہاتھی ڈھانے کو ۔ بیچ میں کئی قوم عرب کے مزاحم ہوئے ۔ سب کو مارا ۔ جب حرم کی حد میں پہنچے ۔ آسمان سے جانور آئے سبز ۔ چڑیا برابر ۔ تین تین کنکرلے کر دو پنجوں میں ایک منہ میں ۔ لاکھوں جانور لگے مارنے کنکر چلتے جیسے بندوق کی گولی ۔ اگر اونٹ کے پیٹھ میں لگا پیٹ سے نکلا ۔ آدمی تو کیا چیز ہے ۔ ساری فوج میں ایک نہ بچا ۔ اسی سال میں پیچھے ہمارے حضرت پیدا ہوئے ۔
حاشیہ قرآن مجید
مولانا اشرف علی تھانوی
تاج کمپنی لمیٹڈ

تفسیر تفہیم القرآن ۔ابو الاعلیٰ مولانا مودودی
آیت نمبر 1. چونکہ یہ واقعہ نبوت سے صرف چالیس پینتالیس سال سے زیادہ پہلے کا نہ تھا اور سارا عرب ہی اس کی ایسی متواتر خبریں دیکھنے والوں سے سن چکا تھا کہ یہ واقعہ لوگوں کے لئے آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح یقینی تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تفصیل بیان نہیں کی کہ ہاتھی والے کون تھے ۔ کہاں سے آئے تھے اور کس غرض کے لئے آئے تھے یہ سب باتیں سب کو معلوم تھیں۔
آیت نمبر 2. کید کا مطلب ہے کسی شخص کو نقصان پہنچانے کے لئے خفیہ تدبیر ۔یہاں خفیہ تدبیر سے مراد یہ ہے کہ یہ وہ حبشیوں کی غرض تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھا کر قریش کو کچل کر اور تمام اہل عرب کو مرعوب کر کے تجارت کا وہ راستہ عربوں سے چھین لینا چاہتے تھے جو جنوب عرب سے شام و مصر کی طرف جاتا تھا۔ اس غرض کو انہوں نے چھپا رکھا تھا۔ اور ظاہر یہ کیا تھا کہ ان کے کلیسا کی بے حرمتی عربوں نے کی ہے۔ اور اس کا بدلہ لینے کے لئے وہ کعبہ کو ڈھانے آئے ہیں۔
آیت نمبر 3. فی تضلیل یعنی ان کی تدبیر کو اس نے ’’گمراہی میں ڈال دیا‘‘ یعنی اسے ضائع کر دیا یا ناکام کر دیا۔
آیت نمبر 4. طیرا ً ابابیل یعنی پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ
اردو زبان میں چونکہ ابابیل ایک خاص قسم کے پرندے کا نام ہے اس لئے ہمارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابرہہ کی فوج پر ابابیلیں بھیجی گئی تھیں۔ لیکن عربی زبان میں ابابیل کے معنی یہ ہیں کہ بہت سے متفرق گروہ جو پے در پے مختلف سمتوں سے آئیں خواہ وہ آدمیوں کے ہوں یا جانوروں کے۔
عکرمہ ؓ اور قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ ’’یہ جھنڈ کے جھنڈ پرندے بحرِ احمر کی طرف سے آئے تھے ۔ اور اس طرح کے پرندے نہ پہلے دیکھے گئے تھے اور نہ بعد میں دیکھے گئے۔ یہ نہ نجد کے پرندے تھے نہ حجاز کے اور نہ تہامہ کے (یعنی حجاز اور بحرِاحمر کے درمیانی ساحلی علاقے کے )‘‘
ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ’’ ان کی چونچیں پرندوں جیسی تھیں اور پنجے کتے جیسے ‘‘
عکرمہؓ کا بیان ہے کہ’’ ان کا سر شکاری پرندوں جیسا تھا‘‘
اور تقریباً سب راویوں کا متفقہ بیان ہے کہ ہر پرندے کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا اور پنجوں میں دو دو کنکر ۔
بعض لوگوں کے پاس یہ کنکر ایک مدت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابو نعیم نے نوفل بن ابی معاویہ کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے وہ کنکر دیکھے ہیں جو اصحاب الفیل پر پھینکے گئے تھے۔ وہ مٹر کے دانے کے برابر سیاہی مائل سرخ تھے ۔ ابن عباس ؓ کی راویت ابو نعیم نے نقل کی ہے کہ وہ چلغوزے کے برابر تھے۔ ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ بکری کی مینگنی کے برابر ظاہر ہے کہ سنگریزے ایک جیسے نہ ہونگے ان میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہو گا۔
آیت نمبر 5. بحجار ۃ من سجیل یعنی سجیل کی قسم کے پتھر
ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ لفظ در اصل فارسی کے الفاظ سنگ اور گل (مٹی) کا معرب (عربی) ہے اور اس سے مراد وہ پتھر ہیں جو مٹی کے گارے سے بنا ہو اور پک کر سخت ہو گیا ہو ۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ سورۃ ہود آیت 82اور سورۃ حجر آیت 74میں کہا گیا ہے کہ قوم لوط پر سجیل کی قسم کے پتھر برسائے گئے تھے اور انہی پتھروں کے متعلق سورۃ ذاریات آیت 33میں فرمایا گیا ہے کہ وہ حجارہ من طین یعنی مٹی کے گارے سے بنے ہوئے تھے ۔
آیت نمبر 6. کعصف ماکول عصف کے معنی چھلکے کے ہیں جو غلے کے دانوں پر ہوتا ہے اور جسے کسان دانا نکال کر پھینک دیتے ہیں پھر جانور اسے کھاتے ہیں اور کچھ ان کے چبانے کے دوران میں گرتا بھی ہے اور کچھ ان کے پائوں تلے روند ا جاتا ہے۔

اس نقشے میں ابراہہ کے روٹ کو دکھایا گیا ہے۔

تفسیر تفہیم القرآن
زمانہ نزول
یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے اور اس کے تاریخی پس منظر کو اگر نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو محسوس ہو تا ہے کہ اس کا نزول مکہ معظمہ کے بھی ابتدائی دور میں ہو اہو گا۔
تاریخی پس منظر
ابن ہشام ، طبریٰ ، ابن خلدون اور صاحب مجم البلدان وغیرہ اسلامی مورخین نے واقعہ نجران کو یوں بیان کیا ہے۔ حمیر (یمن) کا بادشاہ تبان اسعد ابو کرب ایک مرتبہ یثرب گیا ۔ جہاں یہودیوں سے متاثر ہو کر اس نے دین یہود قبول کر لیا ور بنی قریظہ کے دو یہودی عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا ۔ وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی۔ اس کا بیٹا زو نواس اس کا جانشین ہوا اور اس نے نجران پر جو جنوبی عرب میں عیسائیوں کا گڑھ تھا حملہ کیا تا کہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کر دے۔ اور اس کے بندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کرے (ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ ؑ کے اصل دین پر قائم تھے)۔ نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین یہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کر دیا ۔ اس پر اس نے بکثر ت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑہوں میں پھینک کر جلوا دیا۔ اور بہت سوں کو قتل کر دیا ۔ یہاں تک کہ مجموعی طور پر 20ہزار آدمی مارے گئے ۔
اہل نجران میں سے ایک شخص ذو ثعلبان بھاگ نکلا اور ایک روایت کی رو سے اس نے قیصر روم کے پاس جا کر اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے ہاں جا کر اس ظلم کی شکایت کی۔ پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشاہ کو لکھا اور دوسرے روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بحری بیڑہ فراہم کرنے کی درخواست کی ۔ بہر حال آخر کار حبش کی 70ہزار فوج ارباط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی ۔ ذونواس مارا گیا ۔ یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا حصہ بن گیا۔
اس واقعہ کو سورہ بروج پارہ 30میں یوں بیان کیا گیا ہے ’’ قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے (اصحاب الدخدود) (اس گڑھے والے) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی ۔ جبکہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے تھے اور جو کچھ ایمان والوں کے ساتھ کر رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے ۔ اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے تھے جو زبر دست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے اور وہ خدا سب کچھ دکھ رہا ہے۔
اسلامی مورخین کے بیانات کی نہ صرف تصدیق دوسرے تاریخی ذرائع سے ہوتی ہے ۔ بلکہ ان سے بہت سی مزید تفصیلات کا پتہ چلتا ہے ۔ یمن پر سب سے پہلے عیسائی حبشیوں کا قبضہ 340؁ء میںہوا تھا۔ اور 378؁ء تک جاری رہا تھا۔ اس زمانے میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونے شروع ہو ئے۔ اسی کے قریب دور میں ایک زاہد ، مجاہد ، صاحب کشف و کرامت عیسائی سیاح فیمیونFaymiyunنامی نجران میں پہنچا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی کی برائی سمجھائی اور اس کی تبلیغ سے اہل نجران عیسائی ہو گئے ۔ ان لوگوں کا نظام تین سردار چلاتے تھے۔ ایک سید جو قبائلی سردار کی طرح بڑا سردار اور خارجی معاملات ، معاہدات اور فوجوں کی قیادت کا ذمہ دار تھا۔ دوسرا عاتب جو داخلی معاملات کا نگران تھا۔ اور تیسرا اسقف (بشپ) جو مذہبی پیشوا ہوتا تھا ۔ جنوبی عرب میں نجران کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ یہ ایک بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز تھا۔ ٹسر، چمڑے ، اور اسلحہ کی صنعتیں یہاں چل رہی تھیں ۔ مشہور حلّہ ء یمانی بھی یہیں تیار ہوتا تھا۔ اسی بنا پر محض مذہبی وجوہ ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی وجوہ سے بھی ذونواس نے اس اہم مقام پر حملہ کیا ۔ نجران کے سید حارثہ کو جسے مریانی مورخین (Arethas) لکھتے ہیں قتل کیا۔ اس کی بیوی روحہ کے سامنے اس کی دو بیٹیوں کو مار ڈالا اور اسے ان کا خون پینے پر مجبور کیا پھر اسے بھی قتل کر دیا ۔ اسقف پال (Paul) کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلا دیں ۔اور آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں عورت، بچے، بوڑھے ، پادری، راہب سب کو پھنکوادیا۔ مجموعی طور پر 40-20ہزار تک مقتولین کی تعداد بیان کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ اکتوبر 523؁ء میں پیش آیا تھا۔ آخر کار 525؁ء میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذونواس اور اس کی حمیری سلطنت کا خاتمہ کر دیا ۔ اس کی تصدیق حصن غراب کے کتبے سے ہوتی ہے۔ جو یمن میں موجودہ زمانہ کے محققین آثار قدیمہ کو ملا ہے۔
چھٹی صدی عیسوی کی متعدد تحریرات میں اصحاب اُخدود کے اس واقعہ کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض عین زمانہ حادثہ کی لکھی ہوئی ہیں اورعینی شاہدوں سے سن کر لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے تین کتابوں کے مصنف اس واقعہ کے ہم عصر ہیں۔ ایک پروکو پیوس ۔ دوسرا کوسماس انڈیکو پلیوٹس (Cosmos Indicopleautus) جو نجاشی ایلس بواں (Elesboan) کے حکم سے اس زمانے میں بطیلموس کی یونانی کتابوں کا ترجمہ کر رہا تھا۔ اور حبش کے ساحلی شہر اڈولیس (Adolis) میں مقیم تھا تیسرا یوحنس ملالا (Johannes Malala)جس سے بعد کے متعدد مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ اس کے بعد یوحنس افسوس (Johannes of Ephesus) متوفی 585؁ء نے اپنی تاریخ کینسہ میں نصاریٰ نجران کے عذاب کا قصہ اس واقعہ کے معاصر راوی اسقف مار شمعون (Simeon) کے ایک خط سے نقل کیا ہے۔ جو اس نے دیر جبلہ کے رئیس ایبٹ وان گبولا (Abbot Von Gabula) کے نام لکھا تھا اور مار شمون نے اپنے خط میں یہ واقعہ ان اہل یمن کے آنکھوں دیکھے بیان سے روایت کیا ہے ۔ جو اس موقع پر موجود تھے۔ یہ خط 1888؁ء میں روم سے اور 1890؁ء میں شہدائے مسیحیت کے حالات کے سلسلے میں شائع ہوا ہے۔ یعقوبی بطریق ڈایونیسیوس (Patriarch Dionusius) اور زکریا مدللی (Zacharia of Mitylene) نے اپنی سریانی تاریخوں میں بھی اس واقعہ کی نقل کیا ہے۔ یعقوب سروجی کی کتاب درباب نصاریٰ نجران میں بھی یہ ذکر موجود ہے ۔ الرّھا (Edessa)کے اسقف پولس (Polus)نے نجران کے ہلاک شد گان کا مرثیہ لکھا جو اب بھی دستیاب ہے ۔ سریانی زبان کی کتاب الحمسریین کا انگریزی ترجمہ (Book of the Himyarites) 1924؁ء میں لندن سے شائع ہوا ہے۔ اور وہ مسلمان مورخین کے بیان کی تصدیق کرتا ہے ۔ برٹش میوزیم میں اس عہد اوراس سے قریبی عہد کے کچھ حبشی مخطوطات بھی موجود ہیں۔ جو اس قصے کی تائید کرتے ہیں۔ فلبی نے اپنے سفر نامے (Arabian Highlands)میں لکھا ہے کہ نجران کے لوگون میں اب تک وہ جگہ معروف ہے جہاں اصحاب اخدود کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ امّ خرق کے پاس ایک جگہ چٹانوں میں کھدی ہوئی کچھ تصویریں بھی پائی جاتی ہیں۔ اور کعبہ نجران جس جگہ واقع تھا اس کو بھی آج کل کے اہل نجران جانتے ہیں۔
حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی شکل کی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبہ کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے۔ اس کے اساقفہ عمامہ باندھتے تھے اور اس کو حرم قرار دیا گیا تھا۔ رومی سلطنت بھی اس کعبہ کے لئے مالی اعانت بھیجتی تھی۔ اسی کعبہ نجران کے پادری اپنے سیّد ، عاتب اور اسقف کی قیادت میں مناظرے کے لئے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ۔ اور مباہلہ کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورہ آل عمران آیت نمبر 61میں کیا گیا ہے۔ (فتح مکہ کے بعد جب تمام اہل عرب کو یقین ہو گیا کہ اب ملک کا مستقبل حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ میں ہے تو عرب کے مختلف گوشوں سے وفد آپ کے پاس آنے لگے۔ اس سلسلے میں نجران کے تینوں عیسائی سردار بھی 60آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینے پہنچے ۔جنگ کے لئے بہر حال وہ تیار نہ تھے ۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ نجران کا علاقہ جو کہ حجاز اور یمن کے درمیان واقع ہے، 73بستیوں پر مشتمل تھا اور ایک لاکھ 20ہزار قابل جنگ مرد اس میں سے نکل سکتے تھے ۔ اس موقع پر ان لوگوں کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا وہ اسلام قبول کرتے ہیں یا ذمی بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آل عمران آیت 33سے یہ خطبہ نازل کیا تا کہ اس کے ذریعے سے وفدِ نجران کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے ۔ا س کے نزول کا زمانہ 9ھ کاتھا۔
525؁ء میں اس پورے علاقے پر حبشی حکومت قائم کرنے کی یہ ساری کاروائی در اصل قسطنطنیہ کی رومی سلطنت اور حبش کی حکومت کے باہم تعاون سے ہوئی تھی۔ کیونکہ حبشیوں کے پاس اس وقت کوئی قابل ذکر بحری بیڑہ نہ تھا۔ بیڑا رومیوں نے فراہم کیا تھا۔ اور حبش نے اپنی 70ہزار فوج اسی کے ذریعہ سے یمن کے ساحل پر اتاری۔ آگے کے معاملات سمجھانے اور سمجھنے کے لئے یہ بات ابتدا ہی میں جان لینی چاہیے کہ یہ سب کچھ مذہبی جذبے سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے معاشی و سیاسی اغراض بھی کام کر رہی تھیں۔ بلکہ غالباً وہی اس کی اصل محرک تھیں۔ اور عیسائی مظلومین کے خون کا انتقام ایک بہانے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ رومی سلطنت جب سے مصر و شام پر قابض ہوئی تھی اسی وقت سے اس کی یہ کوشش تھی کہ مشرقی افریقہ ہندوستان ، انڈونیشیا وغیرہ ممالک اور رومی مقبوضات کے درمیان جس تجارت پر عرب صدیوں سے قابض چلے آرہے تھے اسے عربوں کے قبضے سے نکال کر وہ خود اپنے قبضے میں لے لے۔ تا کہ اس کے منافع پورے کے پورے اسی کو حاصل ہوں اور عرب تاجروں کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے ۔ اس مقصد کے لئے 24؁ء یا 25؁ء قبل مسیح میں قیصر آگسٹس نے ایک بڑی فوج رومی جنرل ایلیس گالوس Aelius Gallus کی قیادت میں عرب کے مغربی ساحل پر اتار دی تھی تا کہ وہ اس بحری راستے پر قابض ہو جائے جو جنوبی عرب سے شام کی طرف جاتا تھا لیکن عرب کے شدید جغرافیائی حالات نے اس مہم کو ناکام کر دیا ۔ اس کے بعد رومی اپنا جنگی بیڑہ بحر احمر پر لے آئے ۔ اور انہوں نے عربوں کی اس تجارت کو ختم کر دیا جو وہ سمندر کے راستے کرتے تھے اور صرف بری راستے ان کے لئے باقی رہ گئے ۔ اس بری راستہ کو قبضے میں لینے کے لئے انہوں نے حبش کی عیسائی حکومت سے گٹھ جوڑ کیا اور بحری بیڑے سے اس کی مدد کر کے اس کو یمن پر قابض کر وا دیا۔
یمن پر جو حبشی فوج حملہ آور ہوئی تھی اس کے متعلق عرب مورخین کے بیانات مختلف ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ وہ دو امیروں کی قیات میں تھی ایک اریاط اور دوسرا ابرھہ۔ محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ اس فوج کا امیرا ریاط تھا اور ابرھہ اس میں شامل تھا۔ ابرھہ ملک پر قابض ہو گیا۔ اور پھراس نے شاہ حبش کو اس پر راضی کر لیا کہ وہ اسی کو یمن پر اپنا نائب مقرر کر دے۔ اس کے برعکس یونانی اور سریانی مورخین کا بیان ہے کہ فتح یمن کے بعد جب حبشیوں نے مزاحمت کرنے والے یمنی سرداروں کو ایک ایک کر کے قتل کرنا شروع کیا تو ان میں ایک سردار السُّمیفح اشوع (جسے یونانی Esymphaeausلکھتے ہیں) نے حبشیوں کی اطاعت قبول کر کے اور جزیہ ادا کرنے کا عہد کر کے شاہ حبش سے یمن کی گورنری کا پروانہ حاصل کر لیا۔ لیکن حبشی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور ابرھہ کو اس کی جگہ گورنر مقرر کر لیا۔ یہ شخص حبشہ کی بندرگاہ، ادولیس کے ایک یونانی تاجر کا غلام تھا۔ جو اپنی ہشیاری سے یمن پر قبضہ کرنے والی حبشی فوج میں بڑا اثر و رسوخ حاصل کر گیا تھا۔ شاہ حبش نے اس کی سرکوبی کے لئے جو فوجیں بھیجی تھیں وہ یا تو اس سے مل گئیں یا اس نے ان کو شکست دے دی۔ آخر کار شاہ حبش کے مرنے کے بعد اس کے جانشین نے اس کو یمن پر اپنا نائب سلطنت تسلیم کر لیا۔ (یونانی مورخین اس کا نام ابرامس Abramesاور سریانی مورخین ابراھام Abrahamلکھتے ہیں) ابرھہ غالبا ً اسی کا حبشی تلفظ ہے کیونکہ عربی میں تو اس کا تلفظ ابراہیم ہے)۔
یہ شخص رفتہ رفتہ یمن کا خود مختار بن گیا ۔ مگر برائے نام اس نے شاہ حبش کی بالا دستی قائم رکھی تھی اور اپنے آپ کو مفوض الملک (نائب شاہ ) لکھتا تھا۔ اس نے جو اثر و رسوخ حاصل کر لیا تھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ جب 543؁ء میں وہ سدّمارب کی مرمت سے فارغ ہوا۔ تو اس نے ایک عظیم الشان جشن منایا جس میں قیصر روم ، شاہ ایران، شاہ حیرہ اور شاہ غسان کے سفیر شریک ہوئے ۔ اس کا مفصل تذکرہ اس کتبے میں درج ہے جو ابرھہ نے سد مارب پر لگایا تھا۔ یہ کتبہ آج بھی موجود ہے اور گلیزر (Glaser)نے اس کو نقل کیا ہے۔
تاریخ کی رو سے ’سبا ‘جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی بہت قدیم زمانے سے دنیا میں عرب کی اس قوم کا شہرہ تھا۔ 2500؁ء قبل مسیح سے اور پھر زبور اور بائبل میں بھی کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے یونان و روم کے مورخین بھی 288؁ء قبل مسیح سے مسیح کے بعد کی کئی صدیوں تک اس کا ذکر کرتے گئے ہیں۔ اس کا وطن عرب کا جنوبی مغربی کونہ تھا جو آج یمن کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کے عروج کا دور گیا رہ سو قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ آغاز میںیہ ایک آفتاب پرست قوم تھی مگر جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان 926-965)ق م( کے ہاتھ پر ایمان لے آئی ۔ تو اغلب یہ ہے کہ اس کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی مگر بعد میں نا معلوم وجوہات کی بنا پر شرک و بت پرستی کا پھر زور ہو گیا۔ اس کی ترقی کے ادوار یہ ہیں ۔ 65ق م سے پہلے کا دور۔ اس دور میں بادشاہ عام طور پر کاہن بادشاہ تھے یا (Priest Kings)تھے جو انسانوں اور خدائوں کے درمیان اپنے آپ کو واسطہ قرار دیتے تھے ۔اسی دور میں مارب کے مشہور بند کی بنیا د رکھی گئی جو وقتاً فوقتاً مختلف بادشاہ وسیع کرتے گئے دوسرا دور 650ق م سے 115ق م تک کا دور ہے ۔ اس دور میں بادشاہوں نے ملک (بادشاہ) کا لقب اختیار کیا۔ اس زمانے میںدارالحکومت کو صرواح سے تبدیل کر کے مارب لے آیا گیا۔ یہ مقام سمندر سے 3900فٹ کی بلندی پر صفاء سے 60میل جانب مشرق واقع ہے ۔ اور آج تک اس کے کھنڈر شہادت دے رہے ہیں کہ یہ کبھی ایک بڑی متمدن قوم کا مرکز تھا۔ تیسرا دور 115ق م سے 300؁ء تک کا دور ہے اسی دور میں پہلی مرتبہ اس خطے کا نام یمنت اور یمنات استعمال ہوا جو رفتہ رفتہ یمن مشہور ہو گیا ۔ یعنی عیسر سے عدن تک اور باب المندب سے حضر موت تک ۔ اس دور میں سبائیوں کا زوال شروع ہوا۔ چوتھا دور 300؁ء سے آغاز اسلام تک کا دور ہے۔ اس میں سبائیوں کے یہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں ۔ بیرونی قوموں کی مداخلت ہوئی۔ اور تجارت برباد ہوئی ۔زراعت نے دم توڑ دیا ۔ آخر کار آزادی تک ختم ہو گئی ۔ 340؁ء سے 378؁ء تک یمن پر حبشیوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ پھر آزادی بحال ہوئی تو مآرب کے مشہور بند میں رخنے پڑنے شروع ہو گئے ۔ یہاں تک کہ آخر کار 450؁ء تا 451؁ء میں بند کے ٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آگیا جس کا ذکر سورۃ سبا میں ذکر کیا گیا ہے۔ (سبا کے لئے ان کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی ۔دو باغ دائیں اور بائیں۔ کہا ہم نے کہ کھائو اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لائو اس کا ۔ ملک ہے عمدہ ، پاکیزہ اور پروردگا ر ہے بخشش فرمانے والا مگر وہ منہ موڑ گئے آخر کار ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا۔ اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دئیے جن میں کڑوے کیلے پھل اور جھاڑ کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی بیریاں ۔ یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا۔ اور نا شکرے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے ۔ آیت 15-16سورۃ سبا)

اگر چہ اس کے بعد ابرھہ کے زمانے تک اس بند کی مسلسل مرمتیں ہوتی رہیں لیکن جو آبادی ایک دفعہ منتشر ہو گئی وہ پھر جمع نہ ہو سکی اور آب پاشی زراعت کا جو نظام درہم برہم ہوا تو دوبارہ بحال نہ ہو سکا۔
قوم سبا کا عروج در اصل دو بنیادوں پر قائم تھا ۔ ایک زراعت دوسرا تجارت ۔ زراعت کو انہوں نے آب پاشی کے ایک بہترین نظام کے ذریعہ سے ترقی دی تھی جس کے مثل کوئی دوسرا نظام آب پاشی بابل کے سوا قدیم زمانے میں کہیں نہ پایا جاتا تھا۔ ان کی سر زمین میں قدرتی دریا نہ تھے ۔ بارش کے زمانے میں پہاڑوں سے برساتی نالے بہ نکلتے تھے۔ انہی نالوں پر سارے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر انہوں نے تالاب بنا لئے تھے۔ اور ان سے نہریں نکال کر پورے ملک کو سیراب کرتے تھے۔ سب سے بڑا شہر مارب کے قریب کوہ بلق کی درمیانی وادی میں بند باندھ کر تیار کیا گیا تھا۔

تجارت کے لئے خدا نے اس قوم کو بہترین جغرافیائی مقام عطا کیا تھا۔ جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا ۔ ایک ہزار برس سے زیادہ مدت تک یہی قوم مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ایک طرف ان کے بندرگاہوں میں چین کا ریشم ، انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالحے ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں ، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام ، بندر ، شتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے اور دوسری طرف یہ ان چیزوں کو مصر اور شام کی منڈیوں میں پہنچاتے تھے جہاں سے روم و یونان تک یہ مال روانہ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ خود ان کے علاقے میں لوبان، عود ،عنبر ، مشکہ ، مر، قرضہ، قصب الزریرہ ، سلیخہ اور دوسری خوشبودار چیزوں کی بڑی پیداوار تھی۔ جنہیں شام و مصر اور روم و یونان کے لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔
اس عظیم الشان تجارت کے دو بڑے راستے تھے ایک بحری اور دوسرا بری۔ بحری تجارت کا اجارہ ہزار سال تک انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھا۔ کیونکہ بحر احمر کی موسمی ہوائیں ، زیر آب چٹانوں اور لنگر اندازی کے مقامات کا راز یہی لوگ جانتے تھے۔ اور دوسری کوئی قوم اس خطر ناک سمندر میں جہاز چلانے کی ہمت نہ رکھتی تھی۔ اس بحری راستے سے یہ لوگ اردن ، مصر کی بندرگاہوں تک اپنا مال پہنچایا کرتے تھے۔ بری راستے عدن اور حضر موت سے مارب پر جا کر ملتے تھے اورپھر وہاں سے ایک شاہراہ مکہ ، جدہ، یثرب ، العلاء ، تبوک اور املیہ سے گزر تی ہوئی پٹرا تک پہنچتی تھی۔ اس کے بعد ایک راستہ مصر کی طرف اور دوسرا راستہ شام کی طرف جاتا تھا۔ اس بری راستے پر جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے ۔ سے حدود شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم تھیں اور شب و روز تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے رہتے تھے۔ آج تک ان میں سے بہت سی نو آبادیوںکے آثار موجود ہیں اور وہاں سبائی و حمیری زبان کے کتبے مل رہے رہیں۔ (سورۃ سبا ۔ اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی (شام و فلسطین ) وہاں بستیاں بسا دی تھیں۔ اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں۔ چلو پھر و ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ۔ مگر انہوں نے کہا اے ہمارے رب ۔ ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کر دے ‘‘ انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا آخر کار ہم نے انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا ۔ اور انہیں تتر بتر کر ڈالا۔ یقینا اس میں نشانیان ہیں ہر اس شخص کے لئے جو بڑا صابر و شاکر ہے۔ آیت 18, 19)۔
پہلی صدی عیسوی کے لگ بھگ زمانے میںاس تجارت کو زوال آنا شروع ہو گیا ۔ مشرق اوسط میں جب یونانیوں اور پھر رومیوں کی طاقت ور سلطنتیں قائم ہوئیں تو شور مچنا شروع ہو ا کہ عرب جو اپنی اجارہ داری کے باعث مشرق کے اموال تجارت کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم خود اس میدان میں آگے بڑھ کر اس تجارت پر قبضہ کر لیں۔ اس غرض کے لئے سب سے پہلے مصر کے یونانی الاصل فرمانروا ، بطیلموس ثانی 246-285)ق م) نے اس قدیم نہر کو پھر سے کھولا جو 17سو برس پہلے فرعون سیسو ستیر لیس نے دریائے نیل کو بحر احمر سے ملانے کے لئے کھدوائی تھی اس نہر کے ذریعے سے مصر کا بحری بیڑہ پہلی مرتبہ بحر احمر میں داخل ہوا ۔ لیکن سبائیوں کے مقابلے میں یہ کوششیں زیادہ کا رگر نہ ہو سکیں۔ پھر جب مصر پر روم کا قبضہ ہو گیا ۔ تو رومی زیادہ طاقت ور بیڑا بحر احمر میں لے آئے ۔ اور اس کی پشت پر انہوں نے جنگی بیڑا بھی لا کر ڈال دیا ۔ اس طاقت کا مقابلہ سبائیوں کے بس میں نہ تھا۔ رومیوں نے جگہ جگہ بندرگاہوں پر اپنی تجارتی نو آبادیاں قائم کیں ان میں جہازوں کی قیام کی گزر گاہیں قائم کیں ۔ اور جہاں ممکن ہوا وہاں اپنے فوجی دستے بھی رکھے۔ حتیٰ کہ ایک وقت آ گیا کہ عدن پر رومیوں کا فوجی تسلط قائم ہو گیا۔ اسی سلسلے میں رومی اور حبشی سلطنتوں نے سبائیوںکے مقابلے میں باہم ساز باز بھی کر لیا۔ جس کی بدولت بالآخر اس قوم کی آزادی تک ختم ہو گئی۔
بحری بیڑہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد صرف بری تجار ت سبائیوں کے پاس رہ گئی تھی ۔ مگر بہت سے اسباب نے رفتہ رفتہ اس کی کمر بھی توڑ دی ۔ پہلے نبطیوں نے پیٹرا سے العلا ء تک بالائی حجاز اور اردن کی تمام نو آبادیوں سے سبائیوںکو نکال باہر کیا۔ پھر 106؁ء میں رومیوں نے نبطی سلطنت کا خاتمہ کیا اور حجاز کی سرحد تک شام و اردن کے تمام علاقے ان کے مضبوط ہاتھوں میں چلے گئے ۔ اس کے بعد حبش اور ادم کی متحدہ کوشش یہ رہی کہ سبائیوں کی باہمی کشمکش سے فائدہ اٹھا کر ان کی تجارت کو بالکل تباہ کر دیا جائے اسی بنا پر حبشی بار بار یمن میں مداخلت کرتے رہے یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب نے اس قوم کو انتہائی عروج سے گرا کر اس گڑھے میں پھینک دیا جہاں سے پھر کوئی مغضوب قوم کبھی سر نہیں نکال سکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس کی دولت کے افسانے دور دور تک سنائے جاتے تھے۔ اور یونان و روم والوں کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔ اسٹرابو لکھتا ہے کہ یہ لوگ سونے اور چاندی کے برتن استعمال کرتے ہیں۔ اور ان کے مکانوں کے چھتوں دیواروں اور دروازوں تک میں ہاتھی دانت ، سونے چاندی اور جواہر کا کام بنا ہوا ہوتا تھا۔ پلینی لکھتا ہے کہ روم و فارس کی دولت ان کی طرف بہی چلی جاتی ہے۔ یہ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم تھی۔ اور ان کا سر سبز شاداب ملک باغات کھیتوں اور مواشی سے بھرا ہوا ہے آر ۔ ٹی ، میڈورس کہتا ہے کہ یہ لوگ عیش میں مست ہو رہے ہیں۔ اور جلانے کی لکڑی کی بجائے دار چینی ، صندل ،اور دوسری خوشبودار لکڑیاں جلاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے یونانی مورخ روایت کرتے ہیں۔ کہ ان کے علاقے کے قریب سواحل سے گزرتے ہوئے جہازوں تک خوشبو کی لپیٹیں پہنچتی تھیں۔ انہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ صفا کے بلند پہاڑی مقام پر وہ فلک شکاف عمارت (Skyscraper)تعمیر کی جو قصر غمدان کے نام سے صدیوں تک مشہور رہی ہے۔ عرب مورخین کا بیان ہے کہ اس کی 20منزلیں تھیں اور ہر منزل 36فٹ بلند تھی ۔ یہ سب کچھ بس اس وقت تک رہا جب تک اللہ کا فضل ان کے شامل حال رہا ۔ آخر کار جب انہوں نے کفران نعمت کی حد کر دی تو رب قدیر کی نظر عنایت ہمیشہ کے لئے ان سے پھر گئی اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔
یمن میں پوری طرح اپنا اقتدار مضبوط کر لینے کے بعد ابرھہ نے اس مقصد کے لئے کام شروع کر دیا جو اس مہم کو ابتدا سے رومی سلطنت اور اس کے حلیفوں حبشی عیسائیوں کے پیش نظر تھا۔ یعنی ایک طرف عرب میں عیسائیت پھیلانا اور دوسری طرف اس تجارت پر قبضہ کرنا جو بلاد مشرق اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ یہ ضرورت اس بنا پر اور بھی بڑھ گئی تھی کہ ایران کی سامانی سلطنت کے ساتھ روم کی کشمکش اقتدار نے بلادِ مشرق سے رومی تجارت کے دوسرے تمام راستے بند کر دئیے تھے۔
ابرھہ نے اس مقصد کے لئے یمن کے دار السطلنت صنعا میں ایک عظیم الشان کلیسا تعمیر کرایا جس کاذکر عرب مورخین نے القَلیس یا القُلیس کے نام سے کیا ہے (یہ یونانی لفظ Ekklesiaکا معرب ہے اور اردو کا لفظ کلیسا بھی اسی یونانی لفظ سے ماخوذ ہے) محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ اس کام کی تکمیل کے بعد اس نے شاہ حبش کو لکھا کہ میں عربوں کا حج کعبہ سے اس کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہیں رہوں گا۔ (یمن پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے بعد عیسائیوں کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کعبہ کے مقابلے میں ایک دوسرا کعبہ بنائیں اور عرب میں اس کی مرکزیت قائم کردیں۔ چنانچہ انہوں نے نجران میں بھی ایک کعبہ بنایا تھا۔)
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس نے یمن میں علی الاعلان اپنے اس ارادے کا اظہار کیا اور اس کی منادی کرا دی۔ اس کی اس حرکت کا مقصد ہمارے نزدیک یہ تھا کہ عربوں کو غصہ دلائے تا کہ وہ کوئی ایسی کاروائی کریں جس سے اس کو مکہ پر حملہ کرنے اور کعبے کو منہدم کر دینے کا بہانہ مل جائے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اس کے اس اعلان پر غضب ناک ہو کر ایک عرب نے کسی نہ کسی طرح کلیسا میں گھس کر رفع حاجت کر ڈالی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ فعل ایک قریشی نے کیا تھا۔ اور مقاتل بن سلیمان کی روایت ہے کہ قریش کے بعض نوجوانوں نے جا کر اس کلیسا میںآگ لگا دی تھی۔ ان میں سے کوئی واقع بھی اگر پیش آیا ہو تو کوئی قابل تعجب بات نہیں ہے کیونکہ ابرھہ کا یہ اعلان یقینا سخت اشتعال انگیز تھا اور قدیم جاہلیت کے دور میں اس پر کسی عرب یا قریشی یا چند قریشی نوجوانوں کا مشتعل ہو کر کلیسا کو گندا کر دینا یا اس میں آگ لگا دینا کوئی نا قابل فہم بات نہیں ہے ۔ لیکن یہ بھی کچھ بعید نہیں ہے کہ ابرھہ نے خود اپنے کس آدمی سے خفیہ طور پر ایسی کوئی حرکت کرائی ہو تا کہ اسے مکہ پر چڑھائی کرنے کا بہانہ مل جائے اور اس طرح وہ قریش کو تباہ اور تمام اہل عرب کو مرعوب کر کے اپنے دونوں مقصد حاصل کر لے بہر حال دونوں صورتوں میں سے جو صور ت بھی ہو جب ابرھہ کے پاس یہ رپورٹ پہنچی کہ کعبے کے متقدمین نے اس کلیسا کی یہ توہین کی ہے تو اس نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین نہ لوں گا جب تک کعبہ کو ڈھا نہ دوں گا۔

اس کے بعد وہ 570؁ء تا 571؁ عیسوی میں 60ہزار فوج اور 13ہاتھی (اور بروایت بعض 9ہاتھی) لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا ۔ راستے میں پہلے یمن کے ایک سردار ذونفر نے عربوں کا ایک لشکر جمع کر کے اس کی مزاحمت کی مگر وہ شکست کھا کر گرفتار ہو گیا پھر خشعم کے علاقے میں ایک عرب سردار نُفَیل بن جیب خشعمی اپنے قبیلے لے کر مقابلے پر آیا مگر وہ بھی شکست کھا کر گرفتار ہو گیا ۔ اور اس نے اپنی جان بچانے کے لئے بدرقے کی خدمت انجام دینا قبول کر لیا ۔ طائف کے قریب پہنچا تو بنی ثقیف نے محسوس کیا کہ ا تنی بڑی طاقت کا وہ مقابلہ نہ کر سکیں گے اور ان کو خطرہ لا حق ہوا کہ کہیں وہ ان کے معبود لات کا سر بھی تباہ نہ کر دے۔ چنانچہ قریش کا سردار مسعود ایک وفد لے کر ابرھہ سے ملا اور اس نے کہا کہ ہمارا بت کدہ وہ معبد نہیں ہے جسے آپ ڈھانے کے لئے آئے ہیں۔ وہ تو مکہ میں ہے اس لئے آپ ہمارے معبد کو چھوڑ دیں ۔ ہم مکہ کا راستہ بتانے کے لئے آپ کو بدرقہ (رہنما ) فراہم کئے دیتے ہیں۔ ابرھہ نے یہ بات قبول کر لی اور بنی ثقیف نے ابو رخال نامی ایک شخص کو اس کے ساتھ کر دیا جب مکہ تین کوس رہ گیا تو المخمس نامی مقام پرپہنچ کر ابو رخال مر گیا ور عرب مدتوں تک اس کی قبر پر سنگ بازی کرتے رہے۔ بنی ثقیف کو بھی وہ سالہا سال تک طعنے دیتے رہے کہ انہوں نے لات کے مندر کو بچانے کے لئے بیت اللہ پر حملہ کرنے والوں سے تعاون کیا۔
محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ المخمس سے ابرھہ نے اپنے مقدمۃ الجیش کو آگے بڑھایا اور وہ اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی لوٹ لے گیا جن میں رسول اللہ کے دادا عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ تھے اس کے بعد اس نے اپنے ایک یلچی کو مکہ بھیجا اور اس کے ذریعے سے اہل مکہ کو یہ پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر (کعبہ ) کو ڈھانے آیا ہوں۔ اگر تم نہ لڑو تو میں تمہاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا۔ نیز اس نے اپنے یلچی کو ہدایت کی کہ اہل مکہ اگر بات کرنا چاہیں تو ان کے سردار کو میرے پاس لے آنا ۔ مکے کے سب سے بڑے سردار اس وقت عبدالمطلب تھے۔ ایلچی نے ان سے مل کر ابرھہ کا پیغام پہنچا یا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں ابرھہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے ۔ وہ چاہے گا تو اس گھر کو بچا لے گا۔ ایلچی نے کہا کہ آپ میرے ساتھ ابرھہ کے پاس چلیں ۔ وہ اس پر راضی ہو گئے ۔ اور اس کے ساتھ چلے گئے ۔ وہ اس قدر وجہیہ اور شاندار شخص تھے کہ ان کو دیکھ کر ابرھہ بہت متاثر ہوا ۔ اور اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔ پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ا۔نہوں نے کہا کہ میرے جو اونٹ پکڑ لئے گئے ہیں وہ مجھے واپس کر دئیے جائیں۔ ابرھہ نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر تو میں بہت متاثر ہو ا تھا مگر آپ کی اسی بات نے آپ کو میری نظر سے گرا دیا ہے کہ آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ گھر جو آپ کا اور آپ کے دین آبائی کا مرجع ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ۔ انہوں نے کہا میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اپنی چیز کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں ۔ رہا یہ گھر تو اس کا ایک رب ہے، وہ اس کی خود حفاظت کر ے گا۔ ابرھہ نے جواب دیا وہ اس کو مجھ سے نہ بچا سکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا آپ جانیں اور وہ جانے۔ یہ کہ کر وہ ابرھہ کے پاس سے اُٹھ آئے اور اس نے ان کے اونٹ واپس کر دئیے۔
ابن عباس کی روایت اس سے مختلف ہے اس میں اونٹوں کے مطالبے کا کوئی ذکر نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ جب ابرھہ القیضاح کے مقام پر پہنچا (جو عرفات اور طائف کے پہاڑوں کے درمیان حدود حرم کے قریب واقع ہے) تو عبدالمطلب خود اس کے پاس گئے اور اس سے کہا ۔ آپ کو یہاں تک آنے کی کیا ضرورت تھی ۔ آپ کو اگر کوئی چیز مطلوب تھی تو ہمیں کہلا بھیجتے ہم خود لے کر آپ کے پاس حاضر ہو جاتے۔ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے یہ گھر امن کا گھر ہے ۔ میں اس کا امن ختم کرنے آیا ہوں۔ عبدالمطلب نے کہا یہ اللہ کا گھر ہے آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں کیا اور نہ ہونے دیا ہے۔ ابرھہ نے جواب دیا ۔ ہم اسے منہدم کئے بغیر نہ پلٹیں گے۔ عبدالمطلب نے کہا آپ جو کچھ چاہیں ہم سے لے لیں اور واپس چلے جائیں۔ مگر ابرھہ نے انکار کر دیا اور عبدالمطلب کو پیچھے چھوڑ کر اپنے لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔

دونوں روایتوںکے اس اختلاف کو اگر ہم اپنی جگہ رہنے دیں اور کسی کو کسی پر ترجیح نہ دیں تو ان میں سے جو صورت بھی پیش آئی ہو بہر صورت یہ امر بالکل واضح ہے کہ مکہ اور اس کے آس پاس کے قبائل اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اس لئے یہ بالکل قابل فہم بات ہے کہ قریش نے اس کی مزاحمت بالکل نہ کی۔ اور نہ کوشش کی ۔ قریش کے لوگ تو جنگ احزاب میں مشرک اور یہودی قبائل کو ملا کر زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار کی جمیعت فراہم کر سکے تھے۔ وہ 60ہزار کا مقابلہ کیسے کر سکتے تھے۔
محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ابرھہ کی لشکر گاہ سے واپس ہو کر عبدالمطلب نے قریش والوں سے کہا کہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تا کہ ان کا قتل عام نہ ہو۔ پھر وہ اور قریش کے چند سردار حرم میں حاضر ہوئے اور کعبے کے دروازے کا کنڈا پکڑ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر اور اس کے خادموں کی حفاظت فرمائے۔ اس وقت خانہ کعبہ میں 360بت موجود تھے۔ مگر یہ لوگ اس نازک گھڑی میں ان سب کو بھول گئے اور انہوں نے صرف اللہ کے آگے دستِ سوال پھیلایا ان کی جو دعائیں تاریخوں میں منقول ہیں ان میں اللہ واحد کے سوا کسی دوسرے کا نام تک نہین پایا جاتا۔ ابن ہشام نے سیرت میں عبدالمطلب کے جو اشعار نقل کئے ہیں وہ یہ ہیں۔
لاھم ان العبد یمنع رحلہ نا منع ملالک خدایا بندہ اپنے گھر کی حفاظت کر تا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما۔
لا یغلبین صلیبھم و محالھم عدداً محالک کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیرتیری تدبیر کے مقابلے میں غالب نہ
آنے پائے۔
ان کنت قارکھم و قیلتنا قاصر ھم بدالک اگر تو ان کو اور ہمارے قبیلے کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہتا ہے تو جو تو چاہے
کر سبیلی نے روض الانف میں اس سلسلے کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے۔
دارلفر نا علی آل العلیب و عابدیہ الیوم آلک
صلیب کی آل اور اس کے پرستاروں کے مقابلے میں آج اپنی آل کی مدد فرما۔
ابن جریر نے عبدا لمطلب کے اشعار بھی نقل کئے ہیں جو اس موقع پر دعا مانگتے ہوئے انہوں نے پڑھے تھے۔
اے میرے رب تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا ۔
اے میرے رب ان سے اپنے حرم کی حفاظت کر اس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے۔
اپنی بستی کو تباہ کرنے سے ان کو روک۔
یہ دعائیں مانگ کر عبدالمطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑو ں میں چلے گئے اور دوسرے روز ابرھہ مکے میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھا ۔ مگر اس کا خاص ہاتھی محمود جو آگے آگے تھا ۔ یکا یک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تبر مارے گئے آنکھوں سے کچھوکے دئیے گئے یہاں تک کہ اسے زخمی کر دیا گیا مگر وہ نہ ہلا۔ اسے جنوب ، شمال مشرق، کی طرف موڑ کر چلانے کی کوشش کی جاتی تو وہ دوڑنے لگتا ۔ مگر مکے کی طرف موڑا جاتا تو وہ فوراً بیٹھ جاتا ۔ اور کسی طرح آگے بڑھنے کے لئے تیار نہ ہوتا۔ اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لئے ہوئے آئے اور انہوں نے اس لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی۔ جس پر بھی یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ۔ محمد بن اسحاق اور عکرمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا۔اور بلاد عرب میں سب سے پہلے چیچک اس سال دیکھی گئی۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لاحق ہو جاتی۔ اور کھجاتے ہی جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنے لگتا۔ یا جھڑنا شروع ہو جاتا۔ ابن عباس کی دوسری روایت یہ ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا ۔ اور ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ خود ابرھہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا۔ اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا ۔ افراتفری میں ان لوگوں نے یمن کی طرف بھاگنا شروع کیا ۔ نفیس بن حبیب خشعی اپنے بدرقہ سے واپسی کا راستہ پوچھا ۔ مگر اس نے انکار کر دیا۔ اور کہا۔ اب بھاگنے کی جگہ کہاں ہے جبکہ خدا تعاقب کر رہا ہے۔ اور نکٹا (ابرھہ) مغلوب ہے غالب نہیں ہے۔
اس بھگدڑ میں جگہ جگہ یہ لوگ گرتے رہے۔ عطا ء بن یسارؓ کی روایت ہے کہ سب کے سب اسی وقت ہلاک نہیں ہو گئے ۔ بلکہ کچھ تو وہیں ہلاک ہو گئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گرتے چلے گئے ابرھہ بھی بلاد خشعم پہنچ کر مرا۔
یہ واقعہ مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا تھا۔ صحیح مسلم اور ابو دائود کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے حجۃ الوداع کا جو قصہ امام جعفر صادق ؓ اپنے والد ماجد امام محمد باقر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبدالعد سے نقل کیا ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ جب مزدلفہ سے منیٰ کی طرف چلے تو محسر کی وادی میں آپ نے رفتار تیز کر دی۔ امام نووی اس کی شرح کرتے لکھتے ہیں۔ کہ اصحاب فیل کا واقعہ اس جگہ پیش آیا تھا۔ اس لئے سنت یہی ہے کہ آدمی یہاں سے جلدی سے گزر جائے ۔ موطا میں امام مالک روایت کرتے ہیں۔ کہ حضورؐ ﷺنے فرمایا کہ مزدلفہ پورا کا پورا ٹھہرنے کا مقام ہے۔ مگر محسر کی وادی میں نہ ٹھہرا جائے۔


نفیس بن حبیب کے جو اشعار ابن اسحاق نے نقل کئے ہیں ان میں وہ اس واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتاہے۔
اے ردینہ کاش تو دیکھتی اور تونہ دیکھ سکے گی جو کچھ ہم نے وادی غصب کے قریب دیکھا۔
میں نے اللہ کا شکر کیا جب میںنے پرندوں کو دیکھا اور مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ کہ کہیں پتھر ہم پر نہ آ پڑیں۔ ان لوگوں میں سے ہر ایک تفصیل کو ڈھونڈ رہا تھا۔ گویا کہ میرے اوپر حبشیوں کا کوئی قرض آتا تھا۔
یہ اتنا بڑا واقعہ تھا جس کی تمام عرب میں شہرت ہو گئی تھی۔ اوراس پر بہت سے شعراء نے قصائد کیے۔ ان قصائد میں یہ بات بالکل نمایاں ہے کہ سب نے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اعجاز قرار دیا۔ کہ جو کہیں اشارۃ و کنایۃ بھی یہ نہیں کیا کہ اس میں ان بتوں کا بھی دخل تھا ۔ جو کعبہ میں پوجے جاتے تھے۔ مثال کے طورپر عبداللہ بن المیز بصریٰ کہتا ہے۔
60ہزار تھے وہ جو اپنی سر زمین کی طرف واپس نہ جا سکے اور نہ واپس ہونے کے بعد ان کا بیمار (ابرھہ) زندہ رہا ۔ہاں ان سے پہلے عاد اور جرھم تھے اور اللہ بندوں کے اوپر موجود ہے جو اسے قائم رکھے ہوئے ہیں۔
ابو قیس بن اسلت کہتا ہے۔
اٹھو۔ رو کر اپنے رب کی عبادت کرو اور مکہ کی پہاڑیوں کے درمیان بیت اللہ کے کونوں کو مسخ کرو ۔جب عرش والے کی مدد تمہیں پہنچی توا س بادشاہ کے لشکر نے ان لوگوں کو اس حال میں پھیر دیا کہ کوئی خاک میں پڑا تھا اور کوئی سنگسار کیا ہوا تھا۔
یہی نہیں بلکہ حضرت ام ھانیؓ اور حضرت زبیر بن العومؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قریش نے 10سال اور (براویت بعض 7سال) تک اللہ وحدہ‘ لا شریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔
جس سال یہ واقعہ پیش آیا اہل عرب اس کو عام الفیل (ہاتھیوں کا سال) کہتے ہیں۔ اور اسی سال رسول اللہ ﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی۔ محدثین اور مورخین کا اس پر قریب قریب اتفاق ہے کہ اصحاب الفیل کا واقعہ محرم میں پیش آیا تھا ۔ اور حضور ؐ کی ولادت ربیع الاول میں ہوئی تھی۔ اکثریت یہ کہتی ہے کہ آپ کی ولادت واقعہ فیل کے 50دن بعد ہوئی۔
واقعہ فیل کی سائنسی تشریح
کیا یہ واقعہ جس کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے سائنسی اعتبار سے ممکن الوقع ہے؟ اور کیا اس کا ثبوت مہیا کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں! اس واقعہ کو سائنس کے موجود ہ علوم کی روشنی میں ایک حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ جو بخوبی ثابت کر سکتا ہے کہ یہ واقعہ ہونا ممکنات میں سے ہے۔ بعض سوالوں کے جواب حل طلب ہیں جو کہ آنے والا وقت انشاء اللہ مہیا کر دے گا۔ جو باتیں میں اپنے علم سے ثابت کر سکتا ہوں وہ اگلے صفحات میں دی گئی ہیں۔
اس واقعہ کی تفسیر اور تاریخی پس منظر پڑھنے کے بعد جو باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں وہ یہ ہیں۔
ا) خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کی غرض و غایت کے بارے میں ابرھہ کا موقف یہ تھا کہ وہ اپنے گرجا گھر کی بے حرمتی کا بدلہ لینے کے لئے خانہ کعبہ کو گرانے آیا تھا۔ یعنی اس کی نیت مذہبی انتقام پر مبنی تھی۔ اس نیت میں اس کے افسر اور سپاہی بھی یکساں طور پر شامل ہوں گے۔
ب) خانہ کعبہ کو بچانے سے عرب قاصر تھے۔ راستے میں مزاحمت کرنے والے عرب قبیلے شکست کھا چکے تھے۔ باقی نے ابرھہ سے صلح کا معاہدہ کر لیا تھا۔ اور متولی کعبہ یعنی قریش بھی خانہ کعبہ کو اللہ کی حفاظت میں دے کر شہر خالی کر گئے تھے۔ اور قریبی پہاڑیوں پر پناہ لے چکے تھے۔ اور اب ابرھہ کو مزاحمت کا کوئی خطرہ نہ تھا۔
ج) حملہ کے واقت پہلے تو ہاتھیوں نے کعبہ کی طرف بڑھنے سے انکار کر دیا اس کے بعد اچانک پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ مختلف اطراف سے آئے اور انہوں نے ابرھہ کے لشکر پر کنکر برسائے جس سے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ تتر بتر ہو کر واپس ہوا۔ کچھ مارے گئے کچھ ایسے زخمی ہوئے کہ ان کا گوشت جھڑنا شروع ہو گیا ۔ اور وہ چند دنوں کے اندر اندر مر گئے۔
د) یہ واقعہ معجزانہ طور پر وقوع پذیر ہوا اور اس میں نہ انسانی ہاتھ تھا، نہ ہو سکتا تھا۔ نہ ہی ممکن تھا۔نہ ایسا واقعہ پہلے کبھی سنا گیا تھا
د)اس واقعہ کا ایسا اثر ہوا کہ سالوں بعد تک عرب صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے اور بعد میں دوبارہ بت پرستی اختیار کر لی۔
ان نتائج کے اخذ کرنے کے بعد ان کی مزید وضاحت کے لئے کلام پاک اور روایات کی روشنی میںاس واقعہ کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کر کے ان پر علیحدہ علیحدہ بحث کی گئی ہے۔ تا کہ ان کو ممکن ہونا ثابت کیا جا سکے۔
ا) پرندوں کا کنکروں سے ابرھہ کے لشکر کو قتل و زخمی کرنا۔
ب) کنکروں سے زخمی ہونے کے بعد ایسی بیماری میں مبتلا ہونا جس سے فوری طور پر زخم سے خون اور پیپ نکلنے لگے اور گوشت جھڑنے لگے۔
ج) معجزانہ یا فطرت کے خلاف عادت واقعہ سے ابرھہ کے لشکر پر نفسیاتی اثرات اور ان کی تباہ کاری۔
د) معجزانہ واقعہ سے عربوں پر نفسیاتی اور روحانی اثرات۔
ان میں سے پہلے جزو (ا) کو علم طبیعات کے حرکت کے کلیوں سے بآسانی اور بخوبی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کہ یہ ممکن تھا اور ہے کہ اگر کم وزن کا پتھر ی،گولی کی طرح، تیز رفتار کے ساتھ مارا جائے تو اس میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ ایک انسان ، حیوان کو بآسانی قتل یا زخمی کر سکتا ہے۔ یہ تفصیلی ثبوت آپ کو پہلے حصے میں ملے گا۔
کنکر لگنے سے کیا بیماری لاحق ہو سکتی تھی جس سے گوشت جھڑنے لگے اس پر بحث دوسرے حصے میں کی گئی ہے یہ میڈیکل سائنس سے ثابت ہو گیا ہے کہ ایسی بیماری ممکن ہے اور آج کل بھی ہوتی رہتی ہے۔
قتل وزخمی اور بیمار ہونے کے علاوہ اس معجزہ کے ظہور کا نفسیاتی اثر بھی کم ہلاکت خیز نہ تھا۔ عام فہم نفسیات کے علم اور روزانہ کے تجربات سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ دراصل نفسیاتی اثر ہی بیماری کو اور خراب کرنے کا باعث بنا ہو گا۔ جس سے زیادہ تباہی پھیلی ۔ ابرھہ کے لشکر میں نفسیاتی اثرات پر بحث تیسرے باب میں کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مدد کی آمد ، اور ابرھہ کے لشکر کی تباہی سے عربوں پر بھی نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے جس سے ان کی روحانی اصلاح ہوئی اگر چہ وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی اس پر بحث چوتھے باب میں کی گئی ہے۔
اس واقعہ کو ممکن بنانے کے عوامل کے بارے میں چند ایسے سوالات ذہن میں آتے ہیں جن کی سائنسی و عقلی تشریح و توجیہہ ممکن نہیں۔ اور نہ ہی ان سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں علم میں اضافہ کے ساتھ ان کا جواب بھی مل جائے گا۔
تمام سائنسی علوم میں ترقی کے باوجود بعض ایسے سوالات ہیں جن کا جواب معلوم کرنا نا ممکن رہے گاکیونکہ کسی واقعہ کے ہونے کے لئے جگہ اور وقت کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ اللہ کا فیصلہ اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کے ارادے اور طریقہ کار کے بارے میں ہیں۔ ان کا حل صرف تقابلی علم یعنی Comparative and Deductive Knowledgeسے ہی اخذ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے براہ راست رسائی Direct Access ممکن نہیں ہے۔
آخر میں تمام بحث سے یہ نتیجہ اخذکیا گیا ہے کہ اس واقعہ کا بڑا حصہ عقلی اور سائنسی اعتبار سے ممکن الوقوع ہے۔
ا) پرندوں کے کنکروں سے انسانوں اور جانوروں کے قتل اور زخمی ہوسکنے کا ثبوت:
کیا پرندوں کے کنکروں میں جو کہ اندازاً مٹر کے دانے کے برابر تھے اتنی طاقت ہو سکتی ہے کہ وہ انسانوں کو قتل یا زخمی کر سکیں؟
اس سوال کا جواب اثبات میں ہے کہ جی ہاں! ان میں واقعی اتنی قوت اور طاقت حرکت کی بدولت آ سکتی ہے کہ وہ بندوق کی گولی کی طرح آدمیوں کو قتل یا زخمی کر سکیں۔ اس کی وجہ سمجھنے کے لئے حرکت کے کلئیے سمجھنے کی ضرورت ہے جو کہ آگے بیان کئے جائیں گے۔ پھر بندوق کی گولی کی تفصیلات بیان کی جائیں گی اور پھر یہ فرض کر کے کہ ان کنکروں کی طاقت اگر گولی کے برابر ہو تو ان کا وزن کیا ہو سکتا ہے۔ اور یہ طاقت حاصل کرنے کے لئے وہ کسی خاص بلندی سے گرائے جانے چاہئیں۔ اس لئے آئیے پہلے حرکت کے کلئیے سمجھنے سے ابتداء کرتے ہیں۔

حرکت کے کلئیے
حرکت کے کلیات سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ سائنس کی ان بنیادی باتوں کا اعادہ کر لیں جو کہ ہمارے روز مرہ کے مشاہدہ میں آتی ہیں۔ یہ تشریح و تفصیل صرف ان حضرات کے لئے ہے جن کو سائنس کی تفصیلات معلوم نہ ہوں۔
بنیادی حقائق:
۱) ہر ایک چیز وزن رکھتی ہے اور یہ وزن زمین کی کشش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لئے کہ جب ہم کسی وزنی چیز کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو تبھی اس کے وزنی ہونے کا احساس ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ چیز کتنی وزنی ہے۔ یہ وزن ہم مختلف پیمانوں سے گنتے ہیں یعنی سیر ، کلوگرام، پونڈ ، وغیرہ
۲) اگر کسی چیز کواوپر کی طرف پھینکا جائے تو وہ چیز ایک خاص بلندی تک جا کر رک جاتی ہے اور پھر نیچے کی جانب گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور زور سے آ کر گرتی ہے جتنی زیادہ بلندی سے یہ چیز گرے گی اتنی ہی اس میں طاقت یا زور زیادہ ہو گا۔
۳) ہر شے کی اپنی ساخت یا ماہیت ہوتی ہے جس کی پہچان اس چیز کے ذرات سے ہوتی ہے۔ مثلاً مٹی کے ڈھیلے میں مٹی کی مقدار اس میں مادہ کی مقدار ہوتی ہے۔ مادہ کی مقدار وزن سے مختلف چیز ہے اگر چہ مادہ کی مقدار بڑھنے یا گھٹنے سے وزن کم یا زیادہ ہو جاتا ہے۔
۴) اگر ہم کسی بھی ساکن یا رکی یا ٹھہری چیز پر طاقت یا زور لگائیں تو وہ چیز حرکت کرنے میں اپنی جسامت یا وزن کے مطابق مزاحمت کرتی ہے۔ اگر طاقت مزاحمت سے زیادہ ہو تو پھر چیز طاقت کے زیر اثر حرکت کرنے لگتی ہے اور جس طرف ہم طاقت لگا رہے ہوتے ہیں اس سمت چلتی ہے اور بتدریج اس کی رفتار بڑھتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ جب فاضل طاقت جو اس چیز کی رفتار کو بڑھا رہی ہوتی ہے اس نئی مزاحمت کے برابر ہو جاتی ہے اور وہ چیز ایک خاص رفتار سے حرکت کرتی رہے گی جب تک کہ وہ طاقت اس پر کام کر رہی ہوتی ہے۔ اگر وہ طاقت گھٹ یا بڑھ جائے تو اس کے مطابق ہی اس چیز کی رفتار گھٹ یا بڑھ جائے گی۔
۵) جب کوئی بھی چیز حرکت کر رہی ہوتی ہے تو اس میں اس حرکت کی بدولت ایک قوت پیدا ہو جاتی ہے جو کہ اس چیز کے وزن اور رفتار پر منحصر ہوتی ہے۔ مثلاً ساکن پتھر اگر ہاتھ پر رکھ دیا جائے تو وہ کچھ تکلیف نہیں دیتا اگر اسی پتھر کو ہم تھوڑی سے بلندی سے گرائیں تو پتھر ہاتھ پر تیز رفتاری سے آکر لگے گا ۔ اور اس سے تکلیف ہو گی۔ اگر پتھر کو زور سے پھینک کر مارا جائے تو وہ اور بھی زیادہ تکلیف دے گا۔ اس طرح چھڑی یا ڈنڈے کو بھی زور سے حرکت دے کر مارنے سے وہ جسم کو تکلف دے گا۔ یہ سب مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ حرکت دینے سے چیزوں میں قوت آ جاتی ہے۔ غلیل سے پھینکا ہو چھوٹا پتھر اور بندوق کی گولی اس کی دوسری مثالیں ہیں گولی سب سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے جو کہ صرف تیز رفتاری کی بدولت ہے حالانکہ گولی کا وزن بالکل ہی تھوڑا ہو تا ہے۔
۶) ہر چیز کی ماہیت میں کثافت یا گاڑھا پن مختلف ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے مختلف چیزوں میں ایک ہی سائز ہونے کے باوجود ان کا وزن مختلف ہوتا ہے۔ اس کی وجہ اس چیز کے ذرات کے ملنے کے طریقے کی وجہ سے ہے۔ جہاں پر ذرات زیادہ قریب قریب ہوتے ہیں اور اس میں مضبوطی سے جڑے ہوتی ہیں وہ چیز مضبوط ہوتی ہے اس کو توڑنا مشکل ہوتا ہے اور اس کا وزن عموماً زیادہ ہوتا ہے ۔ جیسے پتھر ۔ لوہا۔ اینٹ۔ اس کی بر عکس وہ چیز جس کے ذرات قریب قریب نہیں ہوتے ۔ اور ان کا آپس میں تعلق بھی مضبوط نہیں ہوتا وہ چیز نسبتاً کمزور ہوتی ہے۔ اس کا توڑنا آسان ہوتا ہے اور اس کا وزن بھی عموماً کم ہوتا ہے مثلاً ریت ، مٹی کے ڈھیلے۔
۷) جب کسی ہلکی یا غیر مضبوط چیز کے ایک خاص وزن کے ڈھیلے کو حرکت دے کر مارا جائے تو وہ دوسرے چیز کے ساتھ لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے ذرات ا دھر ادھر بکھر جاتے ہیں ۔ اور ذرات بکھرنے کے ساتھ ہی قوت بھی ادھر ادھر بکھر جاتی ہے۔ اس لئے ایسے ڈھیلے کے لگنے سے چوٹ کم لگتی ہے، بہ نسبتاً ایک پتھر کے جو اس مٹی کے ڈھیلے کے برابروزن کا ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پتھر کے ذرات لگنے پر ٹوٹتے اور بکھرتے نہیں۔ اس لئے تمام قوت یکجا رہتی ہے اور قوت کی سمت میں کام کرتی ہے۔ اس لئے وہ اپنی تما م طاقت دوسری چیز کو منتقل کر دیتی ہے جس کی وجہ سے چوٹ بہت لگتی ہے۔
۸) جب کوئی چیز ساکن ہوتی ہے تو اس کی رفتار صفر ہوتی ہے اگر اس چیز پر قوت لگائی جائے تو اس چیز کی رفتار بڑھنے لگتی ہے اور قوت کی مقدار کے مطابق ایک خاص رفتار پر پہنچ کر اس چیز کی رفتار بڑھنا بند کر دیتی ہے جیسے کہ ریل گاڑی ، موٹر گاڑی، سائیکل ، اگر اسی موجودہ مستقل رفتارکو اور بڑھانا مقصور ہو تو پھر مزید قوت اور زور لگانا پڑتا ہے۔ یہ زائد یا فاضل طاقت گاڑی کی رفتار کو زیادہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور جب ایک خاص رفتار پر گاڑی پہنچ جاتی ہے تو اس کی رفتار پھر بڑھنا بند کر دیتی ہے ۔ گاڑی ٹھہرانا مقصود ہو تو گاڑی پر لگائی جانے والی قوت کو کم کر دیا جاتا ہے تو رفتار گھٹتے گھٹتے ایک خاص رفتار پر آ جاتی ہے۔ جس کے بعد رفتار گھٹنا بند کر دیتی ہے۔
۹) جب رفتار کم یا زیادہ ہو رہی ہوتی ہے تو اس کا بڑھنے یا گھٹنے کا ریٹ یا مقدار فاضل قوت پر منحصر ہو تی ہے ۔ اور یہ کہ وہ تبدیلی کتنے وقت میں آئی ہے۔
۱۰) رفتار کے بارے میں تمام باتوں کو ہم مندرجہ ذیل سائنسی اور حسابی طریقے سے پرکھ سکتے ہیں۔
ا) رفتار کی تعریف یہ ہے کہ ایک خاص وقت میں کتنا فاصلہ طے کیا جاتا ہے ۔ عموماً بول چال میں رفتار میل فی گھنٹہ یا کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ناپی جاتی ہے یعنی ایک گھنٹہ میں کتنے میل یا کلو میٹر طے کئے جائیں گے۔حساب کی زبان میں ایسے لکھیں گے۔
رفتار =فاصلہ ÷ وقت
ب) سرعت: جب رفتار بڑھ یا گھٹ رہی ہو تو اس گھٹنے بڑھنے یا رفتار کی تبدیلی ہونے کی مقدار یا ریٹ کو ہم سرعت کہتے ہیں اس لئے سرعت کا انداز ہ ایسے لگایا جا تا ہے کہ کتنے وقت میں رفتار میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ چونکہ رفتار بہت جلد تبدیل ہوتی ہے اس لئے عموماً ہم وقت سیکنڈ میں گنتے ہیں اور چونکہ سیکنڈوں میں فاصلہ فٹ یا میٹر کی شکل میں ہی طے ہوتا ہے، بہ نسبت کلو میٹر یا میل کے ،اس لئے سرعت کو ہم عام طور پر اس طرح ناپتے ہیں کہ ایک سیکنڈ میں رفتار میں کتنے فٹ یا میٹر تبدیلی آئی ۔

حساب کی شکل میں سرعت : وقترفتار میں تبدیلی
رفتار میں تبدیلی: رفتار میں تبدیلی معلوم کرنے کے لئے ہمیں دو رفتار یں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک کو بنیادی رفتار کہتے ہیں جس سے رفتار بڑھ کر زیادہ ہو گئی اس زیادہ رفتار کو یا بدلی ہوئی رفتار کو ہم مستقل رفتار یا حتمی رفتار کہتے ہیں۔ ان دونوں رفتاروں کی مقدار کا فرق ہمیں رفتار میں تبدیلی بتا دے گا۔ مثلاً اگر ایک گاڑی کی رفتار 20میل فی گھنٹہ سے بڑھ کر 50میل فی گھنٹہ ہو گئی تو رفتار میں 30میل فی گھنٹہ کی تبدیلی آئی۔ اور ہمیں یہ تبدیلی حتمی رفتار یعنی 50میل فی گھنٹہ میں سے بنیادی رفتار یعنی 20میل فی گھنٹہ منہا کرنے یا تفریق کرنے سے معلوم ہوئی۔ اس لئے اس کو حساب کی شکل میں ایسے لکھیں گے۔
رفتار میں تبدیلی = حتمی رفتار – بنیادی رفتار
بنیادی رفتار کوہم ب فٹ فی سیکنڈ اور حتمی رفتار کو ہم ح فٹ فی سیکنڈ لکھیں گے۔ جتنے وقت میں یہ بنیادی تبدیلی آئی اس کو ہم ٹ سیکنڈ لکھیں گے۔
اس تبدیلی کا ریٹ معلوم کرنے کے لئے ہمیں اکائی کا قاعدہ استعمال کرنا پڑے گا۔
ٹ سیکنڈ میں رفتار میں تبدیلی: حتمی رفتار – بنیادی رفتار
1سیکنڈ میں رفتار میں تبدیلی: حتمی رفتار – بنیادی رفتار × 1
ٹ سیکنڈ
اس لئے سرعت کا حسابی فارمولا یہ ہوا۔
سرعت : حتمی رفتار – بنیادی رفتار
ٹ سیکنڈ
س = ح – ب
ٹ
یا حتمی رفتار کا فارمولا یہ ہے ۔
حتمی رفتار : بنیادی رفتار + سرعت × ٹ
ح : ب + س × ٹ
سرعت کے دوران طے کردہ فاصلہ معلوم کرنے کے لئے فارمولا یہ ہے۔
فاصلہ : بنیادی رفتار × ٹائم (وقت ) + 1/2سرعت × ٹائم 2
= ب ٹ + 1/2ٹ2
صرف ایک مثال سے ان کلیوں کا استعمال اور افادیت معلوم ہو جائے گی ۔

ایک ریل گاڑی ریلوے سٹیشن سے چلنے کے 11سیکنڈ کے اندر 30میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے لگی گاڑی کی رفتار بڑھنے کا ریٹ یعنی سرعت اور اس سرعت کے دوران طے کردہ فاصلہ معلوم کیجیئے۔
بنیادی رفتار : صفر فٹ فی سیکنڈ(کیونکہ گاڑی کھڑی تھی)
حتمی رفتار : 30میل فی گھنٹہ30 =×1760×3 = 44فٹ فی سیکنڈ
60 × 60
وقت 11 =سیکنڈ
اس لئے سرعت =ح – ب = 44فٹ فی سیکنڈ – صفر فٹ فی سیکنڈ
ٹ 11سیکنڈ
= 44فٹ فی سیکنڈ = 4فٹ فی سیکنڈ فی سیکنڈ (سرعت کے جواب میں دو دفعہ فی سیکنڈ فی سیکنڈ آتا ہے)
11سیکنڈ
سرعت کے درمیان فاصلہ = ب ٹ + 1/2س ٹ 2
= صفر فٹ فی سیکنڈ × 11سیکنڈ + 1/2× 4فٹ فی سیکنڈ فی سیکنڈ× 11سیکنڈ×11سیکنڈ
= 0+ 1/2×4×121
= 0+ 2×121
= 242فٹ
یعنی ریل گاڑی نے 242فٹ کا فاصلہ طے کرتے ہوئے اپنی رفتار صفر میل فی گھنٹہ سے 30میل فی گھنٹہ بڑھا دی ۔
ٍٍ زمین کی کشش یا کشش ثقل کے تحت حرکت کے کلیوں کی کشش یعنی کشش ثقل کے تحت بھی اشیاء اپنی قوت کے تحت حرکت کرتی ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ زمین کی کشش کی بنا پر سرعت 32فٹ فی سیکنڈفی سیکنڈ ہوتی ہے ۔ اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی ۔ کیونکہ زمین کی کشش مستقل ہے۔ زمین کی کشش ثقل کی سرعت اور عام قوت کی سرعت میں فرق ظاہر کرنے کے لئے زمین کی سرعت کو ’ز‘ کے حرف سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس لئے اب کلیے یوں لکھے جائیں گے۔ ز = زمین
بنیادی رفتار = ب فٹ فی سیکنڈ
انتہائی رفتار = م فٹ فی سیکنڈ
سرعت ’ز‘ = 32فٹ فی سیکنڈ فی سیکنڈ
فاصلہ ٹ سیکنڈ میں = ب ٹ +1/2ز ٹ 2
م رفتار = ب + ز ٹ
کشش ثقل کے تحت حرکت کی چند مثالیں دی جاتی ہیں تا کہ ایسی حرکت واضح ہو جائے۔
مثال نمبر 1 مکان کی چھت سے ایک پتھر پھینکا گیا ۔ جو دو سیکنڈ کے بعد زمین پر گرا مکان کی اونچائی بتائیے۔
فاصلہ = ب ٹ + 1/2زٹ 2
= 0×2+1/2×32×22
= 0+16×4
= 64 فٹ
مثال نمبر 2 ایک ہوائی جہاز نے جو 400فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا ۔ بم گرایا گیا۔ بتائیے وہ کتنی دیر میں زمین پر گرے گا۔ اور اس کی رفتار کیا ہو گی؟
فاصلہ = ب ٹ+1/2ز ٹ2
400فٹ = 0×ٹ+1/2×32×ٹ2
400 = 0+16ٹ2
400 = ٹ2
16
25 = ٹ2
/25 = ٹ
5 =ٹ
ٹ = 5
یعنی 5سیکنڈ کے بعد بم زمین پر پہنچ جائے گا۔
زمین پر لگتے وقت بم کی رفتار = ب +ز ٹ
= 0+32×5
=160فٹ فی سیکنڈ
= 160×60×60 = 214.5میل فی گھنٹہ = 214میل فی گھنٹہ
1760×3
یہاں تک کے بیان اور مثالوں سے آپ کو علم ہو گیا ہو گا ۔ کہ حرکت کے کلیوں کی مدد سے بڑی آسانی سے گرتی ہوئی چیزوں کی رفتار کا اندازہ لگالیا جا سکتا ہے۔ اب نقطہ واضح کرتا ہوں کہ یہ کلیہ صرف خلا میں گرتی ہوئی چیزوں کے لئے ہے۔ فضاء میں گرتی ہوئی چیزوں کے لئے ہوا کی مزاحمت کو بھی شامل کرنا پڑے گا۔ جس کی انتہائی رفتار میں فارمولے یا کلئیے سے حساب کردہ رفتار سے کم ہو گی۔ اس کلئیے کے استعمال سے مقصود چونکہ اصحاب فیل کے واقعہ کے ممکنات کو سائنسی طور پر پرکھنا ہے۔ نہ کہ صحیح رفتار کا پتہ کرنا ۔ اس لئے کہ پرندوں کی صحیح بلندی معلوم نہیں۔ اس لئے ان کلیوں کو ہواکی مزاحمت کے بغیر ہی استعمال کیا جائے گا۔
بندوق کی گولی کی قوت ہلاکت:
گولی کی قوت ہلاکت عرصہ دراز سے بحث و مباحثے کا سبب بنی رہی ہے۔ اور اس پر ماہرین نے مختلف آراء ظاہر کی ہیں یہ چونکہ جذباتی مسئلہ ہے اور تمام انسان دوست لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس لئے اس پر آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ گولی کے زخم لگانے کی قوت اور اس کا سائنسی حساب کافی مشکل ہے۔ اور جوابات کافی حد تک غیر صحیح ہیں۔ لیکن ایک چیز بالکل واضح ہے۔ کہ تمام انسان دوست اصحاب کے نزدیک کسی دشمن پر گولی چلانے کا اصل مقصد اس کو جنگ میں حصہ لینے کے ناقابل بنانا ہے۔اس مقصد کے حل کے لئے یا تو گولی دشمن کو جان سے مار ڈالے یا اتنا زخمی کر دے۔ کہ وہ اپنے جنگی کام کرنے کے قابل نہ رہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حملہ کرنے والے سپاہی کو اس حد تک زخمی کیا جائے ۔ کہ وہ حملہ نہ کر سکے اور دفاعی سپاہی کو زخمی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مدافعت کرنے کے قابل نہ رہے۔ ان دونوں کا مطلب یہ ہے کہ ان کو صرف ’معذور ‘ کر دیا جائے۔ نہ کہ قتل کیا جائے۔
معذوربنانے کی ضرورت حملہ آور اور دفاعی سپاہی کے لئے مختلف ہو گی۔ حملہ آور کے لئے حرکت اور اسلحہ کااستعمال ہے۔ اس لئے اس کو حملے سے روکنے کے لئے اتنی معذوری ضروری ہو گی۔ جس سے وہ حرکت نہ کر سکے۔ اور اپنا اسلحہ کا استعمال نہ کر سکے۔ اس کے برعکس دفاعی سپاہی زخمی ہونے اور حرکت نہ کر سکنے کے باوجود اپنا اسلحہ استعمال کر سکتا ہے۔ اگر اس میں کامل قوت ارادی موجود ہو تو اس طرح معذور بنانے کیلئے وقت کا تعین بھی ضروری ہے۔ یعنی ایک حملہ آور سپاہی کو 30سیکنڈ کے اندر معذور بنانے اور 5منٹ میں معذور بنانے میں واضح فرق ہے۔ اس لئے عام حملہ کے لئے 30سیکنڈ کاسٹینڈرڈ وقت استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طرح یہ سوال کہ کونسا زخم معذوری کا باعث بنے گا، بھی حل طلب ہے۔ جس کا جواب صرف ڈاکٹر حضرات ہی دے سکتے ہیں۔ اس کے لئے اصولاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی جسم کو مختلف حصوں میں تقسیم کر لیا جاتا ہے۔ اور پھر اس میں گولی لگنے کا زاویہ اس کا راستہ اور اثرات کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ انتہائی مشکل کام ہے ۔ مگر کمپیوٹر کی مد د سے قدرے آسان ہو گیا ہے۔ اس طرح ہر حصہ کے لئے معذوری پیدا کرنے والے زخم کا تعین کیا گیا ہے۔ (ایسے ایک مطالعہ میں انسانی جسم کو 108حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے) اور اتفاقی چوٹ کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ زخم لگانے کی قوت مندرجہ ذیل باتوں پر منحصر ہے۔
ا) جسم کے ساتھ لگتے وقت گولی کی حرکت کی وجہ سے قوت متحرکہ (Kinetic Energy)
ب) اس انرجی یا قوت کو نشانہ میں منتقل کرنے کے صلاحیت
ج) قوت کی منتقلی میں کتنی جگہ (Area)متاثر ہوتا ہے۔
د) قوت کی منتقلی کی رفتار (وقت)
ایسی قوت متحرکہ کو حاصل کرنے کے لئے کم وزن کی گولی اور بہت تیز رفتار استعمال کی جاتی ہے ۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ حاصل ہو تا ہے کہ اس سے گولی چلانے والے کو پچھلی طرف دھکہ کم لگتا ہے ۔ کیونکہ (Recoil Energy)کم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں چھوٹی گولی ہوا میں باآسانی سفر کر سکتی ہے۔ کیونکہ ہوا کی مزاحمت کم ہوتی ہے۔ اور اس کے سفر کی سمت بھی کم متاثر ہوتی ہے۔ اس لئے ایسی گولیوں کی شکل میں لمبائی /وزن کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔
ایسی لمبی اور ہلکی گولی کے ہوائی سفر میں سمت پر کم سے کم اثر کے لئے گولی کو ایک خاص رفتار سے گھمایا جاتا ہے۔ اس گھمانے سے اس کی سمت ٹھیک رہتی ہے۔ دوسرے ہر گولی ایک ہی جیسا برتائو کرتی ہے۔ فائر کرنے کے بعد گھمانے کی رفتار مختلف (Medium)واسطوں یا چیزوں میں مختلف ہو نی چاہیے۔
اس طرح گولی بندوق سے نکلتے وقت اگر تھوڑی سی ٹیڑھی نکلے تو ہوا میں سے گزرتے وقت ہوا کے دبائو کی وجہ سے اپنا راستہ بدل سکتی ہے۔ اور اس کی رفتار میں بھی نمایاں کمی ہو جاتی ہے۔
گولی بدن میں سے گزرتے وقت کتنا بڑا سوراخ بنائے گی، اس کا جواب تجربات کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔ تجربات کے دوران گولی کو (Gelatine)گلاٹین کے بلاکوں میں سے گزار کر دیکھا جا تا ہے۔ کہ گولی کی قوت میں مختلف سائز کے بلاکوں میں گزرتے وقت کتنی کمی آ جاتی ہے۔ یہ بلاک انسانی جسم کے مختلف حصوں کے (Tissues)گوشت کی قوت کے برابر ہوتے ہیں۔ ان حصوں میں 5/1000سیکنڈ میں (0.0005)سیکنڈ یا آدھے ملی سیکنڈ ) جو اثرات ہوتے ہیں وہ یہ ہیں۔
ا) گوشت (Tissues)میں مستقل سوراخ ہو جاتا ہے یا کچھ حصہ میں ۔
ب) گوشت میں اپنے (گولی) سامنے اور اس کے اردگرد ہر طرف گولی ایک دھماکے کی لہر (Shock wave)بھیجتی ہے ۔ جس کا دبائو (pressure) (1000 lb2) 1000 پونڈ فی مربع انچ ہوتا ہے۔
مثال: گولی کا حساب یوں سمجھ لیجئے کہ گولی کا وزن = 150گرین
جسم پر لگتے وقت رفتار =2500فٹ فی سیکنڈ (قریباً1710میل فی گھنٹہ)
جسم سے باہر نکلتے وقت رفتار =1500فٹ فی سیکنڈ (1000میل فی گھنٹہ)
ران کے گوشت میں سے فاصلہ = 8 انچ
ران کے گوشت میں سے گزرنے کا وقت = 0.00033سیکنڈ
ران کے گوشت میں سے گزرتے وقت انرجی یا قوت کا زیان= 1330فٹ پائونڈ
اس قوت کا گوشت میں منتقل ہونا اس تھوڑے وقت میںاثر پیدا کرتا ہے کہ مستقل سورا خ کی نسبت 26گنا بڑا راستہ گوشت میں سے بنتا ہے۔
Source
JANES ALL THE WORLD WEAPON SYSTEMS 1979 EDDITION

اصحاب الفیل کی ہلاکت کی سائنسی تفصیل
کنکروں کا تخمینی وزن :
آئیے اب اس واقعہ کو سائنس کی روشنی میں دیکھیں کہ آیا پرندوں کے کنکریاں گرانے سے ابرھہ کی فوج کے سپاہی ایسے ہی مرے ہیں جیسے کہ کوئی آدمی گولی لگنے سے مر جاتا ہے یا زخمی ہو تا ہے۔ کیونکہ مرنا یا زخمی ہونا اس پر منحصر ہے کہ گولی بدن کے کس حصہ میں لگتی ہے۔ بدن کے بعض حصوں میں چوٹ سے انسان فوراً مر جاتا ہے ۔ جیسے کہ سر یا دل جبکہ ہاتھ یا پائوں ، بازو، ٹانگ ، ران وغیرہ میں لگنے سے صرف زخمی۔
مرنے یا زخمی ہونے کا انحصار حفاظتی لباس پر ہوتا ہے ، آیا کہ زرہ بکتر پہنا تھا یا نہیں اور جسم کے کسی حصہ پر پہنا تھا۔ اور کس کس نے پہنا تھا۔ یہ بات یقینی ہے کہ فوج کے ہر فرد نے زرہ بکتر نہیںپہنا ہو گا۔ بلکہ اکثریت نے نہیںپہنا ہو گا۔ اس لئے کہ حضرت عبدالمطلب نے ابرھہ سے بات چیت کر لی تھی۔ عربوں نے جو مزاحمت کرنی تھی وہ کر لی تھی۔ اور اب ابرھہ کا خانہ کعبہ کی طرف کوچ بغیر کسی مزاحمت کے تھا۔ کیونکہ قریش تو خانہ کعبہ کو اللہ کی حفاظت میں دیکر بیوی بچوں کو دور پہاڑوں پر لے گئے تھے۔
اس واقعہ کو اس سائنسی نقطئہ نظر سے دیکھنے کے لئے یہ فرض کیا گیا ہے کہ پتھروں یا کنکروں کی چوٹ لگانے کی طاقت بالکل اتنی ہی تھی۔ جتنی کہ ایک بندوق کی گولی میں ہوتی ہے۔ بندوق کی گولی کی مارنے کی صلاحیت و طاقت کے بارے میں گولی کی تفصیلات یہ ہیں جو کہ جینز ویپن سسٹم سے لی گئی ہیں۔
ا) مثالی گولی = فوجی بندوق کی گولی کا وزن = 150گرین (98.85گرام)
چوٹ لگاتے وقت رفتار = 2500فٹ فی سیکنڈ
چوٹ لگا کر باہرنکلنے کی رفتار= 1500فٹ فی سیکنڈ
ان کے دوران فاصلے= 8انچ
چوٹ میں قوت کا استعمال =1330فٹ پونڈ
وقت =0.0003سیکنڈ
(امریکہ اس وقت 55گرین کی گولی اور3250فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیزائین کرکے استعمال کر رہا ہے)
ب) وزن کے پیمانے
ایک گرین= 0.659گرام
ایک گرام = 15گرین
ایک ڈرام = 1.772گرام
ایک اونس =16ڈرام =16×1.772=28.352گرام
ایک پائونڈ= 16اونس =700گرین=8چھٹانک
اس حساب سے 150گرین = 10گرام = 1.7 چھٹانک
ج) عام طور پر پرندے 1000فٹ سے 2000فٹ تک اڑتے ہوئے ملتے ہیں ۔ بحثیت ایک پائلٹ کے میں وثوق سے یہ کہ سکتا ہوں ۔ کہ شہروں کے اوپر عموماً پرندے جن میں چڑیاں ، چیلیں ، کوے اڑتے ملتے ہیں۔ ان ہی بلندیوں پر ہوتے ہیں۔ جہاز اترنے کے وقت عموماً 1500فٹ زمین کے اوپر ہو کر لینڈنگ کے لئے آتے ہیں ۔ جہاں پر اکثر یہ پرندے ملتے ہیں ۔ یہی پرندے زمین سے بھی اڑتے ہوئے نظر آسکتے ہیں اس لئے آسان حساب لگانے کیے لئے 1600 فٹ بلندی فرض کی گئی ۔
i) 1600فٹ بلندی سے گرائے گئے پتھر کو مندرجہ ذیل وقت اور رفتار ملے گی۔
فاصلہ = ب ٹ + 1/2ز ٹ2فٹ
1600= 0×ٹ+1/2×32×ٹ2
1600= ٹ 2
16
100= ٹ2 اس لئے ٹ = 10سیکنڈ
اگر 10سیکنڈ ٹائم پتھر گرنے کا وقت ہو تو پھر کنکر کو زمین پر پہنچ کر فوجیوں اور جانوروںکے لگتے وقت رفتار یوں ہو گی۔
م =ب+ز ٹ
م= 0+32×10
= 320 فٹ فی سیکنڈ (225میل فی گھنٹہ)
یعنی ا کنکر آدمیوں کو225میل فی گھنٹہ لگے ہونگے۔
اگر گولی اور کنکر کی چوٹ لگانے کی قوت برابر ہو تو پھر اس کنکر کا وزن یہ ہو گا۔
اب ہم کنکر کی رفتار کی انفارمیشن کو استعمال کر کے کنکر کا وزن معلوم کر سکتے ہیں۔ جس کی طاقت گولی کے وزن اور رفتار کے برابر ہو گی۔ اس کے لئے یہ حساب کا فارمولہ بنے گا۔
(گ) گرین × 320فٹ فی سیکنڈ = 150گرین ×2500فٹ فی سیکنڈ
گرین = 150 ×2500 = 1170گرین
320
1170 گرین = 1170 ×16 = 2.672اونس
3000
اگر ان کو چھٹانک میں تبدیل کر لیں تو
16اونس =8چھٹانک
2.67اونس = 2.67×8=1.33چھٹانک
18
یہ وزن صرف اس صورت میں چاہیے جبکہ بندوق کی گولی اور کنکر کی قوت برابر ہو۔ ورنہ صرف زخمی کرنے کے لئے اس وزن کی ضرورت نہ ہو گی۔ بلکہ اس سے کم وزن بھی کافی ہو گا۔ چونکہ یہ سب حساب خلاء کی بنیاد پر ہے اور ہوا کی مزاحمت کو بھی حساب میں لے آئیں تو اصل پتھروں کا وزن ہمارے حساب کردہ وزن سے ڈیڑھ گنا ہوگا یعنی تین یا چار چھٹانک ۔
(ii اگر پرندے 400فٹ پر تصور کئے جائیں تو رفتار اور ٹائم کا حساب مندرجہ ذیل ہو گا۔
فاصلہ = ب ٹ + 1/2ز ٹ2
400=0×ٹ+1/2×32ٹ2
400=ٹ 2
16
اس لئے ٹائم یہ ہو گا = 5سیکنڈ
اور کنکر کی رفتار = 32×5 =160 فٹ فی سیکنڈ (109میل فی گھنٹہ)
اور کنکر کا وزن = 2500×150 = 2340گرین
160
2340گرین = 2300×16= 5.28اونس
7000
5.28×8 = 2.64چھٹانک قریباًاڑھائی چھٹانک
16
چونکہ یہ سب حساب خلاء کی بنیاد پر ہے اور ہوا کی مزاحمت کو بھی حساب مین لے اائیں تو اصل پتھروں کا وزن ہمارے حساب کردہ وزن سے ڈیڑھ گنا ہوگا یعنی پانچ چھٹانک یا ایک پاؤ۔
اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر غلیل سے نکلا ہوا پتھر یا مٹی کا ڈھیلا کسی کو لگ جائے تو کتنا زخمی کر سکتا ہے ۔ تو پھر پتھر جو 109میل سے 225میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہا ہو ۔ وہ اگر لگ جائے۔ چاہے اس کا وزن تھوڑ اہی ہو تو پھر کیا حشر ہو گا۔ اسی طرح کرکٹ میں فاسٹ باؤلر کے بال کی سپیڈ بھی سو میل تک پہنچ جاتی ہے۔
آپ کو اس چیز کا اندازہ کرانے کے لئے میں نے مختلف جہازوں کے پرندوں سے ٹکرانے اور ان سے ہونے والے نقصان کی صرف چند تصاویر شامل کی ہیں۔یہ تصاویر فلائیٹ سیفٹی ڈائریکٹریٹ ، ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد نے میری درخواست پر مہیا کی تھیں ۔ انکے شکریہ کے ساتھ دی جا رہی ہیں
ان کو دیکھتے ہوئے یاد رکھیں ۔ کہ یہ پرندے گوشت پوست کے بنے ہوئے تھے ۔ اور دھات کے بنے ہوئے ہوائی جہاز کے ساتھ ٹکرائے تھے۔ اور اتنا بڑا نقصان کیا تھا۔ ہمارے مسئلہ زیر بحث میں معاملہ الٹ ہے ۔آدمی گوشت پوست کے ہیں اور پتھر سخت چیز ہیں۔ ان تصاویر کے دیکھنے سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ اصحاب فیل کے قصے میں پرندوں کے گرائے ہوئے پتھر ایک انسان کو بخوبی قتل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

کنکروں میںجانوروں کو بھی زخمی کرنے کی صلاحیت
اگر ان پتھروں میں اتنی صلاحیت تھی کہ ایک انسان کو قتل یا سخت زخمی کر سکیں۔ تو اسی قوت سے اگر وہ جانوروں کو لگیں گے تو ان کو کم از کم زخمی ضرور کر دیں گے۔ جنگوں کے تجربات سے یہ عمومی علم سب کو ہے کہ جانور یا پتلی چادر کے ٹرک ، بھی عام گولی سے نہیں بچ سکتے ۔ گولی ان کے بھی پار چلی جاتی ہے۔ تو حرکت کے کلیوں ، جہازوں کی تصاویر ، جنگوں کے تجربات ، دنیاوی تجربہ سب ہی اس ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پرندوں کے گرائے ہوئے کنکر گولی کی طرح کام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اور انہوں نے ابرھہ کے لشکر کو بھون کر رکھ دیا۔ کہ وہ بھس کھائے ہوئے کی طرح بن گئے۔
کنکروں کے وزن بارے روایات؟
ہمارے حرکت کے کلیئے کے حساب کے مطابق کنکروں کا وزن قریباً تین چھٹانک سے پانچ چھٹانک بنتا ہے۔ سائز اور وزن میں تعلق اس کنکر کی کثافت اضافی پر ہوتا ہے۔ کہ وہ کس قسم کے مادہ سے بنا ہے۔ اس کے ہرذرے کا کیا وزن ہے۔ اور اس کے ذرے ایک دوسرے کے ساتھ کتنی قریب قریب سے جڑے ہوئے ہیں ۔ مثلاً ریت کو لے لیں ۔ ریت کے ذرے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملتے ۔ اس کے برعکس مٹی کے ذرے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں ۔ مگر تھوڑے سے دبائو سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پتھر کو لے لیں۔ ان کے ذرات نسبتاً زیادہ مضبوطی سے ملے ہوتے ہیں ۔ اور تھوڑے دبائو سے نہیں ٹوٹتے ۔ ان کے لئے کاری ضرب چاہیے ۔ دھاتوں (لوہا، تانبہ وغیرہ) کولے لیں۔ ان کے ذرات بہت ہی مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو توڑنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے ایک ہی سائز یا جسامت کے پتھر یا گولی کا وزن مختلف ہو گا۔ لوہے (دھات) کا سب سے زیادہ پتھر اس سے کم مٹی سب سے کم۔
چونکہ کلام پاک پتھر کہتا ہے اور تاریخ و روایات مٹر کے دانے کے برابر یا بکری کی مینگنی کے برابر کہتے ہیں۔ اتنا وزن ان پرندوں کے پنجوں اور چونچ کی قوت گرفت کے اندر تھا۔ مجھے چھوٹے پرندوں کی پنجے اور چونچ سے وزن اٹھانے کی صلاحت اور قوت بارے ڈیتا نہیں مل سکا مگر بڑے پرندوںکا ڈیٹامل گیا ہے اس سے ہم چھوٹے پرندوں کااندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اتنا وقت اٹھا سکتے ہیں۔ ۔ چند بڑے پرندوں کی قوت گرفت درج ذیل ہے۔
پالتو بالڈ ایگل bald eagle ، عموما ((4 پاؤنڈ یا1.81 کلو اٹھا کر 60 میٹر کی بلندی پر سیدھی پرواز میں لے جا سکتا ہے۔
ٹریننگ سے اس کی وزن اٹھانے کی قوت میں36% اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
ساؤتھ امریکہ کا جنگلی ہارپ ایگلharp eagle تیرہ پاؤنڈ یعنی5.9 کلو کا شکار اٹھا کر لے جاتا دیکھا گیا ہے۔
اسی طرح جنگلی بالڈ ایگل 15 پاؤنڈ کو شکار اٹھا کر لے گیا۔
عموما جگلی ایگل 2.5 کلو اٹھا لیتا ہے مگر اسے اٹھا کر زیادہ بلندی پر نہیں لے جاتا بلکہ زمین کے قریب ہی فلائی کر سکتا ہے۔
افریکا کا مچھلی پکڑنے والا ایگلafrican fisg eagle عموما 3-1 کلو کی مچھلی اٹھا سکتا ہے مگر اس سے زیادہ وزنی پکڑے تو پھر پانی کے اوپر ہی فلائی کر کے لے جاتا ہے۔
آپ نے چیل کو مرغیوں کے چوزے اٹھا کر لے جاتے دیکھا ہے۔اسی طرح لوگ باز سے بٹیروں کا شکار بھی کرتے ہیں۔
اس سب انفارمیشن سے ہم اس انتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ پرندوں نے قریبا ایک پاؤ وزن تک کے پتھر گرائے تھیجن سے آدمی اور جانور زکمی اور ہلاک ہوئے تھے۔
پرندوں کی قسم کا اندازہ۔؟
۱۔ سورۃ فیل میں جن پرندوں کا ذکر آیا ہے کہ انہوں نے پتھر پھینکے تھے ۔ وہ کون سے پرندے تھے ؟ اس سوال کا جواب دینا انتہائی مشکل لگتا ہے ۔ اس لئے کہ تمام عرب کی روایات میں کہیں بھی کسی خاص پرندے کا نام نہیں آیا ہے ۔ یعنی پرندے پہچانے نہ جا سکے تھے۔ کہ اس قسم کے پرندے تھے۔ حتیٰ کہ ان کی قسم بھی بیان نہیں کی گئی ۔ کہ یہ فلاں پرندے سے ملتے جلتے پرندے تھے۔ ان کا سائز فلاں پرندوں کے برابر تھا۔ وغیرہ وغیرہ اگر اس قسم کا کوئی بھی بیان ملتا تو کم از کم اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ ان ان پرندوں میں سے ہو سکتا تھا۔ اور (Process of Elimination) سے بتدریج خارج یا رد کرنے کے عمل سے قریباً حل تلاش کیا جا سکتا کہ ان دو تین پرندوں میں سے ہو سکتے تھے۔ ایسے عمل میں ان ممکن پرندوں کی عادات کے مطالعہ سے اس سوال کے جواب کو حاصل کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ اب اگر اس سوال کا حل تلاش کرنا ہے تو دنیا کے تمام پرندوں کا عموماً مطالعہ اور نجد،حجاز، بحر احمر کے پرندوں کا خصوصاً مطالعہ ضروری ہو گا۔
۲۔ اس مطالعہ میں عرب روایات جو کہ ہم تک پہنچی ہیں اور کچھ مدد دے سکتی ہیں۔ وہ یہ ہیں ۔ عکرمہ اور قتادہ کہتے ہیں ’’ جھنڈکے جھنڈ پرندے ، بحر احمر کی طرف سے آئے تھے اور اسی طرح کے پرندے نہ پہلے دیکھے گئے تھے اور نہ بعد میں ۔ ‘‘ یہ نجد کے پرندے تھے ۔ نہ حجاز کے اور نہ تہامہ کے (یعنی حجاز اور بحر احمد کے درمیانی ساحلی علاقے کے)
ابن عباس ؓ کہتے ہیں ان کی چونچیں پرندوں جیسی تھیں اور پنجے کتے جیسے عکرمہ کا بیان ہے ۔ ان کے سر شکاری پرندوں جیسے تھے۔(چیل ، گدھ، عقاب کی طرح کے جانور)
تقریباً سب راویوں کا بیان ہے کہ’’ ہر پرندے کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا۔ اور پنجوں میں دو دو کنکر۔ بعض لوگوں کے پاس یہ کنکر ایک مدت تک محفوظ رہے‘‘
ابو نعیم نے نوفل بن ابی معاویہ کا بیان نقل کیا ہے ’’ میں نے وہ کنکر دیکھے ہیں جو اصحاب فیل پر پھینکے گئے تھے وہ مٹر کے دانے کے برابر سیاہی مائل سرخ تھے‘‘
ابو نعیم نے ابن عباس کی روایت نقل کی ہے ’’کنکر چلغوزے کے برابر تھے‘‘
ابن مردویہ کی روایت ہے ’’ بکری کی مینگنی کے برابر ‘‘
۳۔ ان روایات کی روشنی میں جو نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں وہ یہ ہیں:
(ا) پرندے کی چونچ اور پنجے اتنے سائز کے تھے کہ وہ مٹر کے دانے کے برابر جسامت کے پتھر بآسانی اٹھا سکتے ہوں۔ (صرف سائز کو سامنے رکھ کر اس فیصلے پر بآسانی پہنچا جا سکتا ہے کہ پرندے قریبا ًکوے کے سائز کے یا اس سے بڑے ہوں گے۔
(ب) پرندے کی چونچ اور پنجے میں وزن اٹھا نے کی قوت ہونی چاہیے۔ اگر چہ وزن کا اندازہ نہیں دیا گیا ، کسی بیان میں نہیں، مگر حرکت کے کلیوں کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگرا س پتھر کی قوت جوکہ عام بندوق کی گولی کے برابر تصور کی جائے تو اس پتھر کا وزن اندازاً تین سے پانچ چھٹانک ہونا چاہیے۔ اگر صرف زخمی کرنے والی قوت متحرکہ تصور کی جائے تو یہ وزن دیڑھ سے اڑھائی چھٹانک بھی ہو سکتا ہے۔ اتنا وزن تو چڑیا اور کوے اور اس سے بڑے پرندے بآسانی اٹھاکر لے جا سکتے ہیں۔
(ج) یہ پرندے عرب کے زمینی پرندے نہ تھے اگر یہ زمین پر رہنے والے ہوتے تو پہچان لئے جاتے ۔
(د) یہ پرندے بحر احمر کے پرندے ہو سکتے تھے۔ اس لئے کہ بحری پرندوں کی پہچان زمین پر رہنے والوں کے لئے ان سے نا مانوس ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں تھی۔ اسی طرح بحری پرندے عموماً زمین کی طرف نہیں آتے ۔ ان کا صرف ایک بارز مین پر آنا ممکن ہو سکتا ہے۔ اور اس وجہ سے نہ پہلے اور نہ بعد میں دیکھا جانا ان کے بحری پرندے ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ صرف قابل اعتراض بات یہی ہے جو رہ جاتی ہے کہ عرب جہا ز ران قوم بھی تھی۔ اس لئے ساحل کی طرف سے اتنے بڑے جھنڈ کے جھنڈ پرندے آتے ہوئے دیکھ لئے جاتے۔ اور وہ عرب ان کو پہچان لیتے کہ کس قسم کے پرندے تھے۔ لیکن یہ اعتراض بآسانی رد کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ مکہ کے ساتھ کے ساحل پر صرف جدہ ہی بندرگاہ ہے ۔ اس لئے ان پرندوں کا بحر احمر کے ساحل کے کسی بھی ایسے حصہ سے آنے کا یقیناً امکان ہے۔ جہاں پر جہازران عرب نہ رہتے ہوں۔ مکہ سے قریب ترین ساحلی ہوائی راستہ (Crows Flight) سے قریباً 30میل یا 50کلو میٹر ہے۔ اتنا فاصلہ ان بحری پرندوں کے لئے طے کرنا ممکن ہے۔
(ر) یہ پرندے غیبی پرندے ہو سکتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پیدا کئے گئے ہوں ۔ صرف اس خاص مقصد کے لئے۔ اس لئے یہ خاص شکل و صورت اور جسامت کے ہو سکتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے نہ ہی اس واقعہ سے پہلے دیکھے گئے تھے اور نہ ہی بعد میں ۔
۴۔ اس لئے پرندوں کی قسم کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پرفی الحال پہنچنا مشکل ہے۔ پرندوں کے بارے میں معلومات بہم پہنچنے پر ان کی ممکن قسم یا اقسام کا فیصلہ کیا جا سکے گا۔
۵۔ ان پرندوں نے کنکر کیوں اٹھائے؟ اور ابرھہ کے لشکر پر کیوں برسائے ؟ ان پرندوں نے عادت کے خلاف کیوں عمل کیا؟ ایسی سب باتوں کا جواب ایک ہی ہے جو کہ ہر مذہب رکھنے والے انسان کے لئے قابل قبول بھی ہو سکتا ہے ؟(اور ہو سکتا ہے کہ کسی دن سائنسی علوم بھی اس درجہ تک پہنچ جائیں کہ جن سے یہ ثابت کیا جا سکے ۔ کہ پرندوں میں بھی یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی خاص فریکونسی کے پیغام موصول کر سکتے ہیں۔ اور ان پیغامات اور ہدایات پر عمل کر سکتے ہیں ) اور وہ معجزہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت عادت کے خلاف عمل کا ظہور ہے۔
۶۔ پرندوں کی قسم اورخرق عادت عمل کے بارے میں تعین علم یا روایات کے باوجود اس حقیقت کو نہیں جھٹلا یا جا سکتا ۔ کہ ابرھہ کے لشکر کی تباہی کا موجب یہی پرندے تھے۔ اس لئے کہ اس زمانے میں ہوا سے حملہ کرنے کا تصور تک نا پید تھا۔ لڑائی میں کسی لشکر کو شکست دینے کا ذریعہ صرف وہی ہتھیار تھے جو کہ انسان کی اپنی قوت کو استعمال کر کے چلائے تھے۔ اس لئے ان کا مار کرنے کا فاصلہ محدود دتھا ۔ اور ان سے سب عرب واقف تھے۔ منجنیق عربوں میں حضرت عمر ؓ کے زمانے میں استعمال میں آئی اور وہ بھی (Heavy Artillery)کے طور پر بڑے پتھر پھینکنے کا ذریعہ تھی۔ اور اسی کام کے لئے ڈیزائن کی گئی تھی۔ اسی طرح پہاڑی دروں میں بھی اوپر سے بڑے بڑے پتھر پھینکنے کا رواج تھا۔ جن کا مقصد دشمن کی یقینی موت اوردرے کا بند کرنا تھا۔ اور سب سے بڑا اثر یہ تھا۔ کہ اس ہتھیار کے خلاف دشمن کے پاس ایسا کوئی ہتھیار نہ تھا۔ جس سے وہ جوابی کاروائی کرنے کے لئے زمین سے پہاڑ کی چوٹی کی طرف چیزیں پھینک سکتا ۔ اس لئے اس ہتھیار کے خلاف اپنی مجبوری و معذوری ہی اسے فوراً پسپائی پر آمادہ کردیتی تھی۔
پرندوں کی تفصیل جو روایات میں آتی ہے کہ انہوں نے چونچوں اور پنجوں میں پتھر اٹھا رکھے تھے۔ اس سے پرندوں کی پہچان میں مندرجہ ذیل اطلاح معاون ہو سکتی ہے۔
پرندوں کو پہچاننے کے لئے ان کو پہلے دو اقسام میں تقسیم کریں:
(i بحری یا پانی کے پرندے:
ان پرندوں کے پنجے نہیں ہوتے نہ ہی یہ پنجوں میں کوئی چیز پکڑ سکتے ہیں ۔ کیونکہ پانی میں تیرے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پنجوں میں انگلیوں کے درمیان گوشت کی جلد رکھی ہوتی ہے۔ اس طرح پورا پنجہ ایک چپو کی طرح ہوتا ہے ۔ چپٹا Flatتا کہ پرندے اس کے ذریعے پانی پر تیر سکیں ۔ یہ پرندے عموماً مچھلیوں پر گزارہ کرتے ہیں۔
(ii زمینی پرندے : زمینی پرندے چونکہ درختوں پر رہتے ہیں اس لئے قدرت نے ان کو درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھنے کے لئے انگلیوں کی شکل میں پنجے دئیے ہیں۔ جس کے آخر میں ناخن ہوتے ہیں۔ یہ ٹہنیوں پر اس طرح اچھی طرح پکڑ کر بیٹھ سکتے ہیں ۔ دوسرے ان کو خوراک کے لئے زمین کے کیڑے مکوڑے چھوٹے جانور، جیسے چوہے ، سانپ ، گرگٹ ، چوزے ، مردار وغیرہ کھانے ہوتے ہیں۔ اس لئے بھی ان کو پکڑنے کے لئے اور پکڑ کر اڑنے کے لئے Holding Powerچاہیے ہوتی ہے۔ جس کے لئے انگلیوں کی شکل کے پنجے ضروری ہیں۔ زمین کے پرندے بھی دو اقسام میں ہوتے ہیں۔
ا) دانا دنکا کھانے والے: یہ چھوٹے پرندے اناج یا نباتاتی غذا پر گزارا کرتے ہیں پھل فروٹ ، غلہ ، کیڑے مکوڑے ، چیونٹی وغیرہ کھاتے ہیں۔ یہ چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں
ب) گوشت کھانے والے پرندے : شکار ی پرندے یا مردار صاف کرنے والے پرندے (Scavengers)گوشت کھاتے ہیں۔ شکاری پرندے چھوٹے پرندوں کا خود شکار کر کے کھاتے ہیں۔ جبکہ چیل ، گدھ وغیرہ مردار کھانے والے پرندے ہیں خود شکار بھی کرتے ہیں ۔ ان پرندوں کی وزن اٹھانے کی قوت بہت ہوتی ہے۔ یہ دو کلوسے زیادہ گوشت اٹھا اور کھا سکتے ہیں۔
ج) انٹرنیٹ سے لی گئی چند معلومات جو کہ شکاری پرندوں کے بارے میں ہیں پہلے تفصیل سے دی جا چکی ہیں مختصرا یہ ہیں۔:
(i Bald Eagle
یہ چار پونڈ یا 1.81کلو وزن اٹھا سکتا ہے۔ 1987؁ء میں ایک ایگل 15پونڈ اٹھا کر لے جاتا دیکھا گیا تھا۔
(ii Harp Eagle
جنوبی امریکہ میں ایک ایگل 13پونڈ یا 5.9کلو اٹھا کر لے گیا ہے۔
(iii چیل: 0.55پونڈ یا 0.25کلو وزن اٹھالیتی ہے
(iv African Fish Eagle عموماً 1کلو گرام کی مچھلی اٹھا کر لے جاتا ہے۔ اگر مچھلی 2.5کلو سے زیادہ وزنی ہو۔ تو یہ پانی کے ساتھ تھوڑی بلندی پر اڑتے ہوئے ساحل پر لے جا کر کھاتا ہے۔ زیادہ وزنی مچھلیوں میں 3.7کلو کی مچھلی بھی بعض دفعہ لے جاتا ہے۔
۷۔ پرندوں کا کنکر پھینکنا بھی ایسا ہتھیار تھا ۔ جس کے خلاف ابرھہ کے لشکر کے پاس کوئی ایسا ہتھیار نہ تھا۔ جو کارگر ہوتا۔ اس لئے اس کی بھی فوراً پسپائی قدرتی امر تھا۔
اس طرح چھوٹے پتھر اور زیادہ رفتار کے ساتھ ہلاکت کے قابل ہتھیار بنانے کا تصور اگر موجود تھا تو صرف گوپھن کی شکل میں تھا۔ اور جس کو استعمال کرکے حضرت دائود ؑ نے جالوت کو مارا تھا۔ مگر گوپھن کے استعمال میں چونکہ مہارت (Accuracy) اور (Consistancy)لانا مشکل ہوتا ہے اس لئے یہ صرف پرندوں کو فصلوں سے اڑانے کے لئے ہی استعمال ہو رہی ہے۔ اور بطور ہتھیار اس کے استعمال کا ذکر صرف حضرت دائود ؑ کے قصے میں ہی آیا ہے۔ جو کہ اس وقت بھی حیرت کا باعث تھا۔
۸۔ حضرت دائود ؑ نے بھی پتھر کی رفتار بڑھانے کے لئے جسمانی قوت کو ہی استعمال کیا تھا۔ انہیں کوئی اور ذریعہ معلوم نہیں تھا۔ کشش ثقل یا زمین کی کشش کے تحت رفتار کا بڑھنا اگر چہ معلوم تھا مگر اس قوت کو استعمال کرنے کے لئے پہاڑوں سے دشمن پر پتھر لگانا پریکٹس ہوتا رہا ہے۔ لیکن پرندوں کا پتھروں کو بطورہتھیار استعمال کرنا کبی سنا نہیں گیا تھا ۔
۹۔ بغیر حملہ کئے کسی لشکر کے واپس چلے جانے کی دوسری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً طوفان ، بادوباراں ، بیماری کا پھیل جانا ، کسی سردار لشکر کا بیمار ہونا یا مر جانا وغیرہ وغیرہ بد شگونی ، نفسیاتی مجبوری یہ سب وجوہات تاریخ میں مختلف مواقع پر پیش آ چکی ہیں۔ اور ان کا ریکارڈ بھی محفوظ ہے۔ ابرھہ کے لشکر کی تباہی کا سبب اگر ان سب باتوں میں سے کوئی ہوتا تو یقینا اس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ۔ اس کے برعکس اس کے لشکر کی تباہی کی بنیادی وجہ پرندوں کو بتایا گیا ہے ۔ اور یہی اس واقعہ کی صداقت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ کہ ایسی بات بھی ہو چکی ہے ۔ جو کہ نارمل حالات میں نہیں ہو سکتی، اس لئے یہ معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ لوگوںنے اس واقعہ کا بحالت ہوش و حواس مشاہدہ کیا بلکہ یہ عرب میں ایسا جانا پہچانا واقعہ تھا کہ اس نے ان کے لئے ایک کیلنڈر کی بنیاد رکھ دی۔ یعنی اس واقعہ کی نسبت سے وقت کا شمار ہونے لگا، جسے عام الفیل یعنی ہاتھیوں والے سال کا نام دیا گیا۔

ابراھہ کی فوج کسبیماری کی وجہ تباہ ہوئی تھی:؟
روایات ؛۔تاریخی روایات میں ابرھہ کی فوج پر کنکریوں کی وجہ سے جو بیماری پیدا ہو گئی تھی ان کا مختصر بیان یہ ہے۔
(ا) محمد بن اسحاق اور عکرمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا اور بلاد عرب میں پہلی دفعہ دیکھا گیا تھا۔
(ب) ابن عباس کی روایت ہے کہ جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لا حق ہو جاتی اور کھجاتے ہی جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہو جاتا۔
(ج) ابن عباس کی دوسری روایت ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں بالکل نکل آتی تھیں۔ خود ابرھہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا۔ اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا تھا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا ۔
(د) عطا ء بن یسا ر کی روایت ہے کہ سب کے سب اس وقت ہلاک نہیں ہو گے تھے، بلکہ کچھ تو وہیں ہلاک ہو گئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گرتے گئے۔ ابرھہ بھی بلاد خشعم پہنچ کر مرا۔
(ر) عبداللہ بن الیزبصری اپنے اشعار میں کہتا ہے۔ ساٹھ ہزار تھے جو اپنی سرزمین کی طرف واپس نہ جا سکے ،اور نہ ہی واپس ہونے کے بعد ان کا بیمار (ابرھہ ) زندہ رہا۔
ان تمام روایات کے سامنے رکھنے سے چند حقائق واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں جو یہ ہیں۔
(ا) کنکر لگنے کے بعد جو زخمی ہو گئے تھے ان کو کوئی بیماری لا حق ہو گئی تھی۔
(ب) تمام زخمی سپاہی موقع پر ہی ہلاک نہیں ہو گئے تھے بلکہ واپسی کے دوران زخموں کی تاب نہ لا کر مر گئے تھے۔
(ج) ان کے زخمی ہونے اور مرنے کے درمیان وقفہ تھا۔
(د) ابرھہ خود بھی واپسی پر ہی مرا۔ آئیے دیکھیں کہ آج کل کے میڈیکل علم کے مطابق کون سی بیماری لا حق ہو سکتی تھی۔ جس کی علامات (SYMPATOMS)ان روایات میں دی ہوئی ہیں۔ ٗروایات میں اگر چہ قصے کہانی، تعصب ، اور مبالغہ (مرچ مسالہ) شامل ہوتا ہے۔ مگر ان میں سچ کی آمیزش ضرور ہوتی ہے۔ جس کو ڈھونڈنا ہی محقق کا اصل کام ہوتا ہے۔ اس لئے ان روایات کے مطابق جو بیماریاں ابرھہ کی فوج کو لاحق ہو سکتی تھیں وہ یہ تھیں۔
(الف) کھجلی اور اس سے ایسی بیماری جس سے جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنے لگتا تھا۔
(ب) چیچک
(ج) کوئی ایسی بیماری جس میں جلد پھٹتی ہے۔ گوشت جھڑنے لگتا ہے۔ یا گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتے ہیں اور ہڈیاں تک نظر آتی ہیں۔ جہاں سے کوئی گوشت کا ٹکڑا جھڑتا ہے۔ وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا ہے۔
ان بیماریوں کا مطالعہ کسی ڈاکٹر کی مدد کے بغیر میرے لئے ممکن نہ تھا،اس لئے میں نے اپنے دوست ، گروپ کیپٹن(بعد میں ائر کموڈور) ڈاکٹر م منیر احمد طور، جو کہ بطور فلائٹ سرجن اور انسٹرکٹر، ائرو میڈیکل انسٹیٹیوٹPakistanAero medical Institute متعین تھے، کو اس تحقیق میں شامل کر لیا۔
مندرجہ بالا تمام روایات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ان تمام بیماریوں کا مختصراً احوال بیان کریں گے تا کہ ان سے معلوم ہو سکے کہ کون سی ایک یا ایک سے زیادہ بیماریاں لگ گئی تھیں ۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ ان تمام روایات میں وقت کا تعین نہیں کیا گیا یعنی یہ بیان کہ ’’ جس پر یہ لگنے کے فوراً بعد یا کتنی دیر بعد جسم گلنا شروع ہو جاتا تھا۔ اسی طرح دوسرے بیانات بھی وقت کو نہیں بتاتے۔ صرف ابرھہ ہی کی حالت کو لیا جائے تو وہ بھی اسی بیماری میں مبتلا ہوا جس میں دوسرے بھی مبتلا ہوئے تھے۔ مگر اس کے مرنے کا وقت اس کی واپسی کے بعد کا بیان ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بیماری اسے چند دن لا حق رہی تھی۔ اور اس کی فوری ہلاکت کا باعث نہیں بنی تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیماری زخمی ہونے کے بعد ظہور پذیر ہوئی تھی۔ اور چند دن رہنے کے بعد ہلاکت کا سبب بنتی تھی۔
دوسری بات یاد رکھنے والی یہ ہے کہ اس زمانے میںدنیا میں عموماً اور جزیرہ نمائے عرب میں خصوصاً بیماریوں کے بارے معلومات بہت کم تھیں۔ علاج معالجے کی سہولتیں بے حد محدود تھیں۔(یہی حال آج کل بھی ہے کہ پاکستان میں یا عرب ممالک کے تمام باشندوں کے صحت ، بیماریوں ، ان کے علاج کے بارے میں میڈیا کی بہتات کے باوجود علم بہت کم ہے) اس لئے جو بھی بیماری ابرھہ کی فوج کو لا حق ہوئی اس سے صحت یابی بہت کم ہوئی ہو گی اور اموات کا تناسب بہت زیادہ ہو گا۔تیسری بات یہ ہے کہ بیماری کے ساتھ ساتھ اللہ کے عذاب کا خوف بھی شامل ہو گیا تھا۔ اس لئے بھی بیماری سے صحت یابی مشکل تر ہو گئی ہو گی۔
بیماریوں کی شارٹ لسٹ Short Listingکے بعد اور روایات کو شامل کر کے صرف دو بیماریاں قابل مطالعہ رہ جاتی ہیں۔ وہ ہیں گیس گیگرین Gas Gangereneیا چیچک Small Pox جن کا جائزہ اگلے صفحات میں لیاجائے گا اور وہ کون سی بیماری تھی۔
چیچک (Small Pox)
چیچک کی بیماری کے جراثیم جب کسی انسان پر عمل شروع کرتے ہیں یا ان کا حملہ ہوتا ہے تو3دن کم سے کم وقت ہے جس کے بعد چیچک کی بیماری جڑ پکڑ سکتی ہے۔ بیماری کے ظاہر ہونے تک 7دن سے 17دن تک عموماً (12-10دن بھی) لگتا ہے۔یعنی اس کے بعدبدن پر چھالے (Rash)ظاہر ہونے تک 2سے 4دن اور لگتے ہیں یعنی 9سے 21دن کے بعد بدن پر بیماری کا اظہار ہوتا ہے۔
اس بیماری میں فوراً علامات ظاہر نہیں ہو جاتیں۔ بلکہ جراثیم کے لئے 9سے 21دن کا Incobation Period عمل کا دورانیہ لگتا ہے۔ اور اس کے بعد جسم پر چھالے (Rashes)ظاہر ہوتے ہیں۔ جن سے گڑھے پڑ جاتے ہیں۔ مگر جلد جھڑتی نہیں ہے۔ نہ ہی پیپ ظاہر ہوتی ہے۔ نہ ہی زخم پھٹتا ہے۔ یا گوشت جھڑتا ہے۔ اس لئے ابرھہ کی فوج کو یہ بیماری یقینا لاحق نہیں ہوئی تھی۔

Ref: CONTROL OF COMMUNICABLE DISEASES IN MAN BY ABRAM’S RENESEN 1975, AMERICAN PUBLIC HEALTH ASSOCIATION: WASHINGTON.
10 GAS GANGRENE گیس گنگرین
گیس گنگرین پٹھوں میں جراثیم کے اثرات سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ جراثیم میڈیکل کی زبان میں
Anaerabic bacteria of Clostridium Genusکہلاتے ہیں۔ یہ بیماری جنگی بیماریوں میں مہلک ترین ہے جو کہ بہت ہی تیزی سے بڑھتی بھی ہے۔ یہ جراثیم جنگی زخمیوں میں سے 50فی صد میں پائے جا سکتے ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہ بڑھ کر گیس گنگرین کی شکل اختیار کر لے۔
اس قسم کے جراثیم عام طور پر مٹی یا آدمیوں اور نچلے جانوروں کی آنتوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ جب کسی زخم پر اثر کرتے ہیں تو پہلے پٹھوں کی شکر میں تیزاب اور گیس پیدا کرتے ہیں ۔ اور ساتھ ہی ساتھ پٹھوں کی پروٹین میں حل ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ان حل پذیر گندگی کو پیدا کرتے ہیں جو پٹھوں کے ریشوں (Tissues)میں حل ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح بتدریج پٹھوں (Muscles)کے تمام ریشوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
گیس گنگرین عموما ً رانوں یاچوتڑ کے پٹھوں پر خطر ناک انداز میں اثرا نداز ہوتی ہے۔ اور یہ (Infection) یا بیماری عموماً تمام عضو میں سرایت کر جاتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ اس عضو کو خون مہیا کرنے والی بڑی نالی کے ساتھ چوٹ لگی ہو۔ اس بیماری کا بنیادی اور خطر ناک پہلو بھی خون مہیا کرنے والی بڑی نالی کو نقصان پہنچانے کا ہے۔
بیماری یاInfection پٹھوں میں اور اوپر نیچے پھیلتی ہے۔ اور اوپر کی جلد پھولنے لگتی ہے ۔ کیونکہ پٹھوں میں پیدا شدہ گیس اس کو نیچے دباتی ہے۔ حتیٰ کہ سفید پیپ جیسے دانے ابھرنے لگتے ہیں۔ اس وقت تک زخم عام طور پر خشک ہوتا ہے ۔ لیکن کچھ دیر بعد گیس کے دبائو کی وجہ سے پیپ کناروں سے بہنے لگتی ہے اور جہاں جہاں لگتا ہے اس میں بھی بیماری پھیلا دیتا ہے۔ بعد میں گیس کی وجہ سے گوشت کے لوتھڑے بھی نکلنے لگتے ہیں جو کہ پٹھوں کی ٹوٹ پھوٹ سے ہوتا ہیاور بو بھی آنے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ گردہوںمیں تکلیف پیدا ہو جاتی ہے جس سے پیشاب میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔
یہ بیماری بعض جغرافیائی خطوں میں عام پائی جاتی ہے جن میں Middle East نمایاں ہیں۔ جہاںپر یہ جراثیم
Cl Oedomations infection پیدا کرتے ہیں۔ ایسی جگہوں پر بیماری کے ظاہری اثرات قدرے مختلف ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر زخموں کا پھولنا اور پیپ کا نکلنا زیادہ ہوتا ہے مگر گیس اور بو کم ہوتی ہے۔ بعض حالتیں ایسی ہیں جن میں گیس گنگرین ہونے کے بہت زیادہ مواقع ہوتے ہیںوہ یہ ہیں۔
(i جہاں پٹھوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہو جیسے کہ بڑی ہڈیوں کے ٹوٹنے سے Compound Fracture
(ii جہاں زخم کوخون کی بڑی نالی کے راستے میں رکاوٹ پڑ گئی ہو۔ یا زخم پر لمبے عرصہ تک پٹی (Torniquet) رکھ کر پٹی بندھی رہی ہو۔
(iii جہاں پرزخم میں مٹی اور گندگی بھر گئی ہو یا زخم کے اندر گندے کپڑے یا کوئی اور گندی چیز چلی گئی ہو۔
(ivجہاں پر آپریشن میں دیر ہو گئی ہو ۔ چاہے ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں دقت کی وجہ سے یا پھر خوف (Shock)کی وجہ سے۔
اس بیماری کے لاحق ہوتے ہی بڑی تیزی سے حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ چند ہی گھنٹوں میں زخمی پریشان حال ہو جاتا ہے ۔ پھر موت کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مارفیا بھی اس پر اثر نہیں کرتا ۔ نبض تیز ہو جاتی ہے۔ بلڈ پریشر گر جاتا ہے۔ خون دینے سے بھی فائدہ نہیں ہوتا ۔ چاہے کتنی مقدار میں دیا جائے۔ ایسی حالت میں اگر آپریشن کیا جائے تب ہی مریض بچ سکتا ہے ۔ ورنہ وہ چند گھنٹوں میں مر جاتا ہے۔
پچھلی دونوں بڑی جنگوں کے تجربات کی روشنی میں یہ بتایا جا سکتا ہے کہ جب تک فوراً علاج شروع نہ کیا جائے تو یہ بیماری لاحق ہونے کے چانس بہت ہوتے ہیں ۔ علاج کی صورت میں گیس گنگرین ایک فی صد سے بھی کم لاحق ہو گی۔ اور اس میں بھی صرف 10فی صد مریض مریں گے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے ابتدائی دنوں میں جبکہ علاج کی سہولت کم تھی۔ 5 فی صد زخمی اس بیماری میں گرفتار ہوئے اور ان میں سے 50فی صد سے زیادہ مر گئے تھے۔
10 تجزیہ Analysis
اوپر دی گئی گیس گینگرین ، چیچک کی بیماریوں کے متعلق دی گئی معلومات اور اصحاب الفیل کے واقعہ کی روایات کا مقابلہ کریں تو فوراً یہ بات سامنے آ جاتی ہے اور ہم صرف ایک ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ابرھہ کی فوج کے سپاہیوں کو گیس گینگرین کی ہی بیماری لاحق ہوئی ہو گی۔ چیچک کی بیماری کو اس لئے رد کر دیا گیا ہے کہ اس بیماری میں صرف پھوڑے نکلتے ہیں گوشت نہیں جھڑتا ۔ گیس گینگرین چونکہ عموماً جنگ کے زخمیوں میں ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے بہت کم لوگ واقف ہوتے ہیں۔
جنگ میں ہی مٹی اور دھول ، گندگی ، کپڑوں کے زخموں کے اندر میں داخل ہو جانے کے مواقع بہت ہوتے ہیں۔ اس طرح گندے کپڑوں سے زخموں کو باندھنے کے مواقع بھی جنگی حالات میں ہوتے ہیں۔ اور زخم خراب ہونے کا چانس بھی لڑائی کے دوران زیادہ ممکن ہے۔ بلکہ اگر یہ کہہ لیں کہ زخم لگنے اور زخم خراب ہونے کے مواقع بھی صرف حالت جنگ ہو سکتے ہیں کیونکہ وہاں علاج معالجہ کی فوری سہولت ممکن نہیں ہوتی جب تک زخمیوں کو جنگ کے دوران ہی ہسپتال نہ پہنچایا جائے جو کہ میدان جنگ سے دور ہوں گے ۔ خاص طور پر آج سے پندرہ سو سال پہلے کے عرب کی حالت میں جہاںاصحاب الفیل کا واقعہ پیش آیا ، سرجری یا آپریشن ان دنوں تھا ہی نہیں۔ حکیموں کے پاس جراثیموں سے بچنے کی دوائیاں یعنی Antisepticیا Antibioticکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے کہ جراثیم یا ان کا توڑ ابھی تک دریافت ہی نہیں ہوا تھا۔ اس لئے پہلی جنگ عظیم کے مقابلے میں گیس گینگرین سے اموات کا تناسب 50فیصد کی بجائے اگر 100فیصد بھی کہہ لیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔
اگر اس بھگدڑ کا بھی تصور کر لیں جس میں ابرھہ کی فوج مکہ کے قریب محسر وادی Valley mohassir میں گرفتار ہوئی ہو گی۔ تو اس Stampedeمیں جانوروں اور انسانوں نے دوسرے انسانوں کو کتنا زخمی کیا ہو گا، اس کا اندازہ ہماری اپنی زندگی میں دنیا میں مختلف بھگدڑوں میں جو لوگ مارے جاتے ہیں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جیسے کسی سینما، کلب، بلڈنگ، دفتر یا فیکٹری میں آگ لگے جائے اور نکلنا کے راتے تنگ اور چند ہوں تو لوگ باہرنکلنے کی کوشش میں کمزور لوگوں کے دھکے دے کر اور گرا کر ان کے اوپر سے گزرتے ہیں تو ان کو مار ڈالتے ہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارتے ہر سال بہت حاجی کچلے جانے سے مر جاتے تھے ۔ یہ سلسلہ تب رکا ہے جب مختلف منزلوں پر مشتمل سڑکیں تعمیر نہیں ہو گئیں۔
ویسے بھی ابرھہ کی فوج مکہ سے واپس بھاگتے ہوئے (Retreat)جا رہے تھے۔ اس لئے کہیں رک کر علاج کرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جو بھی میڈیکل کی سہولت فوج کے ساتھ ہو ںگی وہ بھی تباہ ہو گئی ہوں گی کیونکہ حکیموں جراحوں وغیرہ نے بھی تو اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنا تھا۔ پھر دشمن ملک میں ہونے کی وجہ سے عربوں سے جو علاج مہیا ہو سکتا تھا، اس کا ملنا بھی نا ممکن بن گیا ہو گا۔ اس پر اللہ کا خوف، اس کے عذاب کا ڈر ۔ دشمن کے پیچھا کرنے کا اندیشہ، موت کا ڈر علیحدہ ہو گا۔ جو کہ بیماری سے شفا پانے میں اور بھی مشکلیں پیدا کر دیتا ہوگا۔
اس لئے آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ روایات میں جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ ہو بہو گیس گینگرین کی بیماری پر فٹ Fitبیٹھتی ہیں۔ اور موجودہ زمانوں کی جنگوں کی طرح ابرھہ کی فوج کو بھی یہی بیماری میدان جنگ میں لگی جو اس فوج کی تباہی کا باعث بنی ۔ خصوصاً پیادہ فوج کی تباہی ، جو کہ پرندوں کے پتھروں سے زخمی ہونے کے علاوہ اپنی ہی فوج کے ہاتھوں ، گھوڑوں ، رسد کے جانوروں تلے آ کر زخمی ہوئے ہوں گے۔ پیادہ فوج ہی عموماً کسی بھی فوج کا بڑا حصہ ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے ہی زمین پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے فوج کے بڑے حصے کی تباہی دوسرے عوامل کے علاوہ گیس گینگرین کے ذریعے میں ہوئی۔ سوار دستے جو کہ پیادہ فوج کی مدد کے لئے ہوتے ہیں وہ بھاگنے میں بھی پیادہ فوج کو مرنے کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔ سوار دستوں کی پیدا کردہ بھگدڑ جس میں ابرھہ کی فوج گرفتار ہوئی ہو گی اور خوف (Shock) کے اثرات نے بیماری میں اضافہ کر دیا ہو گا۔
اس لئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ روایات میں جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ گیس گنگرین کی تھیں۔ اور یہ بیماری ہی ابرھہ کی فوج کی اصل بربادی کا باعث بنی ہو گی۔

ابراھہ کی فوج کی تباہی میںنفسیاتی پہلوکا حصہ
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کلام پاک کے تاریخی واقعات کو صرف مذہبی لحاظ سے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ہر واقعے کے پیچھے ان گنت سیاسی،معاشی،مالی،معاشرتی، نفسیاتی، تہذیبی، کلچر کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور ان سے سیکھنے والے سبق بھی اتنے ہی متنوع ہوتے ہیں۔ میں نے ہاتھی والوں کے واقع کو زیادہ وسیع نظروں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں ہر صاحب علم کو اپنے علم اور تجربے سے اضافہ کرنا چاہئے۔
ابرھہ کی فوج کی تباہی میں تمام ممکنہ عناصر جو سکتے تھے یہ ہیں۔
مکمل فوجی شکست
شکست اور امن معاہدہ
لڑائی کے بغیرگفت و شنید سے امن معاہدہ
فطرتی عناصر جیسے موسم، زلزلہ کی وجہ سے واپسی جیسے غزوہ خندق میں کفار مکہ کے ساتھ آندھی کی وجہ سے ہوا
مگر ان میں سے کوئی بھی ایک وجہ نہ تھی۔بلکہ عذاب الہی تھا جس نے اسے واپسی پر مجبور کیا۔
ابرھہ کی فوج کی تباہی کے اسباب جانتے یا بیان کرتے وقت ، نفسیاتی پہلو کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا رہا ہے۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ اس نفسیاتی پہلو نے زیادہ کردار ادا کیا تھا۔ اس لئے واقعہ فیل کو اس پہلو سے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پورا نظارہ از سرنو تعمیر کیا جائے تا کہ ہمیں صحیح طور پر معلوم ہو سکے کہ اس وقت جونفسیاتی فضا قائم تھی، اس فضا میں پرندوں کے اچانک ظاہر ہونے ،کنکروں کے مارنے سے پیدا ہونے والے نفسیاتی اثرات کیا ہوں گے۔ اور ان نفسیاتی اثرات کے تحت اس فوج کا کیا حال ہو گا۔
ان کو آج کل سمجھنا ہمارے لئے بہ نسبت پہلے زمانے کے لوگوں کے زیادہ آسان ہے۔ 1965،1971کی انڈیا پاکستان کی جنگوں میں ہوائی حملوں کی وارننگ کے لئے Hooterالارم بجنے سے لوگوں کی کیا حالت ہو جایا کرتی تھی۔ وہ پاکستان کے تمام شہروں کے باشندوں کو پتہ ہے۔ ان فوجیوں کو بھی اندازہ ہے جو کہ دشمن کے ہوائی جہازوں کا شکار ہوتے تھے۔ ہوائی حملوں کے وقت، ان کے مقابلے میں زمین والے اپنے آپ کو بے بس (Helpless)پاتے ہیں۔ جس سے حد درجہ کی مایوسی، یقینی موت (کہ بھاگ جانے کی جگہ نہیں ملتی ہے) وغیرہ کے ڈر کے جذبات طاری ہوجاتے ہیں۔ اور ہر ایک کی دعا اور خواہش ہوتی ہے کہ کاش ہمارے جہاز نمودار ہو کر ان کو جھپٹ لیں۔لاہوریوں کا فضائی جنگ کا نظارہ کرنا بہت مشہور بات ہے۔
تمام علوم میں،ہم چونکہ معلوم سے نا معلوم کا اندازہ یا قیاس کرتے ہیں ۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آج کل کے دور میں جاپانیوں کے پرل ہاربر Pearl Harberپر فضائی حملے کا مقابلہ کریں تو بات سمجھنی آسان اور بھی جائے گی۔۔ جنہوں نے یہ فلم دیکھی ہے ،وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جاپانی جہازوں کا بندرگاہ پر حملہ بالکل واقعہ فیل کی طرح ہی کاتھا۔ اور امریکیوں کی نفسیاتی حالت بالکل ابرھہ کی فوج کی طر ح تھی۔ جنہوں نے یہ فلم نہیں دیکھی وہ یہ فلم ضرور دیکھیں اور دیکھ کر واقعہ فیل کا تجزیہ کریں تو بڑی مدد ملے گی۔ اور جن لوگوں نے پہلے سے یہ فلم دیکھی ہوئی ہے ، ان کو پتہ ہے کہ بعینہ یہی صورت امریکن بحری بیڑے پر جاپانی حملے کے وقت بنی تھی۔ ۔ امریکن ابھی ڈیوٹی پر جانے کے لئے صبح کے وقت تیار ہو رہے تھے کہ ان پر جاپانی ہوائی جہازوں نے، نیچی پرواز کرتے ہوئے، بغیر کسی وارننگ کے، اچانک حملے Surprize Attackکے طور پر ، نمو دار ہوئے تھے اور انہوں نے ہر طرف سے بمبوں کی بارش شروع کر دہی تھی اور ساتھ ہی گولیوں سے بھی حملہ کر دیا تھا۔ اور چند منٹوں میں پورا جزیرہ ، عمارتیں،اور بحری بیٹرہ کے سمندری جہاز، ہوائی اڈہ پر تمام ہوائی جہاز، سب آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ کر تباہ ہو گئے تھے ۔ کسی بھی امریکن ہوائی جہاز کو ٹیک آف کرنے اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی مہلت نہ مل سکی تھی۔ نہ ہی اینٹی ائر کرافٹ گن کو فائر کرنے کی مہلت ملی تھی۔
اس سلسلہ کا دوسرا واقعہ اسرائیلی ائر فورس کا مصر پر، عید الفطر کے دن، اچانک فضائی حملہ تھا۔ جس کے نتیجے میں مصر کے تمام ہوائی جہاز، چند منٹوں میں، ہوائی اڈے پر کھڑے کھڑے تباہ کر دئیے گئے تھے۔ اس وقت مصریوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی اس کا آپ خود اندازہ لگا لیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو کتنا بے بس پایا ہوگا،۔ یہ اصحاب فیل سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا۔
افغانستان میں جب امریکہ نے طالبان کی اسلامی حکومت کو ختم کرنے کے لئے ہوائی حملہ کیا تھا تو دو دن کے بعد طالبان اس بمباری کی تاب نہ لا کر تتر بتر ہو گئے تھے۔مجھے یقین کہ سب لوگوں نے امریکن B-52 بمبار طیارون کی بمباری کی تسویریں دیکھی ہون گی۔
جنگ عظیم دوم میں جرمنوں کا انگلینڈ پر فضائی حملہ اتنا سخت تھا کہ لوگ مایوس ہو گئے تھے۔ ان کو چرچل نے یہ کہہ کر دلاسہ دیا تھا کہ جب تک ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تب تک ہم ہی جیتیں گے۔ بعد میں جب انگریزوں نے امریکیوں کی مدد سے جرمنی پر سینکڑوں جہازوں کے ساتھ بیک وقت حملہ کر تے تھے ۔ تو جرمنوں کا بھی یہی حال ہوا۔ میں نے جنگ عظیم دوم کی چند تصویریں شامل کر دی ہیں جن سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ نچے زمین پر بسنے والوں کا ان بمون سے کیا حال ہوا ہو گا۔
ان تمام جنگوں پر فلمیں بنی ہوئی ہیں ۔واقعہ فیل کو سمجھنے کے لئے جنگ عظیم دوم کی ان فلموں کو دیکھنا بہت ضروری ہے تب بات سمجھ میں آئے گی۔
ہماری اپنی دونوں جنگوں میں یعنی 1965؁ء اور 1971؁ء میں جن جن شہروں کو ہندوستانی ہوائی حملوں کا تجربہ ہے ، یا فرنٹ پر سپاہیوں کو فضائی حملوں کا تجربہ ہے۔ وہ آپ کو بخوبی بتا سکتے ہیں کہ فضائی حملے کے وقت کیسی مایوس کن حالت ہوتی ہے۔ Helplessnessکی۔ اور کیسے اس وقت سپاہی یا شہری اپنی فضائیہ کی آمد کے منتظر اور دعا گو ہوتے ہیں۔
یہی حالت ابرھہ کی فوج کی ہو گی ۔ کیونکہ فضائی حملے کے خلاف دفاع بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ شہریوں کا یا زمین پر فوج کا۔ اور نفسیاتی حالت مکمل مایوسی کی ہوتی ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کی لڑائی یا جنگ کرنے کی طاقت اور جذبے کا انحصار جیتنے کی امید اور اعتماد پر ہوتا ہے۔ جونہی وہ مایوسی کا شکار ہوتا ہے تو وہ ترنوالہ بن جاتا ہے۔ اور طاقت رکھنے کے باوجود لڑنے کی صلاحیت یا will power چھوڑ دیتا ہے۔ اسی لئے اس کو دل چھوڑ دیناکہتے ہیں۔

3 ابرھہ کی فتح یمن کے بعد کی نفسیاتی فضا:
ابرھہ بذات خود عیسائی تھا۔ اور یمن کی فتح بھی عیسائی مذہب کے ماننے والوں کی حمایت میں ہوئی تھی۔ یمن کے یہودی عیسائیوں پر بے انتہا ظلم ڈھا رہے تھے۔ اور انہیں یہودی مذہب اختیار کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔ اور جو بھی یہودیت کو ماننے سے انکار کرتا تھا، اسے قتل کر دیتے تھے یا زندہ جلا دیتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ صرف زندہ جلنے والے عیسائیوں کی تعداد بیس ہزار (20000)تک پہنچ چکی تھی، جو قتل کر دئیے گئے ان کی تعداد معلوم ہی نہیں ۔ان کو بچانے کے لئے جو فوج حبشہ (اتھوپیہ) سے آئی تھی۔ اس کے سپاہی مذہبی جذبہ سے سرشار تھے اور یہودیوں پر فتح پانے کے بعد ان کا عیسائیت کی سچائی پر ایمان اور بھی پختہ ہو گیا ہو گا ۔
عیسائیت پر عمل کرنا اس مذہبی فضا کا یقینا ایک لازمی جزو ہو گا۔ اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابرھہ نے جب مارب کے عرم کے تالات کی 542؁ء میں مرمت شروع کی تو سب سے پہلے وہاں گرجا بنوایا تا کہ مزدور عبادت کر سکیں۔ یعنی اس زمانے میں ابرھہ اور اس کے ساتھی سب Practicing Christiansیا با عمل عیسائی ہونگے۔ ہم بھی ہر بات میں مذہب کے داخل کرنے کی پریکٹس کرنے والے لوگ ہیں۔اور جذبہ پیدا کرنے کے لئے مذہب ہی کو استعمال کرتے ہیں۔
ان سب حالات کے پیش نظر ابرھہ اور اس کی فوج کے عیسائیوں سپاہیوں کو عیسائی مذہب کی سچائی پر مکمل یقین ہو گیا تھاکہ دنیا میں صرف یہی سچا مذہب ہے اور یہ کہ خدا ان کے ساتھ ہے۔ اور وہ ہر جگہ ان کی مدد کرے گا۔ اور وہ ہر دفعہ فتح یاب ہوں گے۔ اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔ جبکہ دشمن نا کام۔
4 واقعہ فیل سے پہلے کی فضا:
جب ابرھہ نے مکہ معظمہ کے بیت اللہ یا کعبہ کی جگہ اپنے تعمیر کردہ گرجا کو عربوں کے لئے مرکز بنا نا چاہا تو اس کی یہ خواہش اس بات کی طرف واضح اشارہ تھا کہ :۔
(i ابرھہ عیسائیت کو مذہب ابراہیم پر غالب کرنا چاہتا تھا۔ ( اہل عرب کا مذہب مذہب ابراہیم تھا اگر چہ انہوں نے بت پرستی وغیرہ رسوم کو اس میں شامل کر لیا تھا) حالانکہ عیسائیت اور یہودیت دونوں مذہب ابراہیم ؑ کا حصہ ہیںاورحضرت ابراہیم ؑ کے بعد ہی حضرت موسیؑ اور عیسیؑ تشریف لائے۔
(ii ابرھہ عربوں سے لیڈر شپ چھین کر اہل حبشہ کو دینا چاہتا تھا کیونکہ اس طرح اہل حبشہ ہی نئے گرجا گھر کے متولی بنتے اور تمام دنیا، خانہ کعبہ کی طرح، اس گرجا کا حج کرتے ۔
(iii ابرھہ اس طریقہ سے کعبہ کے ساتھ منسلک سیاسی اور تجارتی فوائد پر بھی کنٹرول حاصل کرلیتا۔
(iv ابرھہ بطور ایک عجمی، تمام عربوں پر حاوی ہو کر ان کو محکوم بنا لیتا ۔
یہ تمام مقاصد عربوں کے مزاج کے خلاف تھے اس لئے عربوں کے دل میں ابرھہ کے لئے بغض و عداوت پیدا ہونا قدرتی بات تھی۔ جتنی شدید خواہش ابرھہ کے دل میں تھی، اتنی ہی نفرت عربوں میں پیدا ہونا لازمی تھی اور ان میں ابرھہ کے خلاف گٹھ جوڑ اور سازش کرنا قدرتی رد عمل تھا اور ہو اہو گا۔
جہاں ایک طرف گرجا بنا کر ابرھہ اپنی کامیابیوں پر نازاں ، مستقبل کی چالوں کے بارے میں پر امید ، تما م عربوں پر عیسائیت کو غالب کرنے اور ان پر حکومت کے خواب دیکھ رہا تھا تو دوسری طرف عربوں کا رد عمل بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہو گا۔ اور مختلف صورتیں اختیار کر رہا ہو گا جیسے کہ محکوم طاقتور کے خلاف اختیار کرتے ہیں اس کی جدید مثالیں ہم سب نے اپنی زندگی میں انگریزوں کے خلاف دیکھی ہیں جن میں عدم تعاون ، بائیکاٹ ، ہڑتال، جلوس پتھرائو ، جلائو ، گھیرائو ، وغیرہ شامل تھیں۔ جو کہ پاکستان بننے کے بعد بھی بد قسمتی سے جاری اور دیکھی جا سکتی ہیں۔
گرجا گھر میں گندگی یا پاخانہ کرنا ۔اسے آگ لگانا ،نفرت کا اظہار اور برائی ختم کرنے کے ارادہ کا اظہار تھا۔
اگر آج کل کے حکومتی حربوں کو دیکھیں جو ایک ملک کی حکومت دوسرے ملک کی حکومت کے خلاف جارحیت اختیار کرنے کے جواز کے لئے اختیار کرتی ہیں تو یہ بعید از قیاس نہ ہو گا کہ ابرھہ نے اپنے گرجا کے عربوں کے بائیکاٹ کو دیکھ کر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادہ اور منصوبہ بنایا ہو اور اس کا جواز بنانے کے لئے خود ہی گرجا گھر کو آگ لگا دی ہو تا کہ اس سے دو فوائد حاصل ہو جائیں۔ ایک خانہ کعبہ پر حملہ کا جواز اور بہانہ اور دوسرے فوج اور پبلک ، عوام میں مذہبی جوش و جذبہ پید ا کرنا۔ بہر صورت چاہے آگ اس نے خود لگائی /لگوائی یا عربوں نے لگائی ،اس سے نتیجہ وہی نکلا کہ عیسائی ابرھہ کا ساتھ دینے پر فوراً تیار ہو گئے ۔ اور انتقام کی آگ میں سلگنے لگے۔
اب ان کی ذہنی حالت انتقام لینے ، خانہ کعبہ کو مسمار کرنے اور عیسائیت کو فتح مند دیکھنے کی تھی۔ یعنی اب اس میں ذاتی اور مذہبی انتقام اور غصے کا جذبہ شامل تھا۔ اس کے ساتھ ہی فتح کی واضح امید بھی تھی۔ اس لئے کہ اہل عرب ان کا مقابلہ کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے۔ جن لوگوں نے مزاحمت کی کوشش کی تھی۔ وہ ان پر غالب آ چکے تھے۔ اس نے ان کو اور بھی حوصلہ مند بنا دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں ابرھہ کی فوج فتح کے نشہ میں چور تھی۔ تمام راستے میں عربوں کے مختلف قبائل کی اطاعت ، حضرت عبدالمطلب کی اپنے اونٹوں کی بازیابی یا تاوان کی گنجائش و رضا مندی وغیرہ نے ابرھہ اور اس کی فوج کے حوصلے اور امیدیں بڑھا دیں ہوں گی۔ اور ان کو اپنی مکمل کامیابی کا اس حد تک یقین آ گیا ہو گا جتنا کہ ایک انسان کے لئے ممکن ہے۔
ایسی ذہنی حالت کے دوران حضرت عبدالمطلب ابرھہ کو اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ خود اپنے گھر کی حفاظت کرے گا۔ ابرھہ اپنے زعم میں سمجھا ہو گا کہ ابرھہ اور عیسائیوں کا خدا سچا ہے۔ اس کا مذہب سچا ہے۔ اس لئے وہ قریش اور عربوں کے خدا اور مذہب کے مقابلے میں ان کی مدد کرے گا۔ اور ان پر اس کو غالب کرے گا۔ اس کے دل میں ذرا سا بھی شک شبہ نہ ہو گا کہ اس کا خدا اس کی مدد نہ کرے گا یا عربوں کا خدا ان کی مدد کو اآجائے گا اور وہ عربوںپر غالب نہ آ سکے گا۔ غرضیکہ خدا کی مدد کا وہ خودکو حق دار سمجھتا ہو گا۔ یہی حالت اس کے سپاہیوں کی ہو گی۔ کیونکہ سپاہیوں کی ذہنی حالت افسروں کی ذہنی حالت کے مطابق ہوتی ہے۔ وہی تمام خبروں ، جذبات کا منبہ ہوتے ہیں۔ اور ان کی اطلاعات پر ہی یقین کیا جاتا ہے۔
ایسی ذہنی جذباتی نفسیاتی حالت کے ساتھ جس میں اپنی سچائی کا یقین، کامیابی کا بھر پور یقین تھا وہ مکہ کے قرب و جوار میں پہنچے ہوں گے۔
واقعہ فیل سے ایک رات پہلے فوج کی کی نفسیاتی حالت
اب آپ اس حالت اور منظر کا خود ہی اندازہ لگائیے کہ حملہ سے پہلی رات کیسے گزری ہو گی۔ رات کو دوسرے دن کے واقعات کی تفصیلات پر بحث ہوئی ہو گی کہ کیسے کعبہ پر قبضہ کیا جائے گا۔ اسے ڈھایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ یا پھر اس کا نام و نشان مٹانے کے لئے کیا کیا جائے گا۔ ایسے متوقع عمل سے ان کو کتنی خوشی ہوئی ہو گی۔ اس پر بحث ہوئی ہو گی۔ یہ سوچ سوچ کر ہی ان کے چہرے دمک اٹھتے ہوں گے۔ ہنس ہنس کر وہ باتیں کرتے ہوں گے۔ مکہ کے اطراف میں عربوں کے فرار و غیر موجودگی سے وہ لوٹ مار مال غنیمت کا سوچ کر خوش ہو رہے ہوں گے۔ دوسرے دن عید کی سی خوشیوں کے تصورات لے کر وہ سوئے ہوں گے۔ یہی حالت 1965 کی پاک بھارت جنگ میں انڈین آرمی کی ہوئی تھی۔ انہیںلاہور پر چند گھنٹوںمیں قبضہ کرنے کا یقین تھا کیونکہ اس وقت لاہور کے دفاع کے لئے کسی قسم کی فوج موجود نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستانی جنرل چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ وہ لاہور فتح کے بعد، لاہور جم خانہ میں، شام کے وقت شراب پیئے گا۔ اسے بھی پورا یقین تھا کہ پاک فوج اور عوام اس کا راستہ نہیں روک سکتے اور اس کی فتح یقینی ہے یعنی ایک دن میں لاہور پر مکمل قبضہ۔
صبح اٹھ کر وہ شوق سے تیار ہوتے ہیں۔ کسی مزاحمت کا خیال تک ان کے ذہن میں نہیں ۔ وہ یہی سوچ کر جمع ہوئے ہوں گے، صفیں باندھی ہوں گی جیسے وہ کسی کھیل تماشہ دیکھنے یا میلہ میں جا رہے ہوں۔ ابرھہ اپنی کامیابی ، خدا کی خوشنودی اور مقبولیت ، ثواب کا سوچ رہا ہو گا۔ خود اپنے ہاتھوں سے کعبہ پر قبضہ اور پھر اس کو آگ لگانے کے منظر کو سوچ کر ہی خوش ہو رہا ہو گا۔ اس کے ساتھی اسے کامیابی پر پہلے ہی مبارک باد دے رہے ہوں گے۔ اس کو خوش قسمت بتا رہے ہوں گے۔ کہ اس جیسا عظیم مذہبی کام اس کے ہاتھوں سے سر انجام دیا جا رہا تھا۔ غرضیکہ اس پورے منظر کا آپ خود ایسے ہی اندازہ لگائیں جیسے کہ ہم خود لڑائیوں میں اپنے مخالفین پر فتح کی امید و خواب دیکھتے ہیں۔ یا جیسے 1965؁ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل چوہدری نے دیکھے تھے کہ شام کو لاہورجم خانہ میں شراب پئیے گا کیونکہ پاکستان پر فتح ااور لاہور پر کنٹرول اتنا آسان کام سمجھاتھا کہ وہ ناکامی کا دل میں خیال لایا ہی نہ تھا۔
اسی ذہنی ونفسیاتی حالت کے ساتھ طبل کوچ بجتا ہے ۔ لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم ملتا ہے مگر یہ کیا؟ سب سے آگے ہاتھیوں کے دستے آگے بڑھنے سے انکار کر رہے ہیں۔ مہاوت پہلے تو ایسے جانوروں کی عادت سمجھتے ہیں کہ ہاتھی چلنا نہیں چاہتا ۔ اسے کچوکے لگاتا ہے۔ ہاتھی دائیں بائیں چلتا ہے ۔ مگر مکہ کی جانب جانے سے جھجک رہا ہے۔ ’محمود‘ نامی ہاتھی چلے تو قافلہ اور فوج چلے۔ اس پر ابرھہ اور دوسرے لوگوں کی بے چینی ، مایوسی اور جانور پر غصہ آرہا ہو گا۔ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ بے وقوف ہاتھی چلے
تو ان کا پروگرام شروع ہو۔ یہ ان کے پروگرام میں مانع ہو رہا ہے۔ وہ اسے کو س رہے ہوں گے۔ مگر ان کا ذہن ایک بار بھی اس طرف نہ گیا ہو گا کہ یہ سب کسی غیبی حکم سے ہو رہا ہو گا۔

ایکدم سے مختلف اطراف سے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ ظاہر ہ جاتے ہیں اور پتھروں سے فوج پر حملہ کر دیتے ہیں۔ پرندوں کی فوج کاپتھروں کی بارش کرنا ؟ بھئی یہ تو کبھی سنا نہیں گیا تھا۔ دیکھنا تو دور کی بات ہے۔ مگر یہ تو روز روشن کی طرح حقیقت ہے۔ ہر فوجی اور ابرھہ خود دیکھ رہا ہے۔ سپاہی مر رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں لوگ ، جانور ، گھوڑے ، ہر طرف بھاگ رہے ہیں بھگدڑ مچ گئی ہے Stampedeشروع ہے۔ لوگ گر رہے ہیں دوسرے ان کے اوپر سے گزر رہے ہیں، گرے ہوئے جانوروں کے پائوں کے نیچے روندے جا رہے ہیں۔اس حالت کا اندازہ آپ اپنے زمانے میں بھگدڑ کی مثالوں سے سمجھ لیں۔ جیسے حج کے دوران کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ ۔ کسی بلڈنگ میں آگ لگنے کے وقت ہنگامہ اور لوگوں کی بھاگ دوڑ سے ہلاکتیں۔ بم دھماکہ کے دوران لوگوں کا ایک دوسرے کو روندنا۔ ایسے میں سب سے پہلا خیال جو ابرھہ اور اس کی فوج کے ذہنوں میں کوندا ہو گا وہ یہ کہ ’محمود ‘ ہاتھی مکہ کی طرف خدا کے حکم کی وجہ سے نہ چل سکا تھا۔ اب بات واضح ہو گئی کہ یہ ہاتھی عربوں کے اللہ کا حکم مان رہا تھا۔ تو کیا پھر عربوں کا اللہ سچا ہے ۔ کعبے کا مالک اسے بچانے کے لئے آ گیا ہے۔ اسی نے اپنی فوج پرندوں کی شکل میں بھیج دی ہے۔ تو پھر یہ یقینا اللہ کا عذاب ہے جو کہ آن پہنچا ہے۔ کیا اللہ کے غصہ اور انتقام اور سزا سے بچا جا سکتا ہے؟ نہیں نہیں! یہی جواب اس کے ذہن میں آیا ہو گا۔ یہ جواب اپنے ساتھ ایسا ڈر اور خوف لایا ہو گا جس کے حد و حساب کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس لئے کہ ہر مذہب والوں کو یہ علم ہوتا ہے کہ خدا کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ جب بچنے کی کوئی امید ہی نہ ہو تو نا امید ی کس حد درجہ کی ہو گی، اس کا اندازہ بھی آپ خود ہی کر لیں۔
یہی حقیقت فوراً ہی ابرھہ کی فوج کے ہر افسر ، جوان پر کھل گئی ہو گی یعنی عذاب الٰہی کی آمد اور اس کے ساتھ بچ نہ سکنے کا کوئی موقع یا چانس ۔ یہی حقیقت خوف و ہراس طاری کرنے کے لئے کافی ہے، خوف کی حالت میں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انسان کی طاقت جواب دے جاتی ہے۔ پیسنے چھوٹ جاتے ہیں۔ فرار تک کی طاقت نہیں رہتی۔ پھر بھی جان پیاری ہوتی ہے۔ ہر ایک نے پتھروں سے بچنے کی کوشش کی ہوگی۔ مگر جائیں تو جائیں کہاں ۔ دو طرف وادی محسر کے پہاڑ، منی اور مذدلفہ کے، پہاڑ ہیں۔ سامنے مکہ ہے۔ صرف پیچھے کی طرف بھاگ سکتے ہیں مکہ سے مخالف سمت ۔
فوج کی حملہ کی ترتیب سے جو لوگ واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں۔ اس زمانے میں سب سے آگے پیدل فوج ہوتی تھی۔ ان کے آگے ہاتھی ہوتے تھے۔ دائیں بائیں رسالہ یا گھڑ سوار ، تیر انداز اگر استعمال کرنے ہوتے تھے۔ تو وہ سب سے آگے ہوتے تھے۔ یہاں تو کوئی مخالف فوج ہی نہ تھی۔ اس لئے آگے ہاتھی پھر گھوڑے ، پھر پیادہ فوج اور سب سے پیچھے رسد کا سامان ۔ اونٹ گدھے گھوڑے۔ رات کے قیام کی وجہ سے ہر طرف خیمے لگے ہوں گے۔ جیسے منی میں لگے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ابرہہ کی فوج منی اور میدان عرفات کا درمیانی حصے مین تھی
افسروں کے بیوی بچے ساتھ ہوں گے۔ رسد والے سپاہیوں کی فیملی ساتھ ہو گی۔ فوج کے لئے فالتو گھوڑے ہاتھی بھی رسد والوں کے پاس ہوں گے۔ کھانے کے لئے بکریاں ، گائے بیل ہوں گے۔ یہ سب قفلہ میلوں لمبائی تک محیط ہو گا۔۰( جب انگریزوں نے افغانستان پر درہ خیبر کے راستے حملہ کیا تھا تو ان کی فوج کو شروع سے آخر تک دس میل کی لمبائی تک فوج پھیلی ہوئی تھی۔) ۔ جب شکست ہو جائے اور سامنے والے دستے پیچھے بھاگیں تو پھر اس لمبائی میں پری فوج کی حالت ہوئی ہو گی۔ اس کا سماں یوں ہے۔
وادی تنگ، اوپر سے پتھر وں کنکروں کی بارش ۔ جس آدمی کو لگا ہو گا وہ گر کر یا زخمی ہو کر گرا۔ گھڑ سوارکے گھوڑے کو لگا تو وہ زخمی ہو کر بدک کر بھاگا۔ کنٹرول سے باہر ہوا۔ ہاتھی بھی بھاگ رہے ہیں پیچھے کی طرف۔ جانور۔ انسان سب زخمی ہو کر گر رہے ہیں دوسرے ان کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔ چیخ و پکا ر نے اور بھی گھبراہٹ پید ا کر دی ہے۔ غرضیکہ اس بھگدڑ سے قیامت کا سماں بن گیا ہوگا۔ خیمے راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، کچھ گر گئے ہیں ۔بہت سوں نے آگ پکڑ لی ہو گی۔ ہر طرف دھواں ہے گرد وغبار ہے تباہی و بربادی ہے۔
ابھی پرندوں کا ایک جھنڈ پتھرگرا کے گزر گیا تو دوسری جانب سے پرندے آنے شروع ہو گئے اب ان سے کہان چھپیں۔ کچھ لوگ پتھروں کی اوٹ میں چھنے کی کوشش میں ہیں۔ ہر طرف کنکر پھیل گئے ہیں۔ ان کنکروں پر چلنا اور بھی مشکل ہے ۔ جانور انسان پھسل کر گر رہے ہیں۔ لوگ کر اہ رہے ہیں غرضیکہ ابرھہ کی فوج اللہ کے عذاب سے بچنے کے لئے تتر بتر ہو نے کے کوشش میں ہے۔ راستوں کا پتہ نہیں، دشمن ملک ہے۔ راہنمائوں کو ڈھونڈا جا رہا ہے۔ لیکن اب وہ ان کو کہاں ڈھونڈ یں۔ کیا اور کیسے پوچھیں کہ اب کیا کریں۔ کدھر سر چھپائیں ۔ بھاگنے کا راستہ دکھانے والے عرب بھاگ گئے ہیں۔ وہ تو مکہ کی طرف بھاگ گئے ہوں گے۔ اور کنکروں سے بچ گئے ہوں۔ جا کر مکے والوں کو بتا یا ہو گا۔ مکہ والے خود بھی دیکھ رہے ہونگے ۔ کہ ان کا اللہ ان کی حفاظت کے لئے آ پہنچا ہے وہ شیر دل ہو کر ابرھہ کی فوج پر پیچھے سے حملہ آور ہوئے ہوں گے۔ راستے کے عرب قبائل بھی ان کے پیچھے پڑ گئے ہوں گے۔ آخر کا ر ہارے ہوئے اور بھاگتے ہوئے دشمن کو کون چھوڑے گا ۔ وہ تو آسان شکار ہوتا ہے۔
غرضیکہ آپ خود اس فوج کی حالت کا اندازہ لگائیں جو غصے سے بھر پور انتقام لینے، اپنے مذہب کو سر بلند کرنے ، عربوں پر فتح کے خواب اور اونچی امید یں لئے آئی تھیں۔ اچانک نا قابل یقین حالات سے دو چار ہو کر مکمل شکست سے دو چار ہو جائے۔ اور مخالف بھی سوائے خدا کے اور کوئی انسان نہ ہو۔ تو ان کی جذباتی ، نفسیاتی ، ذہنی حالت کیا ہو گی۔ یقینی موت ،شکست، ذلت عربوں کے خدا کی سچائی ۔ اپنے خدا سے مایوسی ، غلطی کا احساس ۔ گناہ کا بوجھ اپنا اور بیوی بچوں کا مستقبل تباہ۔ دوزخ کا عذاب ، عربوں کا ڈر Repurcussionsوغیرہ ۔ سب شامل ہو ں گے۔ ان سب میں سے خطر ناک ترین عذاب الٰہی کا پہنچ جانا۔ اور اس سے بچ نکلنے کی سکت نہ رکھنا ہے۔ ایسی نفسیاتی حالت میں جو مختلف اثرات مرتب ہو سکتے ہیں وہ یہ ہیں۔
(i کمزور دل لوگوں کا ہارٹ فیل ہو گیا ہو گا ۔ وہ فوراً مر گئے ہوں گے۔
(ii جن کا ہارٹ فیل نہ ہوا ہو گا ان پر موت کا خوف اس درجہ طاری ہوا ہو گا کہ وہ کسی کام کے قابل نہ رہے ہوں گے۔ نہ ہی وہ کھا سکتے ہوں گے جس کا لازمی نتیجہ انکے پاگل پنے پر متنج ہوا ہو گا۔
(iii کچھ لوگ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہوں گے۔
(iv جو زخمی ہو گئے تھے ان کا اپنی صحت یابی پر یقین ختم ہو گیا ہو گا۔ اور موت کا یقین اس حد تک ہو گیا ہو گا کہ ان کا صحت یاب ہونا اور بچ رہنا نا ممکن ہو گیا ہو گا۔ اس لئے کہ صحت یابی کے لئے امید کا سب سے بڑا نفسیاتی ہاتھ ہوتا ہے۔ (اس کی مثال ایک مکہ کے کافر کی ہے جس کو حضور اکرم ﷺ نے صرف نیزے سے گردن پر زخم لگایا تھا ۔ وہ صرف اس خوف سے کہ اللہ کے نبی کا زخم لگایا زخم ٹھیک نہیں ہو سکتا ۔ وہ مر گیا حالانکہ معمولی سا زخم تھا)
(v جینے سے دل اچاٹ ہو گیا ہو گا۔ زندگی بوجھ بن گئی ہو گی۔ ایسے میں خود کشی کا رجحان عام ہوگا۔ کیونکہ مدافعت کا جذبہ اور جسمانی قوت ختم ہو جاتی ہے۔
(vi مایوسی کی وجہ سے مدافعت کا جذبہ اور قوت ختم ہو جاتی ہے اس لئے وہ عربوں کا ترنوالہ بن گئے ہوں گے جبکہ بھاگتے ، شکست خورہ دشمن پر عرب شیر ہو گئے ہوں گے۔
(vii علاج معالجہ کی سہولتوں کے ختم ہونے سے زیادہ تر زخمی زخمو ں کی تاب نہ لا کر مر گئے ہوں گے۔
(viii جو واپس پہنچ سکے ہوں گے وہ ویسے ہی دوسروں کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہوں گے۔
(ix ایسی حالت میں محکوم و مفتوح علاقوں میں بغاوت قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اس نے باقی لوگوں کا کام تما م کر دیا ہو گا۔
(x گیس گنگرین کے نتیجے میں جراثیم کا Incubation timeصرف 9گھنٹے ہے۔ اس لئے صبح یا دوپہر کو زخمی ہونے والوں کے زخم شام تک پٹھنے لگے ہوں گے۔ علاج معالجہ کی سہولیات اس زمانے میں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ایسے زخموں کے لئے Anti Bioticدوائیاں چاہئیں ۔ آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے زیادہ تر زخمی اس مرض سے مر گئے ہوں گے۔ جنگ عظیم اول کا تجربہ ہے (جبکہ دوائیاں موجود تھیں)کہ گیس گنگرین کے 50فی صد زخمی مر گئے تھے۔ آپ چھٹی صدی کا سوچ لیں وہاں مرنے کی نسبت کتنی ہو گی۔
(میرا خیال ہے کہ مجھے ابرہہ کی فوج کی طرح 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی فوج کی کیا حالت ہوئی تھی بیان کرنا بڑا ضروری ہے۔اللہ تعالی نے بھی بھارتی فوج کو پرندوں کے ذریعے ہی لاہور فتح کرنے میں شکست دی ،مگر یہ پرندے ہماری ائر فورس کے ہوائی جہاز تھے۔ جنکو، اپنے فضل و کرم سے ، ان پرندوں کی مماثلت کا ر ول عطا فرما دیا تھا اور انہوں نے بھی بھارتی فوج کا حملہ روکنے میں طیرا ابابیل کی طرح۔یعنی جھنڈکے جھندڈپرندوں کی طرح،حملہ کیا۔ ایک چار جہازوں کی فارمیشن آکر نیپام بمون کے ساتھ ٹینکوں کے ساتھ تباہ کر نے کے بعد ،فوری مشین گنوں کے ساتھ ٹرکون اور جیپوں کے کانوائے پر فائرنگ شروع کر دیتے تھے۔ایمونیشن ختم ہوتے ہی ہمارے سیبر طیارے واپس چلتے تھے تو اسی وقت دوسری فارمیشن حملہ آور ہونے کے لئے آرہی ہوتی تھی۔ سارا دن، ان پے در پے حملون سے بچنے کے لئے بھارٹی ٹینکوں کے ٹریک کی فلمیں جو ہمارے طیاروں نے ریکارڈ کی تھیں، وہ ہماری ائر فورس کا قابل فخر سرمایہ ہے۔ یہ دیکھ لیںتو ابرہہ کی فوج کی بھاگ دور سمجھی جا سکتی ہے۔
الحمد للہ تعالی کہ یہ واقعہ دراصل بھارتی فوج کے خلاف اصحاب ا لفیل جیسا ہی معجزہ تھا جو اللہ تعالی نے پاکستان بچانے کے لئے ائر فورس کے بیس سے پچیس سال کی عمر کے نوجوان پائلٹوں کے ذریعے انجام دلوایا۔ وہ ذات باری تعالی کسی سے بھی کوئی کام اپنی مشیت کے مطابق لے سکتا ہے۔سبحان اللہ تعالی ۔اللہ تعالی ان تمام پائلٹوں، مکینکوں اور سرگودھا بیس کے تمام کارندوں کو اپنے فضل سے نوازے آمین۔
میرے خیال میں ائر فورس کے افسروں کی خواتین کا ذکر بھی، غزہ احد کی خواتین کی طرح کرنا ضروری ہے۔چونکہ تمام پائلٹ پہلے دو دن صبح سے رات گئے تک اتنے مصروف تھے کہ گھر آنا ممکن نہ تھا تو بیس کی خواتین بھی اچھے اچھے کھانے بنا کر بھیج رہی ہوتی تھیں ۔بیس کماندر کی جرمن بیوی خود تشریف لاتی تھیں۔ خواتین کی شمولیت اور حوصلہ افزائی یقینا ہمارے لئے بہت ا ہم رہی ۔اللہ تعالی ان سب خواتین کو بھی اپنی خصوصی حمت سے نوازے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ پاکستان ائر فورس کے پائلٹون اور تمام عملے کو ہمیشہ ایسی ہی کامیابیاں عطا فرماتا رہے۔آمین)
ابرھہ کی فوج کی تباہی میں زیادہ عنصر بھگدڑ اور نفسیاتی اثرات لگتا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اپنے زمانے کے مختلف حادثات سے لگائیں ۔ جہاں کہیں بم دھماکہ ہوتا ہے۔ سینما یا بلڈنگ میں آگ لگتی ہے۔ تو زیادہ اموات بھاگتے انسانوں کا ایک دوسرے کو روندنا ہوتا ہے۔ حج کے دوران منیٰ میں آگ لگنے کے بعد جو سینکڑوں حاجی مر گئے تھے وہ ایکدوسرے کو روندے کی وجہ سے ہوا۔ جو کمزور گر گیاتو باقی سب اس پر سے گزرتے اسے مار ڈالتے ۔
عذاب الہٰی کا عنصر یا Factorبھی نفسیاتی ہے بنیادی طور پر ۔ جیسے کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک دشمن کو صرف نیزے کی انّی سے ہلکا سا زخم دیا تھا۔ جس سے عام حالت میں بند ہ بچ جاتا مگر وہ زخمی اتنا خوف زدہ ہو ا کہ وہ اس معمولی زخم سے ہی مر گیا۔ اس کو موت کا یقین ہو گیا تھا۔ کہ حضورؐ کے لگائے زخم سے بچنا مشکل ہے۔

اس واقعہ سے اخذکردہ سبق
انسان بار بار دور جاہلیت کی طرف واپس جاتا ہے
عرب , حضرت اسماعیل کے ذریعے دین ابراھیم ؑ کے پیروکار تھے۔ بعد میں بت پرستی کرنے لگے تھے ۔ مگر بت پرستی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھتے تھے۔ اور دوسرے عقائد کو بھی مانتے تھے۔ مگر بتوں کو خدا کے نائب اور نمائندے کی حیثیت دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کے ذریعے خداتعالیٰ سے مانگا جائے تو جلدی مل جاتا ہے۔ غرضیکہ غیبی خدا کی بجائے وہ عینی خدائی نمائندہ کی پوجا کرتے تھے۔ روایات میں ہے کہ عربوں نے واقعہ فیل کے بعد بت پرستی چھوڑ کر پھر کچھ عرصہ کے لئے دین ابراہیم کی طرف رجوع کر لیا تھا مبادا کہ وہ بھی اللہ کے عذاب میں گرفتار ہو جائیں۔ یہی سب سے بڑا نفسیاتی اثر تھا جو کہ عربوں پر پڑا۔ مگر یہ اثر زیادہ دیر پا ثابت نہ ہوا۔حضرت ام ھانیؓ اور حضرت زبیر بن العومؓ کی روایت ہے کہ”” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قریش نے 10سال اور (براویت بعض 7سال) تک اللہ وحدہ‘ لا شریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔ “”
اس واقعہ پر بہت سے شعراء نے قصائد کیے ان قصائد میں یہ بات بالکل نمایاں ہے کہ سب نے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اعجاز قرار دیا۔ جب کہ کہیں اشارۃ و کنایۃ بھی یہ نہیں کہاکہ اس میں ان بتوں کا بھی دخل تھا جو کعبہ میں پوجے جاتے تھے۔
۔ خود ہی سوچئے یہ نا قابل یقین واقعہ، بلکہ معجزہ، دیکھ کر عربوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے؟ ان کے دلوں میں اللہ کی ذات پر یقین محکم، اس کی بے پناہ طاقت و قوت پر پورا یقین اور اس کے احکام کی خلاف ورزی اور ناراضگی پر اس کی سزا کا خوف ۔ یہ سب ایمان کو تروتازہ کر گئے اور عربوں کو واپس صراط مستقیم کی طرف مائل کر گئے ہوں گے۔ اگر چہ اس وقت تک صراط مستقیم بذات خود صحیح طور پر واضح نہ رہا ہو گا۔ کیونکہ تب تک دین ابراہیم ؑ رسوم کی شکل اختیار کر چکا تھا۔لیکن انسان کے حافظے کا کیا کیا جائے کہ یہ بڑی سے بڑی مصیبت بھی وقت کے ساتھ بھول جاتا ہے۔ اور واپس اپنے باپ دادا کی رسوم کو پلٹ جاتا ہے۔ اس کے اسباب بھول جاتا ہے۔ اس کے نتائج پر اس کی نظر نہیں رہتی ۔ اور وہ پھر اس خیال غلط میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میں جو کچھ بھی اپنی مرضی سے کرتا رہوں مگر میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ فراغت اور امن ملنے کے بعد ایسی غلط فہمی انسانوںکے ساتھ عموماً ہوتی ہے کہ دوسروں کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے ۔ میرے ساتھ نہیں ۔ اور یہی سوچ اس کی نسلوں کو تباہی و بربادی کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی یاد دلاتا ہیکہ؛۔
“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسولؐ کی طرف تو کہتے ہیں کہ ہم کو تو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔(رسوم، پرم پرا) اور چاہے ان کے باپ دادے نہ علم رکھتے ہوںکچھ بھی اور نہ ہی راہ جانتے تو بھی۔(مائدہ 104)”اور جب کریں کچھ عیب کا کام، کہیں ہم نے دیکھا اس طرح کرتے اپنے باپ دادوں کو اور اللہ نے ہم کو یہ کرنے کا حکم دیا ہے۔تو کہہ: اللہ حکم نہیں دیتا عیب کے کاموں کا: کیوں جھوٹ بولتے ہو اللہ پر: جو معلوم نہیں رکھتے۔(اعراف 7 آیت 128)
عربوں کے ساتھ بھی واقعہ فیل کے اگلے دس سال میں ایسا ہی ہوا ۔ وہ اپنی بت پرستی کی عادت کی طرف لوٹ آئے ۔ اور اس واقعہ سے صرف وقت گننے کا کام لینے لگے ۔ کہ فلاں واقعہ2 عام الفیل میں ہوا ۔ یا 6عام الفیل میں۔ بہر صورت نیک
سیرت لوگوں پر اس واقعہ کا اثر پائیدار ہوا۔ اور وہ خدائے واحد کی طرف دل سے لوٹ آئے۔ اور خالق حقیقی کو ایک دفعہ پہچاننے کے بعد دوبارہ پتھروں کی پرستش سے باز رہے۔ حضور اکرم ﷺ کی نبوت کے وقت ایسے اصحاب ضرور موجود تھے جن کے دلوں میں ایمان تھا۔ جو بت پرستی سے نالاں تھے۔ مگر معاشرہ کے دبائو کی وجہ سے نہ بول سکتے تھے نہ کچھ کر سکتے تھے۔ ان حضرات کی موجودگی بھی غنیمت تھی کیونکہ انہی نفوس نے حضور اکرم ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا اور ابتدائی دور میں مدد گار ثابت ہوئے۔
انسان کتنے عرصے بعد پھر دور جاہلیت مین جاتا ہے؟ چند واقعات کا ٹائم پیریڈ کا حساب نوٹ کریں کہ واقعہ فیل سے صرف چالیس سال بعدہی قریش اور مکہ کے مشرکین و کفار نے حضور اکرم ﷺ کے اعلان نبوت کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس سے پہلے بنی اسرائیل نے، حضرت موسی کے کوہ طور پر صرف چالیس دن چلے جانے کے دوران ہی بت بنا کر پوجنا شروع کردیا تھا۔نعمت شاہ ولی کی پیشگو یوں میں بھی یہی لکھا ہے کہ مستقبل میںمسلمان پورا ہندوستان فتح کر لیں گے مگر چالیس سال بعد ہی ان میں برائیاں پھر سے ابھر آئیں گی۔
حضور اکرم ﷺ کی وفات کے صرف بیس سال بعد حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں بنی ہاشم اور بنو امیہ کے سیاسی اختلافات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے اور وہ شہید کر دئے گئے تھے۔ پھر حضرت علی ؓ کی خلافت 40 ہجری میں ان کی شہادت کے نتیجے میں ختم ہوئی یعنی حضور پاک ﷺ کی وفات کے صرف تیس سال بعد۔ حضرت امام حسینؓ کو 61 ہجری میں حضورﷺ کے صرف پچاس سال بعد شہید کردیا گیا۔یعنی اسلامی انقلاب کے بعد صرف پچیس سال بعد ہی دنیاوی مفادت کے لئے دوڑ شروع ہو گئی تھی اور اللہ تعالی کی واضح ہدایت کہ آپس میں تفرقہ نہ ڈالو، کو بھول گئے۔ مسلمانوں کے انقلاب کا دنیا کے دوسرے انقلابوں سے موازنہ بڑا دلچسپ ہے۔
چینی انقلاب1948 میں آیا تھا مگر وہ اب بھی ترقی کی طرف گامزن ہے اور دنیا کی بڑی طاقت بن گیا ہے۔کیوں ؟
سنگاپور، جنوبی کوریا ،انڈیا سب ترقی یافتہ ملک بن گئے ہیں ان کے انقلاب مستحکم ہیں۔ کیوں۔ْ؟
ملائشیاء اور ترکی ، دونوں اسلامی ملک ، اسلام اور دنیاوی ترقی کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہے ہیں مگر ان کے لیڈروں کے خلاف اپنے ہی کیوں مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔کیوں؟
پاکستان بننے کے صرف چوبیس سال بعد ہم دو قومی نظریہ بھول چکے تھے اور آدھا ملک کھو دیا۔ کیوں۔؟
اس واقعہ فیل کے نفسیاتی اثرات کو سمجھنے کے لئے پاکستان کی اپنی مثال سے بہتر کوئی مثال نہیں دے سکتا کیونکہ اس مثال کی تفصیل سب جانتے ہیں۔ اور اس سے موازنہ کر کے ہم نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ 1947؁ء کے وقت کے عذاب ، مشکلات ، قربانیوں، مصائب کا اندازہ کریں۔ اور اس کے صرف دس پندرہ سال بعد کی زندگی دیکھ لیں کہ ہندوؤں کی پراپرٹی کے پیچھے ہر اصول بھول گئے ۔ صرف چند ہی سالوں میں ہم اللہ تعالیٰ کے امتحان کو بھول کر پھر اپنی پرانی روش پر آگئے ہیں۔ بجائے شکر ادا کرنے کے ۔ اسی طرح 1971؁ء کی جنگ اور شکست اور ملک کا آدھا حصہ گم کرنے کے باوجود ہمارے اعمال میںبحیثیت قوم ذرہ برابر فرق نہیں پڑا۔ اور نہ ہی ہم نے کوئی سبق سیکھا ہے۔ نہ ہی بدلہ لینے کا ارادہ کیا۔ بلکہ وہ لوگ بھی جو بذات خود اس قیامت سے گزر کر آئے تھے ۔ وہ بھی اسی طرح افعال بد میں مبتلاہیں جیسے وہ لوگ جنہوں نے صرف ان واقعات کو سنا ہے ۔ یعنی اگر ہمارے زمانے کے انسان ایسے ہیں تو اس زمانے کے عرب بھی نسبتا ً ہم جیسے ہی ہوں گے۔
جگ بیتی سے کبھی کوئی انسان نہیں سیکھتا ۔ صرف چند لمحے سوچ لیتا ہے۔ آپ بیتی سے کچھ عرصے کے لئے اثر لیتا ہے۔ پھر ان کو بھول کر اپنے انہی اعمال میں گم ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے آپ بیتی کو جنم دیا تھا ۔ ہمیں عربوں کے اس رویے پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ اس قوم کا جو پستی کی طرف مائل ہو یہی طریق رہا ہے۔ اپنے تجربات کو بھول جاتی ہیں۔ نہ ہی ان سے سیکھتی ہے نہ ہی اصلاح کا سوچتی ہے۔ اور پھر دور جاہلیت کی طرف لوٹ جاتی ہے۔دور جاہلیت دراصل کسی خاص زمانے کا نام نہیں بلکہ جب بھی کوئی قوم کسی بھی قانون کو ماننے کی بجائے اپنی مرضی کرنے لگے تو جاہلیت کا دور شروع ہو جاتا ہے۔جس کو صرف ڈر سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔کیا ہم2012؁ء میں اسی دور میں نہیں رہ رہے۔؟
اوپر کی بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ،لوگوں کے حافظے بڑے کمزور ہوتے ہیں۔ یہ ہر بار اللہ کی مرضی کی بجائے اپنی مرضی کرنے کی طرف لوٹ جانا پسند کرتے ہیں۔اور ہر بار نقصان اٹھاتے ہیں۔آج بھی وہ قومیں ترقی یافتہ اور دوسروں پر حاوی ہیں جو کسی قاعدے،قانون اور اصولوں پر زندگی گزارنے کی عادی ہیں اور اپنی مرضی نہیں کرتیں۔
دوسرا سبق ؛۔لیڈر ہی ہر ملک، معاشرے میں اچھائیاں یا برائیاں پھیلانے کا باعث ہی بنتے ہیں
“انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ بناتا اور ٹھہراتا ہے مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے (204) البقرہ۔جب اسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے۔ کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے۔ حالانکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ (205) جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو ۔ تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لئے بس جہنم ہی کافی ہے اوروہ بہت برا ٹھکانا ہے (206)البقرۃ۔
میرے خیال میں ، مسلمان ملکوں میں ،بری حکومت، بنیادی طور پر سب لیڈرشپ کی خامیوں کی وجہ سے ہے۔ ہمارے لیڈروں کی وفاداریاں کبھی بھی عوام کے ساتھ نہیں رہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی اپنے آپ کو عوام کے ساتھidentify کیا ہے ۔وہ ہمیشہ عوام کو محکوم اور غلام سمجھتے رہے ہیں ۔اس کے بر عکس انگریزوں کی ہندوستاں میں حکومت کی مثال ہے کہ انہوں نے ہمیشہ عوام کو اپنا سمجھ کر انکے لئے یونیورسل تعلیم کو عام کیا۔ ریلوے ، نہریں بنائیں، قوانین بنائے، سسٹم دئے جو آج تک چل رہے تھے مگر موجودہ حکمران ان تمام اداروں، سسٹم کو بار بار اپنے مفادات کے لئے تبدیل کر کے تباہ کرنے کے درپے ہیں۔جبکہ انڈیا میں اب بھی گوروں کے سسٹم کے تحت حکومتیں کامیابی سے چل رہی ہیں۔

پاکستانی عوام بھی کچھ حد تک قصور وار ہیں۔وہ بھی بڑی جلدی میں ہیں۔اس لئے لالچ میں اپنے آپ کو دوسروں کی غلامی میں دینے کے لئے ہم وقت تیار رہتے ہیں۔آپ تمام پیغمبروں کی کہانیاں پڑھیں تو اس وقت کے بادشاہ،یا چوھدری جو کہتے تھے وہی عوام کرتے تھے۔ مگر ان عوام کو قیامت کے دن کیسا حشر ہوگا وہ قرآن کی زبانی سنئے؛۔
“”کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں ان کے ایسے گردید ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گردیدگی ہونی چاہیے۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ کا ش جو کچھ عذاب کو دیکھ کر انہیں سوجھنے والا ہے۔ وہ آج ہی ان ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں۔ اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔ (165)البقرہ جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہو گی کہ وہ پیشوا اور رہنما جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی اپنے پیرئوں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے۔ مگر سزا پا کر رہیںگے اور ان کے سارے اسباب وو سائل کا سلسلہ کٹ جائے گا (166) البقرہ اور وہ لوگ جو دنیا میں انکی پیروی کرتے تھے کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری ظاہر کر رہے ہیں ہم ان سے بیزار ہو کر دکھا دیتے۔ یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے ۔ مگر آگ سے نکلنے کو کوئی راہ نہ پائیں گے۔ (167) البقرۃ۔یہ سب کچھ اس وجہ سے ہو اکہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے (176)البقرۃ
اسلام کے وقت بھی اگر قبیلے کا سردار مسلمان ہو گیا تو پورا قبیلہ اسلام قبول کر لیتا تھا۔حضور اکرم ﷺ کے بعد بھی بنی ہاشم/ بنو عباس اور بنو امیہ کی لیڈر شپ میں لڑائی ہی نے بڑے نقصان پہنچائے۔قائید اعظم کے بعد پاکستان میں ایک بھی لیڈر نے عوام کی بھلائی نہیں سوچی۔ ذاتی مفادات کو ہی آگے بڑھایا ہے۔
تیسرا بڑا نتیجہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ
جس عیسائی یا یہودی ملک، قوم میں مذہبی لیڈر کو اثر و رسوخ ملے گا تووہ اپنے دنیاوی مفادات کے لئے مذہب کے نام پر ، ثواب کمانے کے نام پر، مسلمانوں کے خلاف شورش ضرور کرے گا جس کا نتیجہ ہمیشہ قتل و غارت کی صورت میں نکلے گا۔ اس کی تازہ مثال مذہبی ذہن رکھنے والا امریکی صدر بش اور اس کا گروہ تھا جس نے تیل پر قبضہ کے لئے مذہب کو ذریعہ بنایا تھااور مسلمان ملکوں پر 9/11 کا بہانہ بنا کر حملہ کردیا تھا۔ اس سلسلے میں مسلمان بھی قصوروار ہیں کہ بغیر کسی طاقت اور تیاری کے نعرے لگانے لگ پڑے کہ یہ صدی مسلمانوں کی ہے اور یوںتما م غیر مسلم طاقتوں کو ڈرا دیا اور حفظ ما تقدم کی پالیسی کے تحت انہوں نے ایکا کر کے مسلمانوں کو ہر لحاظ سے کمزور کرنے کی پایسی اپنا لی ہے۔
ابرھہ کے بعد تمام یورپی ممالک کے عیسائیو ں نے، اپنے بادشاہوں کی لیڈرشپ میں، صلیبی جنگوں یاکروسیڈ کے نام پر1100؁ ء میں پھر مڈل ایسٹ پر حملے کر کے مسلمانوں کے ممالک پر قبضہ کر کے سب کو قتل کر دیا۔مسلمانوں کو جب دیڑھ سو سال بعدسلطان صلاح الدین ایوبی کی لیدرشپ ملی تو انہوں نے ان سب کو مار بھگایا اور آزدای حاصل کی۔ اسی طرح مسلم سپین پر مذہب کے تعصب اور نام پر فتح کے بعد یا تومسلمانوں کو قتل کر دیا گیا تھا، یا عیسائی بنا لیا یا جلاوطن کر دیا حتی کہ ایک مسلمان بھی نہ بچا۔ ہندوؤں نے بھی یہی مقصد بنایا ہوا ہے کہ اس علاقے سے سب مسلمانوں اور عیسایوں کو نکال دینا ہے۔آئر لینڈ میں کیتھولک عیسایوں نے غلبے کے لئے دہشت گردی شروع کی ہوئی تھی جو بل کلنٹن نے ختم کروائی۔ پاکستان میں آج کل مسلمان ہونے کے باوجود مسلک کے نام پر تعصب پھیل رہا ہے جس سے فساد کی شکل بن گئی ہے۔میں اس موضوع پر سوچ کے لئے آپ کو دعوت دے رہا ہوں کہ آپ خود بھی سوچئے۔ کیا ہم مذہبی ہونے کی جگہ اللہ والے نہیں بن سکتے۔اللہ والے لوگ تو ہر انسان سے محبت کرتے ہیں۔اسی لئے حضور اکرم ﷺ نان مسلموں کے لئے اتنے فکر مند رہتے تھے کہ ان کو آگ سے کیسے بچایا جائے حتی کہ اللہ تعالی کو سمجھانا پرا کہ آپ ﷺ فکر مند نہ ہوں ہدایت دینا میرا کام ہے آپ کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔ہمیں بھی اس سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے نان مسلم لوگوں کی فکر کر کے انہیں آخری نبی ﷺ کے ذریعے، اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے لئے، محبت اور حکمت سے دعوت دینے کا ارادہ کرنا چاہئے۔ محبت ہی ہمیشہ فاتح عالم بنتی ہے۔آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں بار بار سوچنے، غور و فکر،تدبر کی دعوت دیتا ہے۔مگر ہم اس کے کلام کو صرف مذہبی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں جبکہ ہر آیت میں اس دنیا کی زندگی کے لئے بھی ان گنت سبق پوشیدہ ہیں جن کو ہماری مذہبی یا سیاسی لیڈرشپ سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ جبکہ مغربی دنیا نے یہ سیکھ لیا ہے۔اسی وجہ سے انہوں نے حضور اکرم ﷺ کے میثاق مدینہ کی طرز پر اپنے ملکوں میں نظام رائج کیا ہے کہ کسی بھی ملک، مذہب، کلچر کا بندہ ہو، اس کی ایک دوسرے سے تعلق کی بنیادصرف اس ملک کی شہریت ہے،باقی ساری باتیں ذاتی ہیں اور کوئی کسی کی ذاتیات میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ اگر ہم نے بھی مذہب، مسلک، زبان، نسل علاقائی تعصبات سے جان چھڑانی ہے تو ہمیں بھی،اندرونی امن لانے کے لئے، میثاق مدینہ پر عمل کرنا ہوگا اور آپس میں تعلق کی بنیاد صرف پاکستانی شہری ہونے پر قائم کر نی ہوگی۔؟ یعنی سنت نبوی ﷺ کی طرف لوٹنا ہوگا۔ـ” جس میں مدینہ کے مسلمان مہاجرین و انصار،یہود کو ایک امہ یا کمیونٹی قرار دیا گیا تھا اورہر ایک اپنے مذہب یا کلچر کو پریکٹس کرنے میں آزاد تھا۔مگر داخلی امن کو یقینی بنانے اور خارجی حملہ کی صورت میں سب مل کر کام کریں گے۔”

اختتامیہ
اصحاب الفیل کے ساتھ کیا گزری، وہ کیسے تباہ و برباد ہوئے ۔؟ اس کی تفصیل میں نے بیان کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا دائو یا پلان فیل کر دیا اور اپنی غیبی مدد سے فوج کو تباہ کر کے بھس یا چارہ کھائے ہوئے کی طرح کر دیا یعنی کچھ مارے گئے ،کچھ روندے گئے ، کچھ زخمی ہئے، باقی بکھر گئے اور یوں ختم ہو گئے ۔ اللہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔ ان اللہ علی کل شی قدیر میںنے پرندوں کے کنکر وں سے، انسانوں اور جانوروں کا قتل زخمی ہونا ممکن ہے،ثابت کر دیا ہے۔ جس کی زندہ مثال اب پرندوں کی بجائے ہوائی جہاز اور کنکروں کی جگہ بم ہیں جو کہ انسان کی ایجاد ہیں ۔ اگر انسان اپنی عقل سے یہ کر سکتا ہے کہ کشش ثقل کو بطور ہتھیار استعمال کر سکے ،تو قادر مطلق کے لئے کیا مشکل ہے۔ رہی مافوق الفطرت عمل (Behaviour) کہ پرندے ایسا کام نہیں کرتے، تو یہی تو معجزہ کہلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے، اپنی اس دنیا کے قوانین فطرت کو نظر انداز کر کے، اپنی مرضی اور حکم کے مطابق، کن فیکوں کے قانون کو استعمال کرسکتاہے اورتبھی، ایسی ہی چیزیں ، باتیں کر کے وہ اپنے قادر مطلق ہونے اور انسان کے بے بس ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور اس میں بھی لوگوں ، انسانوں کی بھلائی کا ہی ارادہ ہوتا ہے۔ کہ لوگ سمجھ کر اپنے غلط اعمال، من مانی کرنے کے طریقے چھوڑ کر اس کے بتائے ہوئے طریقوں اور اس کی مرضی پر دوبارہ عمل کرنا شروع کر دیں۔ یہ اس ذات باری تعالیٰ ، رحمٰن و رحیم کی محبت ہی ہے، اپنی مخلوق کے لئے ،کہ وہ انہیں غلط کاریوں کے نتیجے میں ہونے والے مستقبل کے مستقل عذاب سے بچائے ۔ا گر کوئی کہنا نہ ماننا چاہے، تو اس نے تو انسان کو ارادہ و اختیار ہی اسی لئے دیا ہے کہ اس پر ہی اس کا حساب ہو گا۔ کہ اس نے خیر کو یا شر کو اپنی مرضی سے یعنی By choice اختیار کیا تھا۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ سورۃ فیل کے اس سائنسی جائزے سے اور ہوائی طاقت کے موازنے سے بخوبی یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اس واقعہ کے بیان سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اپنی مرضی کرنے، تکبر سے اللہ تعالی کو چیلنج کرنے کی بجائے ہمیں اس کہ حاکمیت، ربوبیت کو دل سے تسلیم کر لینا چاہئے اور اسکی طرف رجوع کر کے اس کی بندگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کتاب پڑھنے کے بعدہمیںیہ فیصلہ کر نا بھی ضروری ہے کہ اگر اصحاب الفیل کے ساتھ جو کہ غلط ارادہ سے آئے تھے۔ غلط کاری پر مائل تھے۔ اللہ نے یہ سلوک کیا تھا۔ ،تو وہ ہماری غلط کاریوں پر بھی سزا دینے پر قادر ہے۔ اس لئے سزا سے پہلے دوسرو ں کے تجربہ سے سبق حاصل کر کے اپنی اصلاح کر لینی چاہیے۔انسان چونکہ ہمیشہ دوسروں کو دیکھ کر اور نقل کر کے سیکھتا ہے ،اسی لئے جب اللہ تعالی فرماتا ہے کہ
وَمَآ اَرْسَلنٰکَ اِلاَّ رَحمَۃً لِلعٰلَمِینo (سورۃ انبیاء۔آیت 107)
’’ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ تفہیم القرآن
We sent thee not save as a mercy for the peoples.(107-21) Pikthal
لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہ اُسوَۃٌحَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرجُو اللّلہَ والیَومَ الآخِرَ وَ ذِکْرَاللّٰہ کَثِیراًo (سورہ احزاب۔آیت 21)
’’در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘ تفہیم القرآن
Verily in the Messenger of Allah Ye have a Good Example for him who looketh unto Allah and the last Day, and remembereth Allah much. (21-33) (Pikthal)
تو وہ ہمارے لئے رول ماڈل مقرر فرما رہا ہے کہ ان کی نقل کرو۔اپنی مرضی نہ کرو۔ اگر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونا ہے۔
اس لئے میرے خیال میں ہر مسلمان اگر روزانہ ایک رکوع قرآن پاک اور سیرت کی ایک بات پڑھنا ،اس پر غور و فکر کے بعد اس پر عمل کرتا رہے تو پھر کبھی باپ دادا کی رسوم کی غلط رسوم کی طرف نہیں لوٹے گا۔انشائاللہ
تمام کلام پاک انسان کو اس کی حیثیت، کمزوری، بے بسی یاد دلاتا ہے کہ وہ ایک حقیر پانی سے پیدا کیا گیا ہے اور وہ ایک زمانے میں کوئی قابل ذکر شئے نہیں تھا مگر جب اللہ تعالی اسے جسمانی طاقت دے کر دنیا کی نعمتیں دیتا ہے تو وہ سب کچھ بھول کر ،فرعون کی طرح، لوگوں کے لئے خدا بننے کی خواہش اور کوشش کر بیٹھتا ہے جو غلط بات ہے۔خلاف حقیقت بات ہے۔وہ رہتا انسان ہی ہے۔ کمزور و بے بس۔اسی لئے حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر کسی کا پیشاب بند ہو جائے تو اس تکلیف سے نکلنے کے لئے وہ تمام دنیا کی دولت دینے پر رضی ہو جائے گا،یہ ہے انسان کی بے بسی کا ثبوت۔ پھر اکڑ کس بات پر۔؟ کیا اپنے باس کی بھی تکبر سے نافرمانی کی ہے۔؟ اگر کرنے کی ہمت نہیں، تو پھر اللہ کی نافرمانی کی جرات بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے۔؟
لیکن سب سے اہم بات تو اللہ تعالی کے اس پیغام کو سمجھنے کی ہے جو وہ یہ واقعہ بیان کر کے ہمیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔یعنی اس کی حاکمیت اعلی کو دل سے تسلیم کر کے اس کی مرضی کے مطابق چلا جائے۔ گمراہ کرنے والے ہمارے سیاسی اور مذہبی لیڈران ہی ہیں جیسے کہ قریش کے لیڈر تھے۔ اسی لئے ہمیں سنی سنائی باتوں کی جگہ خود سوچ کر فیصلے کرنے چاہیئں کیونکہ ہمارا یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ ہم نے تو فلاں فلاں کے کہنے پر عمل کیا تھا۔لیڈر ہمیشہ سے لوگوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر پرے پھینک دیتے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی عوام کے مفادات کی حفاظت نہیں کی۔ اللہ تعالی ہمیں سوچ سمجھ عطا فرمائے۔آمین
باقی سوالات کب حل ہوتے ہیں۔؟ یہ وقت کی بات ہے۔ جب علم اور بھی زیادہ وسیع ہو جائے گا۔
میں اللہ تعالی کا پیغام پہنچانے میں کہاں تک اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ہوں ۔ اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں ۔ اگر آپ کے پاس ایسا مواد ہو جو اس کوشش کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہو تو برائے مہربانی میرے پتہ پر ضرور لکھیں۔ اور اپنی رائے سے بھی آگاہ کریںتا کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کے اضافہ سے (جو کہ شکریہ کے ساتھ ہو گی) اس کتاب کے مندرجات کو زیادہ سے زیادہ مکمل کیا جا سکے ۔
اگر میں نے اس حقیر سی کوشش سے آپ سب کو اس پر قائل کر لیا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے ایک خاص سوچ ،سمجھ دی ہوتی ہے جو کہ آپ کے علم اور ذاتی تجربہ پر مبنی ہوتی جو دنیا کے کسی اور انسان کو نہیں دی ہوتی،اسی کو علامہ اقبال خودی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس پر مبنی سوچ کو استعمال کر کے کلام پاک کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اس سوچ اور ریسرچ کو شیئر کرنا ضروری ہے۔ تبھی یہ دنیا بہتر سے بہتر رہنے کی جگہ بنتی جائے گی۔انشاء اللہ۔

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے۔
۔ــ””۔اے ہمارے رب ۔نہ پکڑ ہم کو اگر بھولیں یا خطا کریں،
اے رب ہمارے۔:اور نہ رکھ ہم پر بوجھ بھاری جیسا رکھا تو نے اگلوں پر،
اے رب ہمارے:اور نہ اٹھوا ہم سے جس کی طاقت نہیں ہم کو،:
اور درگزر فرما ہم سے،اور بخش ہم کو، اورحم کر ہم پر،
:تو ہمارا آقا اور مولی ہے؛
اور مدد کر ہمار ی قو م کافر پر۔ ” بقرہ۔286
و ما توفیقی الا با للہ ا عظیم
االحمد للہ رب ا لعالمین۔کہ یہ پرو جیکٹ تکمیل کو پہنچا۔

جمعۃ المبارک گروپ کیپٹن(ر) امتیاز علی

مصنف کا پیغام
یہ e-bookکتاب ابھی ایک علمی کاوش ہے اورمسودہ کی شکل میں ہے ۔ ابھی چھپی نہیں ہے۔ یہ مسودہ کاپی رائٹ نہیں ہے ۔ ۔ پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اس میں کسی قسم کی غلطی ہو تو مطلع فرمائیں ۔ اگر دلائل میں کمی محسوس کریں تو اپنی تجاویز ضرور بھیجیں۔ اگر کوئی صاحب اس کا انگریزی ترجمہ کر کے مجھے بھیج دیں تو وہ ان کے تعارف اور شکریہ کے ساتھ ویب پر ڈال دی جائے گی۔
اگر اس کتاب کو اس قابل سمجھتے ہیں تو اپنے دوست ، احباب سے ضرور شیئر کریں۔
حوالہ جات REFERENCES
1 سورۃ الفیل ترجمہ و مختصر تفسیرمولانا اشرف علی تھانوی ؒ
2 سورۃ الفیل تفسیر تفہیم القرآن مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒ
3 ابرھہ ۔ اسلامی انسائکلو پیڈیا
4 اصحاب الفیل۔ اسلامی انسائکلو پیڈیا
5 گولی کی قوت ہلاکت JANE’S WEAPON SYSTEMS 1979.
6 گیس گنگرین کی بیماری کی تفصیل

Reviews

There are no reviews yet.

Be the first to review “اصحاب الفیل”

Your email address will not be published. Required fields are marked *